سرائیکی ادب کی بجھتی لو شاکر شجاع آبادی

سرائیکی ادب کی بجھتی لو شاکر شجاع آبادی
آرنلڈ نے ادب کی تعریف کچھ یوں کی ہے ’’ ادب خوبصورتی کا نام ہے ، خوبصورتی کا اظہار اور اظہار کی خوبصورتی ، ادب عظیم جزیات کی ایک پکار ہے جو کسی ایک زبان میں مقید نہیں جہاں انگریزی ادب میں ملٹن ورڈزورتھ ، کالرج ، ٹینی سن اور سپنسر اردو ادب میں اقبال ، اختر شیرانی ، فیض غالب مومن اور میرکا نام آتاہے وہاں سرائیکی ادب میں جانباز جتوئی کے بعد سرائیکی خطے اور وسیب ترجمان شاکرشجاع آبادی ہی ہے شاکر کی شاعری کا اگر گہرائی میں مطالعہ کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں دکھ درد ہجر فراق، آہ فریاد اور محبوب کی سنگدلی اور زمانے کی بے حسی کے عناصر نمایاں نظر آتے ہیں میں نے جشن جتوئی کے موقع پر شاکر سے پوچھا تھا کہ آپ کی شاعری کا محور صرف صدمات زندگی ہی کیوں ہیں تو ان کا کہنا تھا
بھلا خوشیاں کہیں کوں چک پیندین کوئی خوشی ٹھکرا پتہ لگ ویندے
جے رون اپنے وس ہوندے ایویں روڈکھلا پتہ لگ ویندے
جیڑھی چیخ پکارکوں مکر آدھیں ایویں توں چا بنڑا پتہ لگ ونیدے
جیویں عمر نبھی ہے شاکر دی ہک منٹ نمھا پتہ لگ ویندے

شاکر کی شاعر پر تبصرہ کرنے کے لئے پھر کبھی سہی اصل موضوع کی طرف آتے ہیں آج وقت کا روحانی مسیحا خود مسیحا ئی کا طلب گار ہے جو آ ج زندگی کے پک نہیں کاٹ رہا بلکہ زندگی اسے کاٹ رہی ہے لشاید اس کا مقصوم سرائیکی خطے کی طرح صرف محرومیاں ہی ہیں فالج کے جان لیوامرض میں متلا سرائیکی ادب کا یہ اقبال آج اگر اردو کا شاعر ہوتا تو اس کی کتابوں کی تقریب رونماہوئی ہوتیں پذ یرائی میں خود کفالت ہوئی سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کیلئے بھیجا جاتا تمغہ حسن کارکردگی سے نوازاجاتا اس کا کلام اخبارات کی زینت ہوتا مگر شجاع آباد کے ایک مکان غالب میں رہنے والے اس عظیم شاعر کی خستہ حالی کی طرف نہ تو کسی حکمران کی نظر جاتئی ہے اورنہ ہی کسی نان حکمران تنظیم (این جی اوز) کی شجاع آباد میر والا سے زیادہ دور نہیں شاکر نے خود ہی راستے کی راہنمائی کی ہے ۔
’’دل منگ پووے تاں لنگھ آویں میڈے گھر دا سوکھا راہ اے ‘‘

حقوق نسواں کا پرچار کرنے والی تنظیموں کو صر ف پوری دنیا میں ’’مختیاراں مائی ‘‘ ہی مظلوم اور محروم نظر آتی ہے سرائیکی لب ولہجہ کو شاعری کی مالا میں پرونے والا شاعر اوراق زیست کے آخری صفحہ پر آخری ہچکیاں لے رہا ہے ۔ جس ملک کا وہ باسی ہے وہ اتنا بھی غریب نہیں کہ اک شاعر کا علاج کرانے کے لئے بجٹ میں رقم نہیں ہے اس ملک کی غربت کا تو ہم ویسے ہی پر چار کرتے ہیں ۔

جس ملک میں جاگیرداروں کے گھوڑے سیب اور مربہ کھاتے ہوں وہ ملک غریب نہیں ہوسکتا جس ملک میں صرف لفظ’’پروٹوکول ‘‘ پر کروڑوں روپے بجٹ اڑتا ہو اسے آپ کیسے ترقی پذیز ملک کہتے ہیں جہاں مرنے والے ہر ملکی کو ایک لاکھ اور ہر غیر ملکی کو ایک لا کھ پاؤنڈ دیا جاتا ہے -

بشرطیکہ وہ مرے سہی اسے کون پسماندہ ملک کہتا ہے جہاں کتابیں مفت فیسیں مفت بلکہ دوسو روپے وظیفہ دیا جاتا ہے اسے آپ سرمایہ دار مک نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ؟ ملتی نہیں تو صرف نوکری ملکی بجٹ میں شاعروں اور ادیبوں کے لئے ایک حصہ مختص ہونا چاہیے حکومتی سطح پر غریب شاعروں اور فنکاروں کی کفالت ہونی چاہیے میں اہل دل اور علم دوست لوگو ں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ کوئی ادبی فنڈ قائم کریں جس سے مستحق اور غریب شاعروں کا علاج ہوسکے ملتان کی صحافی برادری سے التماس ہے کہ شاکر شجاع آبادی کی شاعری کو مناسب کوریج دیں اور اس مسئلہ کو اچاگر کریں کہ سرائیکی ادب کی جان آخری ہچکیاں لے رہی ہے ۔

کیا یہ آخری دیپ یونہی بجھ جائے گا ؟ کیاہم اپنے سرمائے اورخزینے یوں ہی گنواتے رہیں گے ؟ کیا پھر ایک اور پٹھانے خان ہم سے جدا ہونے والا ہے ؟ کیا ہم مقبروں کی بجائے وہ رقم ان کے علاج پر نہیں خرچ کرسکتے ؟ آخر ہم نے کیوں ’’مراسوالاکھ ‘‘ کی روایت کو اپنا لیا ہے ؟ ہمارا ایک ساغر صدیقی توزمانے کی دھول چاٹنے مر کرامر ہوگیا ہے کیا ایک اور ساغر کی داستان رقم ہونے والی ہے ؟

اب بھی وقت ہے کہ کوئی تو آگے آئے ادب اگر دب گیا تو پھر ہمیں شاید کوئی جانباز جتوئی نہ ملے شاکر شجاع آبادی نہ ملے اور پھر کہیں ایسانہ ہوکہ آنے والی نسل کو سرائیکی کے دوہڑے اور ماہیے نہ ملیں کہیں شاکر کی یہ بات سچ نہ ہو جائے
بس شاکر فرق معیاددا ہے میں اج رونداں توں کل روسیں
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105039 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More