اسلامی یونیورسٹی کو کیوں بد نام کیا جا رہا ہے؟

یہ تو خود دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے ابلاغ عامہ کے مختلف پروگراموں ، تحریروں اور تجزیوں میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد زیر بحث ہے۔ کسی ادارے کا زیر بحث آنا بذات خود نقصان دہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے ادارے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے لیکن بد قسمتی سے اسلامی یونیورسٹی کو دہشت گردی اور
ا نتہا پسندی سے جوڑا جا رہا ہے ۔ اس امر نے مجبور کیا ہے کہ یہ چند سطور تحریر کی جائیں ۔

مکرمی! پندرہویں صدی ہجری کے آغاز میں دُنیا بھر میں چند اسلامی یونیورسٹیاں قائم ہوئی تھیں اُن میں سے اہم ترین اسلام آباد کی یہ یونیورسٹی اور ملائیشیا کی اسی طرز کی یونیورسٹی تھی۔ 1980ء میں 13 طلبہ کے ساتھ شروع ہونے والی یہ یونیورسٹی اب 25 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات کو مختلف علوم و فنون میں تعلیم دے رہی ہے ۔ بہت سے لوگ لفظ ’’اسلامی‘‘کو دیکھتے ہی یہ نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ یہ کسی مدرسے کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہو گی۔ بلاشبہ مدرسہ ایک محترم ادارہ تھا۔ رسول اکرمﷺ نے پہلا مدسہ ’’الُصفہ ‘‘کے نام سے قائم کیا تھا۔ اس لحاظ سے مدرسہ کی بہترین شکل ہونے پر بھی کسی قسم کی شرمندگی نہیں ہونی چاہئیے لیکن بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اس سے بڑھ کر ہے ۔ اس میں روایتی اور عصری ہر طرح کے علوم کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ تما م سائنسی علوم پڑھائے جا رہے ہیں سوائے طب کے اور جلد ہی طب کا شعبہ بھی قائم ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت یونیورسٹی میں نو (9 ) کلیات اورچالیس) (40 شعبہ جات ہیں ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام کلیات اور شعبہ جات طالبات کے لئے الگ ہیں ۔ اس طرح یہ دو یونیورسٹیاں ایک ساتھ چل رہی ہیں ۔ یونیورسٹی کے تحت کئی تحقیقی ادارے اور اکادیمیاں بھی الگ سے موجود ہیں ۔
اس وقت پروپیگنڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی دہشت گردی کی آ ماجگا ہ بنی ہوئی ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یونیورسٹی تو چند سال قبل دو بم دھماکوں میں خود کئی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو چکی ہے یعنی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے ۔ وہ کیوں ناراض ہیں؟اس لئے کہ یونیورسٹی میں تنوع پایا جاتا ہے ۔ مختلف زاویہ ہائے نظر کے لوگ موجود ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ہونا بھی یہی چاہئیے۔ ایک دوسرے کی رائے کو احترام سے سُنا جا نا چائیےے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کی آزادی ہونی چائیے، اسلامی یونیورسٹی میں لوگ ایک دوسرے کی سُنتے ہیں اور سن کر اپنی رائے قائم کرتے ہیں لیکن اپنی رائے مسلط نہیں کرتے ۔ یونیورسٹی کے دروازے کھلے ہیں جسے بھی اعتراض ہو خود اپنی آ نکھوں سے جائزہ لے سکتا ہے ۔
Syed Muzamil Hussain
About the Author: Syed Muzamil Hussain Read More Articles by Syed Muzamil Hussain: 41 Articles with 61943 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.