تحفظ حرمین شریفین کانفرنس

جب سے ہو ش سنبھالا ہے تب سے کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ ایسی مذہبی محافل میں شرکت کروں جس میں ہمارے دینی و قومی مسائل کا تدارک کرتے ہوئے ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔اسی وجہ سے جب جماعۃ الدعوہ کی مورخہ 17اپریل 2015ء کو فیصل آباد ضلع کونسل میں ہونے والی تحفظ حرمین شریفین کانفرنس کا پتہ چلاتو مصروفیت کے باوجود شریک ہوا۔اس کانفرنس کا انعقاد ویسے تو جماعۃ الدعوہ فیصل آباد نے کیا تھا لیکن سٹیج پر سبھی مسالک کی نمائندگی موجود تھی ۔ جماعۃ الدعوہ کا یہ کام قابل تعریف ہے کہ وہ ملکی مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کے حل کے لئے دیگر سبھی مسالک کو ایک سٹیج پر لانے کوششوں میں مصروف رہتی ہے ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمیں اس وقت ایسی مذہبی جماعتوں کی ضرورت ہے جو فرقہ واریت ،لسانیت اور عصبیت جیسے ناسوروں سے قوم کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک فورم پرلانے کی جدوجہد کرے۔

ویسے تو یمن کے تنازعہ پر ہم اتنا کچھ سن چکے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ شرارت کس کی ہے اور کیوں ہورہی ہے لیکن کچھ سیکولر ذہنیت کے لوگ جو کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو بھی اپنے جیسا سیکولر ثابت کرتے ہیں وہ قوم کے سامنے ایسی ایسی باتیں رکھتے ہیں کہ قوم بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور اس کی اصل مسائل سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ جماعۃ الدعوہ اور اس جیسی دیگر جماعتیں قابل احترام اور لائق تحسین ہیں جو عوام کو اصل حقائق اور اپنا مذہبی فریضہ سمجھانے کے لئے دیگر مسالک جن میں بریلوی،دیوبندی اور اہل حدیث قابل ذکر ہیں کوملا کر پاکستان کے شہروں میں کانفرنسز کررہی ہیں یوں انہوں نے فرقہ پرستی سے ہٹ کر ایک اچھی مثال قائم کی ہے ۔
فیصل آباد میں ہونے والی کانفرنس میں جماعۃ الدعوہ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید ،،جماعت اہل حدیث کے مولانا یوسف انور ،مرکزی جمیعت اہل حدیث کے عبدالصمد معاذ،جماعت اسلامی کے سردار ظفر حسین ،متحدہ علماء کونسل کے مفتی ضیاء مدنی،سنی علماء کونسل کے محمد جاوید اختر قادری ،پروفیسر عبدالرحمٰن مکی،مولانا امیر حمزہ ،قاری یعقوب شیخ و دیگرمذہبی وسیاسی اورفیصل آباد کی تاجر برادری کے نمائندگان نے شرکت کی ۔ میری معلومات کے مطابق تحفظ حرمین شریفین کی پورے پاکستان میں جتنی بھی کانفرنسز ہوئی ہیں فیصل آباد کی کانفرنس ان سب سے بڑی تھی اور ضلع کونسل چوک میں کسی بھی جماعت کی طرف سے جلسے کا یہ پہلا اہتمام تھا اور اس میں شریک افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی جس میں سبھی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے افراد موجود تھے یوں فیصل آبادیوں نے اپنے شہر کے نام کی بھرپور لاج رکھی ۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا کہ حوثیوں نے ایک منتخب حکومت کو گرا کر یمن میں بدامنی اور قتل وغارت کابازار گرم کیا اور سعودی عرب کی سرحدوں کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کردی ۔ یمن کے منتخب صدر کی درخواست اور اپنے ملک کی سلامتی کی خاطر سعودی عرب نے یمن میں کاروائی کا آغاز کیا جو کہ ایک جائز اور وقت کی اہم ضرورت تھا ۔ حوثیوں اور ان کے پیچھے لابی کا اصل ٹارگٹ حرمین شریفین پر قبضہ کرنا ہے ۔حافظ محمد سعید نے اس تنازعے کو حرمین شریفین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش قرار دیتے ہوئے سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اعادہ کیا ۔جب وہ اس بات کا اعادہ کررہے تھے حاضرین مجلس اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوکراپنے ہاتھ اٹھا اٹھا کر ان کا ساتھ دینے کا اعلان کررہے تھے ۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی قرارداد کے حوالے سے انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کے پالیسی بیان کو سراہتے ہوئے ایک جرات مندانہ بیان قرار دیا ۔ اس کے ساتھ اس موقع پر بھی حافظ صاحب کشمیر کے مسئلے کو نہ بھولے اور کشمیریوں کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کی مکمل حمایت کاکہا۔ اور بھارت کو للکارتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی آزاد ی اب دور نہیں رہی بہت جلد کشمیری ایک آزاد قوم کے طور پر ہونگے۔ کشمیریوں کو ان کا حق ہرحال میں بھارت کو دینا ہوگا۔

