خود ساختہ صحافی اور فلسفی

ٹوئٹر اور فیس بک فلسفیوں کو ایک بات ذہن نشین کرنی چاہیے وہ یہ کہ کوئی فیس بک دوست لڑکی، لڑکا یا کوئی بھی خود ساختہ صحافی، فلسفی جو بات کر رہا ہے وہ حرف آخر نہیں ہے۔

دنیا مفادات میں تقسیم ہو گئی ہے۔ مذہبی، فرقہ وارانہ، گروہی، علاقائی حتی کہ ذاتی مفادات تک- بعض اس عمل کو شہہ دینے میں پیش پیش ہیں۔ مذہبی، فرقہ وارانہ، گروہی، علاقائی مفادات کے لیے تفرقہ بازی، فساد پھیلانا، آگ لگانا عام سی بات ہو گئی ہے۔

کچھ خود ساختہ صحافی اور فلسفی جو کبھی مشکل سے ہی گھروں سے باہر نکلتے ہوں گے بات ہی فساد سے شروع کرتے ہیں اور معاشروں کو مذہبی، فرقہ وارانہ، گروہی، علاقائی لڑائیوں میں دھکیلنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان عناصر کا کام ہی ان تنخواہوں اور ڈالروں پر چلتا ہے جو ان کو دنیا کو چلانے اور اپنے ہاتھوں میں رکھنے والے امریکی و مغربی طرفداروں سے ملتا ہے- ایک نئی قسم جو جھوٹ اور دغا پر مبنی بھارتیوں کی ہے بھی اس میں پیش پیش نظر آتی ہے حتی کہ بھارت میں 80 کروڑ بھوکے ننگے بدن غربت کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں لیکن ان کو پاکستان کی اچھائی، کسی ترقیاتی منصوبے، حتی کہ دوسرے ممالک سے تعلقات پر موت پڑی رہتی ہے۔

اب اگر کوئی شدت پسند عنصر چاچا، ماما، تایا، فسادی، بھارتی یا کوئی اور دشمن مذہبی، فرقہ وارانہ، گروہی، علاقائی حتی کہ ذاتی مفادات کو لے کر جھوٹ پر مبنی منفی پروپیگنڈہ کر رہا ہے اور ایک معاشرے میں مذہبی، فرقہ وارانہ، گروہی، علاقائی تقسیم کا موجب بن رہا ہے تو اس پر اپنی عقل سلیم کا استعمال کرتے ہوئے سوجھ بوجھ سے کام لے کر ایسے کرداروں کا نہ صرف پردہ فاش کریں بلکہ ضرورت پڑنے پر پولیس، فوج اور سیکیورٹی کے اداروں کو مطلع کریں۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ ہم فیس بک اور ٹوئٹر فلسفیوں کو جتنی آزادی ملی ہے تھوڑی زیادہ ہے۔ آزادی کے حق میں جتنا ایک انسان کو ہونا چاہیے شاید ہی کبھی کوئی انسان دنیا میں وہ آزادی حاصل کر سکے- مادر پدر آزادی-

لیکن کسی بھی انسان کو کبھی بھی کسی کی دل آزاری، تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ اگر تو آپ کو کوئی عمل، بات حتی کہ سوچ جھوٹ، نقصان دہ، غلط لگتی ہے تو یقینا اپنی عقل، علم اور سوچ کے مطابق اس کی مخالفت کریں چاہے مذاق ہی اڑائیں۔ لیکن فضول ایزا رسانی، تماش بینی کی حد تک مخالفت، مخالفت برائے ذاتی مفادات ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ اور اگر ہمارا عمل سراسر گروہی، فرقہ وارنہ، تقسیمی یا طرف داری ہے تب تو یقینا بہت ہی گھٹیا عمل ہے۔
Chaudhry Muhammad Rashid
About the Author: Chaudhry Muhammad Rashid Read More Articles by Chaudhry Muhammad Rashid: 46 Articles with 28674 views Honest Person.. View More