اسلام آباد میں نظام صلوٰة کا نفاذ.... فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی جانب ایک قدم

 یکم مئی کو مذہبی امور اور بین المذاہبی ہم آہنگی کے وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے دارالحکومت اسلام آباد میں پہلی مرتبہ نظامِ صلوٰة کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت شہر میں تمام مسالک کی مساجد میں اذانیں ایک ہی وقت پر ہوں گی اور باجماعت نمازیں بھی ایک ہی وقت پر پڑھائی جائیں گی۔ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں اسلام آباد کے تاجروں سے اوقات نماز کے دوران 20 سے 25 منٹ تک اپنے کاروبار بند رکھنے کی اپیل بھی کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نمازوں کے اوقات میں سرکاری دفاتر میں وقفہ بھی ہو گا۔ اگرچہ اس نظام پر ابھی تک پوری طرح عمل نہیں ہوسکا ہے، بلکہ مختلف مسالک کی متعدد مساجد میں اپنے پرانے اوقات پر ہی عمل ہورہا ہے۔ علمائے کرام کے نزدیک اس سے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور نماز و اذان کے بعد آیندہ دیگر مسائل میں بھی تمام مسالک کے علمائے کرام کو مل بیٹھنے کا موقع ملے گا، علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ملک میں سب سے اہم معاملہ فرقہ واریت کے خاتمے کا ہے، جسے تمام مسالک کے علمائے کرام مل کر ہی ختم کرسکتے ہیں۔ حکومت علمائے کرام کا تعاون حاصل کر کے معاشرے میں فرقہ واریت کے ناسور کا خاتمہ کرنا چاہے تو کوئی مشکل کام نہیں ہے، اس کے لیے صرف اور صرف پختہ عزم اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں نافذ ہونے والے نظام صلوٰة سے ملک بھر کے علمائے کرام کے ایک بڑے حصے نے تائید کی ہے اور تمام صوبوں کو اس نظام کو نافذ کرنے کی اہمیت پر زور بھی دیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف کا کہنا تھا کہ ملک میں اسلامی اقدار کو فروغ دینا اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ آئین کا تقاضا بھی ہے کہ حکومت اسلامی اقتدار کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ جبکہ نظام صلوٰة کے نفاذ کے اعلان کے وقت امام کعبہ شیخ خالد حامد الغامدی بھی موجود تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ”دین کی بنیاد تفرقے میں نہیں، بلکہ ایک ہونے میں ہے۔ اسلام اتحاد و اتفاق کا درس دیتا ہے۔ تفرقے اور کسی بھی عصبیت میں نہیں پڑنا چاہیے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے باہمی اختلافات کو اسلامی بنیادوں پر حل کرنا ہے۔“ اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں تمام مسالک کی مساجد میں نماز فجر کی اذان ایک ساتھ ہونے کے بعد 30منٹ کے بعد باجماعت نمازیں ادا کی جایا کریں گی۔ موسم سرما میں ظہر کی اذان سہ پہر ایک بجے دی جائے گی اور نماز کی ادائیگی سوا بجے ہو گی۔ اس کے برعکس موسم گرما میں ظہر کی اذان کا وقت سوا بجے اور باجماعت نماز کا وقت ڈیڑھ بجے سہ پہر ہو گا۔ اسی طرح جمعے کی پہلی اذان بعد دوپہر پون بجے ہوا کرے گی اور تمام مساجد میں نماز جمعہ ڈیڑھ بجے ادا کی جایا کرے گی۔ اسلام آباد میں آیندہ عصر کی بیک وقت اذانوں کے بعد نماز کی ادائیگی ٹھیک دس منٹ بعد ہوا کرے گی، جبکہ مغرب کی اذان غروب آفتاب کے پانچ منٹ بعد دی جایا کرے گی اور اس کے دو منٹ بعد نماز مغرب ادا کی جائے گی۔ عشاءکی اذان کے لیے مغرب سے ٹھیک پونے دو گھنٹے بعد کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ نماز عشاءاذان کے 15 منٹ بعد ادا کی جایا کرے گی۔اس حوالے سے روزنامہ ”اسلام“ نے مختلف مسالک کی مذہبی شخصیات سے گفتگو کی ہے۔