پروفیسر عبدالرحمٰن مکی نے فصیح وبلیغ عربی میں خطاب کیا ۔الفاظ کا چناؤ اور فروانی یوں تھی جیسے اقبال کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہی مجلس میں پوری کی پوری غز ل فی البدیہہ لکھ دیا کرتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ہمارے لئے قابل فخر ہے کہ مصیبت کے وقت بلاد حرم سے حفاظت کے لئے پاکستان کو بلاوا آیا ہے ہم پاکستانی اس کے لئے ہمہ وقت تیا ر ومستعد ہیں ۔قریب قریب سبھی مقررین نے ملے جلے الفاظ میں اسی بات کا اقرار کیا کہ اور اس بات پر اللہ کا شکر اد اکیا اس نے ہم کو اس قابل کیا ہے حرمین کے تحفظ کے لئے پورا عالم اسلام ہماری طرف دیکھتا ہے یہ ہماری عزت افزائی ہے ۔ سعودی عرب اگر ہمیں نہ بھی بلاتا تو بھی کلمے کی بنیاد پر اور حرمین شریفین کی حفاظت کی خاطر ہم اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ۔

ایسے افراد جو یہ کہہ رہے ہیں کہ حرمین کی حفاظت سے زیادہ سعودی حکمرانوں کی ہمیں فکر دامن گیر ہے وہ لوگ تعصب کا شکار ہیں اور یمن کے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں جب کہ یہ معاملہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ عالم اسلام کے خلاف سازشوں کی ایک مکمل پلاننگ کا حصہ ہے ۔یہاں توابرہہ جیسے حکمرانوں کو بھی اللہ نے ابابیلوں کے ہاتھوں نشان عبرت بنا دیا تھا یہ وقت اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کا ہے نہ کہ ہم فرقہ واریت میں بٹ کر دشمنوں کے ناپاک عزائم کو کامیاب ہونے میں ان کی مدد کریں ۔

پاکستان کی جانب سے یمن تنازعہ پر اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل کی قرارداد پر مکمل عمل درآمد کے اعلان ،سیاسی وعسکری قیادت کے اعلٰی سطحی اجلاس میں اس مسئلہ پرغوروفکر اور سعودی عرب کی حفاظت کا اعلان ،وزیراعظم کا پالیسی بیان ،وزیراعلٰی میاں شہباز شریف کا سعودی عرب کا ہنگامی دورہ ایک بات کو واضح کرتے ہیں پاکستان سعودی عرب کی حفاظت کو اپنی حفاظت سمجھتے ہوئے اس مسئلے میں اس کے ساتھ کھڑا ہے ۔اور پاکستان کے گلی کوچوں میں دفاع حرمین شریفین کی ریلیاں اور کانفرنسز اس بات کی مظہر ہیں کہ پاکستانی عوام سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان چند لوگوں کوبھی سمجھنا چاہئیے کہ ہرمعاملہ مالی مفادات اور ذاتی رشتے داریا ں نہیں دیکھتا بلکہ کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں عالم اسلام کے مجموعی معاملات کو دیکھتے ہوئے پالیسیز بنائی جاتی ہیں ۔اس وقت پاکستان عالم اسلام میں ایک باوقار اور ایک وفادار ملک ہونے کی حیثیت سے کھڑا ہونے کی کوشش کررہا ہے اللہ ہمیں موقع فراہم کررہا ہے ۔ضرورت صرف ان مواقع کو حاصل کرنے کی ہے ۔

آخر پر میں جماعۃ الدعوہ اور دیگر جماعتیں جو کہ فرقہ وارانہ سوچوں سے ہٹ کر ملکی وعوامی مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔وہ لوگ قابل تعریف ہیں کہ اسلام کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے لے کر کھڑے ہیں ۔اللہ عالم اسلام کا حامی وناصر ہو۔ (آمین)
Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 55741 views Master in Islamic Studies... View More