دورِجہالت لوٹ آیا؟

مردو زن میں تفریق تخلیق آدم سے ہی رہی ہے اور بعد از زمانہ یہ تفریق خوفناک صورت اختیار کرگئی جب وجود زن اس مٹی پر بوجھ نظر آنا شروع ہوگیا۔ کبھی حوا کی بیٹی کو فرسودہ رسومات کی بھینٹ چڑھ گیا تو کبھی خاندانی وسائل پر بوجھ سمجھ کر اسے ناحق موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔حالانکہ قرآن پاک نے واضح طور پر تنبیہہ کردی " اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کیا کرو" (سورۃ انعام) زندہ درگور کردینے والے دل کو ہلا کررکھ دینے والے مناظر بھی اسی صفحہ ہستی پر رونما ہوئے۔ رحمت اللعالمین کی آمد کے وقت بیٹیوں کو زندہ درگور کردینے کا بھیانک سلسلہ جاری تھا ۔ آپ ؐ نے عورت کو بطور ماں جنت، بیٹی بطور رحمت اور بیوی بطور راحت کے مقدس عہدوں پر فائز کیا اور دورِ جہالت کے بیہودہ تصّورات کی نفی فرمائی۔

وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اولاد ابلیس کے وہ ملعون طور طریقے آج بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ میں حوالہ دے رہی ہوں میرے اپنے شہر جتوئی کے ایک نواحی علاقہ کا جہاں چھ سالہ معصوم زہرہ کو ایک جعلی پیر کی ہدایت پر زندہ دفن کردیاگیا۔ محمد اکرم نامی سنگدل باپ اور فرحت نامی بے رحم ماں نے ایک جعلی پیر خالد کے کہنے پر اپنی چھ سالہ لے پالک بیٹی زہرہ کو اس لیے زندہ دفن کردیا کہ اس امر کے بعد انکی اپنی اولاد ہوگی۔ مولوی عبدالرزاق نے اس بچی کا جنازہ پڑھایا۔ اس سے پہلے پیر کی ہدایت کے مطابق اس بچی کو مختلف ہڈیوں اور خوشبو کے پانی میں نہلایا گیا اور پھر دو گھنٹے کے لیے دفن کیاگیا۔ قدرت نے اس معصوم زہرہ کو زندہ تو بچا لیا لیکن وہ ایک زندہ نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ اس بچی کے جب اصل والدین اس سے ملنے آئے تو بچی کی حالتِ غیر دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ جب بچی نے اصل حقیقت سے پردہ فاش کیا تو اس کے اصل والدین کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ان کے مطالبہ پر پولیس نے محمد اکرم ، فرحت بی بی اور مولوی عبدالرزاق اور ڈبہ پیر خالد کو گرفتار کرلیاہے اور تفتیش جاری ہے۔

اب یہاں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ اسلام اور قرآن کے واضح احکامات اور دلائل کے باوجود بیٹیوں کے ساتھ یہ توہین آمیز اور ہتک آمیز رویہ کیوں؟ بیٹی کے ساتھ ہی یہ وحشت اور بربریت کیوں؟ ارشاد ربانی ہے " اور جب زندہ دفن کی ہوئی (لڑکی) سے سوال کیا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی" التکویر  اور کچھ ناداں والدین اپنی بیٹیوں کو زحمت سمجھتے ہیں اور مالی لحاظ سے بوجھ تصور کرتے ہیں اور انکی پیدائش کے وقت سے پریشان ہونا شروع ہوجاتے ہیں کہ انکاجہیز کہاں سے آئے گا اور انکی کفالت کیسے ہوگی ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کو خوشی دیتاہے تو اسے بیٹا عظا کرتاہے اور جب رب تعالیٰ کسی شخص سے خوش ہوتاہے تو اسے بیٹی عطا کرتاہے۔ اتنی بڑی فضیلت کے باوجود جہالت نے لوگوں کے دل ودماغ پر قفل لگا رکھے ہیں۔قرآن پاک اس کی تصویر کشی یوں کرتا ہے "اور جب اسے لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اسکا چہرہ سیاہ پڑ جاتاہے اور شرم کے مارے لوگوں سے چھپتا پھرتا رہتاہے"۔ بیٹیوں کی اچھی تربیت ، اچھی کفالت اور احسن طریقے سے انکی رخصتی پر تو سرورِ کائنات نے جنت کی خوشخبری سنا رکھی ہے۔

آج احکام الہٰی اور شریعت محمدی کو بالا طاق رکھ کر کبھی عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے تو کبھی اس پر تیزاب پھینکا جارہاہے ۔ کبھی اسے بھائی کی کارستانیوں پر قربان کیاجارہاہے تو کبھی باپ کی نام نہاد انا کے نام پر۔ زمانے میں بڑھتی ہوئی بے حسی کی سزا صرف ایک صنف کو ہی کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ جسمانی طور پرنحیف ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ بیٹے کی طرح بغاوت پر نہیں اتر آتی ۔ صرف اس لیے کہ اس نے ظلم سہنا سیکھ لیا ہے یا پھر اس لیے کہ اس نے ہررشتہ کو حقیقت میں نبھایا ہے۔

تحصیل جتوئی میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ۔ اس سے پہلے پیر کے کمرے سے خواتین کی نعشوں کی برآمدگی، آمنہ بی بی کا خود کو آگ لگاکر خود کشی کرنا، سگی پھپھیوں کا بھتیجوں کو زہر دینا۔ رخسانہ پر تیزاب گردی کا واقعہ اور اس پر آسکر ایوارڈ یافتہ فلم کا بننا اور مختار مائی کا واقعہ ہمارے معاشرے کے منہ پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ بچپن میں بچیوں کی زیادہ عمر کے لوگوں کے ساتھ شادی اور ونی جیسی رسومات آئے روز کا معمول ہیں۔ مردانہ برتری کے احساس نے وجودِ زن کو منفی حد پہنچا دیا ہے۔ کہاجاتاہے کہ زمانہ جہالت کے بعد آنیوالے دور میں عورت کی حیثیت کو تسلیم کیا جانے لگا اور مغربی تہذیب نے اسے Sex Toy (جنسی کھلونا) بنادیاجبکہ مشرق نے اسے پردہ میں ڈھانپ دیا۔ ان دو شدید نکات کے درمیان ایک نکتہِ جہالت بھی ہے جس نے عورت کو کبھی جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا تو کبھی جنسی ہوس کا۔ دخترانِ ملت کو کبھی بازارِ حسن میں لاکھڑا کیا تو کبھی کوٹھا کی زینت بنادیا۔

ناجانے کب سے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ ہائے ظلم و بربریت جاری رہے؟ جب تک معاشرہ کی یکجا سوچ اور انداز فکر میں تبدیلی نہیں آتی۔ جب تک دینِ الٰہی کے عین مطابق عورت کو اسکا جائز اور حقیقی مقام نہیں مل جاتا معاشرہ میں ایسے واقعات کا رونما ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہوگی۔ میرادل تو اس لیے خون کے آنسو روتا ہے کہ یہ سب قیامت خیز مناظر میری اپنی تحصیل جتوئی کے قرب و جوار میں رونما ہورہے ہیں۔ ہر آنیوالا نیا دن کوئی نہ کوئی انوکھا اور ناقابل یقین واقعہ کے ساتھ غروب ہوتاہے اور ہر ڈوبتے سورج کی شفق میں مجھے عورت کے خون کی سیاہی نظر آتی ہے۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105045 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More