مولانا محمد حنیف جالندھری (جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان)
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری مولانا حنیف جالندھری نے روزنامہ ”اسلام“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں نظام صلوٰة نافذ کرنا قابل تحسین اور قابل تقلید اقدام ہے۔ اس سے معاشرے پر اچھے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مساجد میں رونقیں بڑھ جائیں گی۔ عوام کو نماز باجماعت ادا کرنے میں سہولت ہو گی۔ سرکاری اور دیگر تمام دفاتر کے ملازمین کو نماز ادا کرنے میں سہولت میسر آئے گی، جبکہ اس سے پہلے نماز کے اوقات مختلف ہونے سے کسی حد تک کام متاثر ہوتے تھے، لیکن اب ایک ہی وقت پر با جماعت نماز ہونے سے کسی کے بھی کام متاثر نہیں ہوںگے۔ اس سے پہلے جو لوگ نماز کے نام پر کام چوری کرتے تھے، اس نظام سے اب کام چوری کا دروزہ بھی بند ہوگیا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے نماز وں کے اوقات میں وقفہ ہونے سے نماز کی ادائیگی میں آسانی ہوگی۔ جب زیادہ لوگ نماز ادا کریں گے تو اللہ کی رحمت بھی نازل ہوگی اور ملک کے مسائل حل ہوں گے، لیکن اس نظام کے مکمل نتائج اسی وقت سامنے آئیں گے، جب اس نظام پر مکمل طور پر عمل درآمد ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقامت الصلوٰة کا نفاذ کسی بھی مسلمان حکومت کا اولین فریضہ ہے۔ تمام صوبوں کو چاہیے کہ اس نظام کی تقلید کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نظام سے معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔ یہ نظام تمام مسالک کے علمائے کرام کے مشورے سے طے ہوا ہے اور نماز و اذان کا کیلنڈر بھی تمام علمائے کرام کے مشورے سے طے ہوا ہے۔ تمام علمائے کرام کا اس کیلنڈر اور نظام پر اتفاق کرنا ہی ہم آہنگی کی دلیل ہے اورآیندہ بھی اس کے اثرات مثبت ہی مرتب ہوں گے۔ مولانا حنیف جالندھری نے کہا کہ ملک بھر میں فرقہ واریت کا خاتمہ بہت ضروری ہے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب تمام مسالک کے علمائے کرام مل بیٹھیں اور ایسے تمام عوامل کو ختم کریں، جو معاشرے میں فساد پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کی محترم شخصیات کا احترام کریں۔ اگر تمام مسالک کے علمائے کرام ایسا کرلیں تو یقینا معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔

صاحبزادہ ابولخیر محمد زبیر (سربراہ جمعیت علمائے پاکستان، نورانی گروپ)
روزنامہ ”اسلام“ سے گفتگو کرتے ہوئے صاحبزادہ ابولخیر محمد زبیر نے کہا کہ اسلام آباد میں نظام صلوٰة نافذ ہوا ایک اچھی بات ہے، لیکن اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ہر مسلک کے نماز و اذان کے اوقات مختلف ہوتے ہیں، جب اوقات مختلف ہیں تو مختلف اوقات میں نمازیں ادا کریں تو کوئی حرج والی بات بھی نہیں ہے۔ نظام صلوٰة کے معاشرے پر کوئی خاص مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ اس سے نہ تو ایک دوسرے کے خلاف پیدا شدہ نفرتیں ختم ہوں گی اور نہ ہی لڑائیاں ختم ہوں گی۔ جو لوگ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے لگاتے ہیں، کیا اس سے یہ ساری نفرتیں ختم ہوجائیں گی؟ کبھی بھی نہیں۔ یہ نفرتیں تو اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہیں، جب تمام علمائ، ذاکرین اور واعظین ایک دوسرے کے خلاف اپنی تقاریر میں نفرتیں اگلنا بند کریں اور ایک دوسرے کے احترام کی تلقین کریں۔ جب سب ایک دوسرے کا احترام کریں گے تو نفرتیں خود بخود ہی ختم ہوجائیں گی۔ اگرچہ اسلام آباد میں تمام مسالک کے علما کا مل بیٹھ کر نمازوں کے ایک وقت پر اتفاق کرنا اچھا فیصلہ ہے اور یہ مذہبی ہم آہنگی کی جانب حکومت کی ایک چھوٹی سی کوشش ہوسکتی ہے اور اس کو پورے ملک میں بھی نافذ ہونا چاہیے، تمام عوام اور تاجروں کو اس پر پوری طرح عمل بھی کرنا چاہیے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی خاص فرق پڑنے والا ہے۔سب سے اہم بات تو فرقہ واریت کا خاتمہ ہے اوریہ خاتمہ تو صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ تمام مسالک کے علمائے کرام مل کر آپس میں پیدا شدہ نفرتوں کو ختم کرنے پراتفاق کرلیں۔ قانون پر سختی سے عمل ہو اور تمام مساجد میں اشتعال دلانے والی تقاریر پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔ اس میں کسی قسم کی تخصیص نہ ہو، بلکہ سب کو اس قانون کے دائرے میں لایا جائے۔

