پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیداہوتی ہے

عظیم ڈرامہ نگار شیکپئر نے کہا تھا ، "دینا میں کوئی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی ہماری سوچ اسے ایسا بنا دیتی ہے "، خیالات کا انسانی زندگی اور انسانی رویوں پر گہرہ اثر پڑتا ہے ۔ کبھی انسان اپنے خود ساختہ خیالات سے اس قدر خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ کئی دن تک وہی خیالات آسیب بن کر اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں ۔ زندگی میں حالات اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنا ہماری سوچ انھیں بنا دیتی ہے ۔ خیالات کی دنیا حالات کی دنیا سے قدرے مختلف ہوتی ہے اور اعلیٰ سوچ زندگی کے ہر مسلے کا حل ڈھونڈ بھی لیتی ہے اورکبھی کبھی اسے الجھا نے کے سوا اور کچھ نہیں دیتی ۔ خیالات وسوسوں کی پیدا وار ہیں، اور جدید تحقیق کے مطابق ذہنی الجھنوں میں اضافے کی وجہ سے خیالات میں بھی انتشار بڑھتا ہے۔

نفسیاتی نقطہ نظر سے اگر ہم تجزیہ کریں تو جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے اس میں خیالات کی جنم گاہوں اور پرورش گاہوں کا ادراک ہوتا ہے۔ جب ہم دماغ کی ساخت کا عرضی تراشا یا طولی تراشا لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں شعور ، لاشعوراور تحت الشعور کی فرمانروائی ہے ۔ تخیل اور یا داشت ان کے بعد آتے ہیں ۔ قلیل المیعاد اور طویل المعیاد یا داشت اور حساسیت دماغ کے وہ لازمی اجزاء ہیں جو اسکی کشمکش پر جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں ۔تحت الشعور کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے خیالات کا حقیقت کی دنیا سے بہت کم تعلق ہوتا ہے

اب چلتے ہیں حالات کی دنیا میں جہاں موت وحیات کے قصے عام ہیں ۔ جہاں قتل و غارت روز کا معمول ہے ، جہاں اولاد کی نافرمانی اب کوئی نئی بات نہیں رہی ۔ جہاں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں رہی کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔بلا اتنا خوفناک نہیں ہوتی جتنا ہم سمجھتے ہیں ۔ اور بقول اشفاق احمد جتنا آج کے طلباء سوچتے ہیں کاش اتنا پڑھ لیں اور جتنا پڑھتے ہیں اتنا سوچ لیں تو یقیناًکامیاب ہونگے ۔حالات پر تو اس بنا پر بھی سمجھوتا ہو جاتا ہے کہ وہ انسان کے بس میں نہیں ہوتے۔ تقدیر اور تدبیر کے گورکھ دھندے میں انسان رگڑ ا جاتا ہے ۔ سوچیں انسان کو دیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہیں۔ اسے سوچ کے زاویے کبھی ادج ثریا پر پہنچا دیتے ہیں تو کبھی تحت السراء پر۔ انسانی خیالات الجھن کو سلجھن اور سلجھن کو الجھن میں بدلنے کا گر جانتے ہیں۔ نظر انداز کرنے پر آئے تو بڑے بڑے جرائم نظر انداز کردیے جاتے ہیں اور اگر گرفت کرنا مطلوب ہے تو معمولی سی خطائیں بھی ناقابل معافی جرائم بن جاتی ہیں ۔ جلال الدین رومی کہتے ہیں "مجھے سردی کی شدت اور گرمی کی حدت اس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے جب میں ان کے بارے میں سوچتاہوں "زندگی میں سوچ وبچار بہت سے حادثات اور سانحات سے نجات دلاتے ہیں۔ لیکن بہت زیادہ سوچ عملی زندگی میں ایک جمود پیدا کرتی ہے۔ انگریزی ادب میں ہیملٹ اور پروف راک کے المیات ضرورت سے زیادہ سوچ کاہی نتیجہ ہیں۔ منفی خیالات کی بہتات انسانی شخصیت کے نکھار میں کینسر کا کام کرتی ہے۔ حالات اور معاملاتِ زندگی لازم الملزوم ہیں۔ اور ان معاملات میں اونچ نیچ بھی زندگی کا حسن ہے لیکن خیالات کو اس قدر حاوی کردینا کہ ناتو حالات بہتر ہوتے ہیں اور نہ ہی معاملات ۔

زندگی میں انتہائی شدید پریشانی کا سامنا وہ لوگ کرتے ہیں جن کے خیالات کے اظہار کیلئے کوئی بیرونی راہ نہیں نکلتی۔ ایسا شخص اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہوجاتاہے یکجا خیالات پھر بغاوت کا روپ دھار لیتے ہیں اور ایسا شخص کٹی پتنگ کی مانند زندگی کی ڈور توڑ بیٹھتا ہے۔ دنیا میں خود کشی کرنے والوں کی کثرت ایسے لوگوں کی ہے جو زندگی کی تلخیوں سے راہ فرار چاہتے ہیں۔ان کے خیالات اور جذبات کے درمیان ایک تناؤ سا پیدا ہوجاتاہے اور پھر یہی لوگ اپنے ہی خیالوں کی بنیاد کا کوئی ایسا مفروضہ قائم کرلیتے ہیں جو انہیں پریشانیوں کے سوا کچھ بھی نہیں دیتا۔ موجودہ پریشانیوں سے بڑھ کر سابقہ پریشانیوں کا ماتم کرنا اور پھر مجموعہ پریشانیوں کو اپنی قائم کردہ عدالت میں پیش کرکے اپنے ہی خلاف فیصلہ کروانا اور خود ہی سزائے موت کا انتخاب کرنا ۔ خود کو زمین کا بوجھ قرار دینا اور یہ کہ انکی موت پر کوئی آنکھ اشک بارنہ ہوگی ۔

طبی نقطہ نگاہ سے ذہنی دباؤ اور کھچاؤ سے مسلسل پریشانی کا مرض لا حق ہو سکتا ہے ۔ ممکنا ت اور نا ممکنات کی جنگ ختم ہونے کو نہیں آتی کہیں یہ نہ ہو جائے کہیں وہ نہ ہوجائے کے درمیان انسان اپنے آپکو نہیں سنبھا ل سکتا ۔ ماہر ڈاکٹر اس بات پر متفق ہیں کہ دینا میں حالات سے تنگ آ کر زیادہ لوگوں نے خود کشی نہیں کی ۔بلکہ ذہنی تناؤ کے نتیجہ میں کئی لوگو ں نے اپنے آپ کو ختم کر دیا ۔ پاگل خانوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو خیالا ت کی کش مکش میں دہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں ۔ سیٹی سکن کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ حساس لوگ المیات کے تصور میں ذہنی نظام درھم برھم کر دیتے ہیں ۔ ضرورت سے زیادہ سوچ انسان کو کاہل اور کمزور بنا دیتی ہے ۔ قوت فیصلہ میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے اور انسان تاخیری حربوں کا سہارا لینا شروع کر دیتا ہے ۔ جو مسلسل سوچ اور ذہنی تناؤ سے چہر ے کا نکھار ختم ہونے کے علاوہ چہرے پر جھریا ں پیدا ہوجاتی ہیں حالات خود بخود اپنے مقرر وقت پر سلجھ ہی جاتے ہیں لیکن ان کے بعد اثرات دماغ کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں ۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105441 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More