محسن نقوی اعلیٰ پایہ کے شاعر

 ہر دور میں کئ منفرد لوگ آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں کچھہ لوگ منوں مٹی تلے دب کے اپنا نام و نشاں بھی ساتھہ لے جاتے ہیں اور کچھہ ذہنوں پہ حاوی ہو کراپنا مقام ثبت کر جاتے ہیں۔ کچھہ اپنے عادات و خصائل سے یاد رہ جاتے ہیں تو کچھہ اپنے حسن کلام سے۔۔۔۔۔

انہی میں ایک نام “محسن نقوی“ کا ھے۔ جب سے شاعری کے رموز کو سمجھنا شروع کیا محسن نقوی کو ہی پسندیدہ شاعر پایا۔ یہ ان سے گہری تخیلا تی وابستگی ہی تھی کہ دماغ میں شاعری جیسے خرافاتی عمل نے جنم لیا۔ جب بھی لکھنا شروع کیا یہ حضرت خودبخود آ جاتے ہیں دماغ کی فصیل کو سر کرنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکی کتاب“پاگل آنکھوں والی لڑکی“ اپنے نام کی طرح کیا خوب ھے، اسی عنوان سے متاثر ھو کر میں نے بھی “ایک پاگل سی لڑکی“ کے عنوان سے نظم لکھنے کی جسارت کر ڈالی جو ہماری ویب کے توسط سے شائع ھوئ۔
تخیل کی وادی میں گم ھو کرجب بھی لکھا یہ نام اس جسد خاکی نے اپنے پاس ہی پایا۔ صرف میں ہی نہیں اور بھی کئ لوگوں کے لیے انکی شاعری اپنے نام “محسن“ ہی کی طرح سحر رکھتی ھے جو شاعری کا ذوق رکھنے والوں کو سحر زدہ کر دیتی ھے اور محب کو محبوب سے جوڑ دیتی ھے۔۔۔۔۔۔محسن نقوی کا یہ کلام اپنی مثال آپ ھے

“وہ ایک شخص“
گم صم ہوا آواز کا دریا تھا جو ایک شخص
پتھر بھی نہیں اب، وہ ستارہ تھا جو ایک شخص

شاید کہ کوئ حرف دعا ڈھونڈ رہا تھا
چہروں کو بڑی غور سے پڑھتا تھا جو ایک شخص

اب تو اس نے بھی اپنا لیا دنیا کا قرینہ
سائے کی رفاقت سے بھی ڈرتا تھا جو ایک شخص

صحرا کی طرح دیر سے پیاسا تھا وہ شاید
بادل کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا جو ایک شخص

اے تیز ہوا!!!! کوئ خبر اس کے جنون کی
تنہا سفر شوق پہ نکلا تھا جو ایک شخص

اب آخری سطروں میں نام ھے اس کا
احباب کی فہرست میں پہلا تھا جو ایک شخص

مڑ مڑ کے اسے دیکھنا چاہیں میری آنکھیں
کچھہ دور مجھے چھوڑنے آیا تھا جو ایک شخص

ہر ذہن میں نقش وفا چھوڑ گیا ھے
کہنے کو بھرے شہر میں تنہا تھا جو ایک شخص

“منکر ھے اب وہی میری پہچان کا “محس
اکثر مجھے خط خون سے لکھتا تھا جو ایک شخص

(آخر میں دعاگو ھوں تمام آئمہ کے لیے، خدا سب پہ اپنی رحمت و برکات نازل فرمائے (آمین
Faiza Umair
About the Author: Faiza Umair Read More Articles by Faiza Umair: 8 Articles with 13055 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.