علامہ ابتسام الہیٰ ظہیر(ناظم اعلیٰ جمعیت اہل حدیث پاکستان)
روزنامہ ”اسلام“ کو علامہ ابتسام الہٰی ظہیر نے بتایا کہ اسلام آباد میں ایک ہی وقت پر اذان و نماز کا نظام نافذ کرنا حکومت کا ایک اچھا اور قابل تعریف اقدام ہے، لیکن علمائے کرام کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے کہ اول اوقات مقرر ہوں، کیونکہ اول اوقات افضل اوقات ہیں، لیکن اب جو بھی اوقات مقرر ہوگئے ہیں، وہی غنیمت ہیں، ان پر ہی پوری طرح عمل کرنا چاہیے۔ اسلام آباد میں نافذ ہونے والا نظام صلوٰة پورے ملک میں نافذ ہونا چاہیے۔ ہر ضلع اورہرعلاقے کی سطح پر ایک ٹائمنگ مقرر کی جائے۔ اسلام آباد میں نافذ ہونے والے نظام صلوٰة کے معاشرے پر یقینا اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور جب بھی اتفاق رائے سے کوئی نظام نافذ ہوا ہے، معاشرے پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے طلاق احسن پر اتفاق ہوا، اس کے بھی معاشرے پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں نافذ ہونے والا نظام صلوٰة معاشرے کے لیے بہترین قانون ہے، تمام تاجروں کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ تاجروں کو چاہیے کہ نمازوں کے اوقات میں اپنے کاروبار بند کریں۔ اگرچہ منافع کمانا تمام تاجروں کا حق ہے، لیکن نماز کے لیے تھوڑی دیر کے لیے اپنا کاروبار بند کردیں گے تو اس سے اللہ تعالیٰ ان کی روزی میں برکت ڈالیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں علامہ ابتسام الہٰی ظہیر کا کہنا تھا کہ سب سے اہم معاملہ معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کا ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کا ہے۔ پورے ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے کی ایک ہی صورت ہے کہ تمام مسالک کے علمائے کرام ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کریں، ایک دوسرے کی مقدس شخصیات کا احترام کریں۔ کسی کی توہین اور تذلیل نہ کریں۔ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ علمائے کرام جذباتی ابلاغ کی بجائے علمی ابلاغ کریں۔ جذباتی ابلاغ سے معاشرے میں انتہا پسندی بڑھتی ہے، جبکہ علمی ابلاغ سے معاشرے میں اعتدال پسندی کو فروغ ملتا ہے۔

امیر العظیم( مرکزی سیکرٹری اطلاعات ، جماعت اسلامی )
جماعت اسلامی کے رہنما امیر العظیم نے روزنامہ ”اسلام“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں نظام الصلوٰة کا قائم ہونا اچھی بات ہے، لیکن یہ نظام کافی نہیں ہے۔ حکومت نے یہ ایک چھوٹا سا عمل کیا ہے، اس کے بعد اور بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ نظام صلوٰة تو ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس سے یہ ضرور ہوگا کہ مسلمان ایک ہی وقت میں اکھٹے ہوں گے، لیکن ٹائمنگ ایک کرنے سے معاملات حل نہیں ہوں گے۔ اس نظام سے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے، لیکن مکمل طور پر اثرات تو اسی صورت میں سامنے آئیں گے، جب مساجد کو معاشرے کی مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ تمام معاملات حل کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ علمائے کرام کے ساتھ چلے، مساجد کو مرکزی حیثیت قرار دے۔ اپنے جھگڑے ختم کرنے کے لیے مسجد کو عدالت بنائیں۔ جو فیصلے تھانوں میں ہوتے ہیں، مسجد میں بہتر طریقے سے وہ فیصلے کیے جائیں۔ حکومت علمائے کرام پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے، پھر وہ علمائے کرام معاشرے میں ہم آہنگی کی فضا مہیا کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ علمائے کرام کے تعاون کے ساتھ معاشرے سے فرقہ واریت کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ جہاں بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف کوئی عمل ہو، اس کے خلاف نوٹس لیا جائے۔ قانون پر عمل ہر حال میں کرایا جائے۔ سب لوگ قانون کی نظر میں ایک ہی ہوں۔ قانون کی خلاف ورزی قابل مواخذہ ہو تو اس سے خود بخود ہی معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہوجائے گی اور معاشرے میں جو اعتدال سے ہٹے ہوئے چند لوگ ہیں، وہ خود ہی راہ راست پرآجائیں گے۔ معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے علمائے کرام کا تعاون ضروری ہے۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.