تعلیم عام کرو

 کسی دور میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر ایک نیک دل بادشاہ حکمرانی کرتا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے اپنے وزیراعظم کو بلا کر کچھ رقم دیکر کہا کہ جا کر کوئی عوام کی بھلائی کا کام کرے۔ وزیراعظم نے جا کر ایک چھوٹا سا سکول کھول دیا۔ کچھ عرصہ گزرا تو بادشاہ سلامت نے دوبارہ اپنے وزیراعظم کو بلا کر مزید رقم دی اور مزید بھلائی کا کام کرنے کو کہا۔ وزیراعظم اس دفعہ بھی گیااور ایک نیا سکول کھول دیا۔ وقت گزرتا رہا کہ ملک میں خوشحالی آنی شروع ہو گئی۔ خوشحالی دیکھ کر پڑوس کے ایک بڑے بادشاہ نے اس چھوٹے جزیرے پر حملہ کر دیا لیکن جزیرے کے نوجوانوں نے اس دلیری سے مقابلہ کیا کہ بڑے بادشاہ کی بڑی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ بادشاہ نے خوش ہو کر وزیر اعظم سے اس دلیرانہ مقابلے کی وجہ دریافت کی تو وزیراعظم نے تفصیل بتائی کہ بادشاہ کی عطا کر دہ رقم سے اْس نے جو دو سکول کھولے تھے یہ اْن سکولوں کی تعلیم کا کرشمہ تھاکہ ہمارے نوجوانوں نے اتنی بڑی فوج کو مار بھگایا۔ معزز قارئین یہ چھوٹا سا جزیرہ انگلینڈ تھا اور حملہ آور بادشاہ فرانس کابادشاہ تھا اور یہ دو سکول عظیم برطانوی درسگاہوں اکسفورڈ اور کیمبرج کی بنیادیں تھیں۔ پھر تاریخ عالم نے دیکھا کہ ان درسگاہوں کے فارغ التحصیل نوجوانوں نے پوری دنیا پر حکومت کی یہاں تک کہ عظیم برطانیہ کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔’’یہ ہے علم کی طاقت‘‘ واٹرلو کے میدان میں جب ڈیوک آف ولنگٹن نے اس وقت کے عظیم جنرل نیپولین کو شکست دی تو اس نے برملا کہا کہ اس کامیابی کی بنیاد بٹن اور ہاروکے کھیل کے میدان تھے۔ یاد رہے کہ یہ دونوں برطانیہ کے بہت ہی مشہور پبلک سکول ہیں۔ پوری دنیا میں برطانیہ کی کرشماتی جنگی کامیابیاں برطانیہ کے تعلیمی اداروں کی مرہون منت تھیں۔ آج امریکہ اور برطانیہ کا دوسرا بڑا ذریعہ آمدنی ان ممالک کے تعلیمی ادارے ہیں۔بحران،مہنگائی ،مسلسل ناانصافی، بے روزگاری ، ناکارہ تعلیمی نظام ،دہشت گردی ، لود شیڈنگ ،سیلابی اوردھرنا سیاست یہ سب ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں تکلیف دہ غربت اور مسلسل بڑھتے قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے،تو یہ ضروری ہے کہ ہم مضبوط تعلیمی پالیسی اختیار کریں اور یہ تب ہی ممکن ہو سکے گاجب ہم اپنے آئین میں اس طرح ترمیم کریں کے ہمارے پالیسی ساز ادارے اس بات پر مجبور ہو جائیں کہ وہ ملک میں تعلیم کے فروغ کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں اس کو عمل میں لائیں۔ملائشیا تیس سال سے اپنے بجٹ کا 30فیصد حصہ تعلیم وتربیت کے اخراجات پورے کرنے میں صرف کر رہا ہے جبکہ ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ہمارے ہاں خیراتی منصوبوں پرتواربوں خرچ کر دیئے جاتے ہیں مگر افسوس کہ تعلیم جو ترقی کی ضمانت دیتی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ہمیں بھی آئینی طریقہ کار کے ذریعہ یہی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔پاکستان کے لئے اپنی موجودہ مشکلات غربت،کرپشن اور ملک میں امن وامان کی خراب صورتحال سے نکلنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم تعلیم کے فروغ کو نصب ا لعین بنائیں۔ہمارے ملک میں 9کڑور نوجوان ایسے ہیں جن کی عمریں 19سال سے کم ہیں۔ ان میں بے پناہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنی محنت اور مشقت سے وطن عزیز کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کریں۔یہ ایسے قیمتی پتھرجنہیں تراش کر ہیرے بنانے کی ضرورت ہے۔ان پتھروں کوتراشنے کیلئے مظبوط ،شفاف اور یکساں نظام تعلیم مربوط کرنا ہوگاکہتے ہیں معزز قارئین کسی بھی ملک کی طاقت کی بنیاد نہ تو دولت ہوتی ہے نہ معدنی وسائل اور نہ ہی بڑی افرادی قوت۔ ملکی طاقت کی بنیاد علم ہے اور جس ملک کے پاس علم ہوگا وہی ملک اقوام عالم کی حکمرانی کا تاج پہنے گا چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ اسی لئے پیغمبر اسلامٓ نے حصول علم پر سب سے زیادہ زور دیا تھااور مسلمانوں کی بدقسمتی کہ تمام تر وسائل کے باوجود ہم نے اس فرمان کو پس پشت ڈال دیااور آج نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم افرادی قوت اور مادی وسائل رکھنے کے باوجود پوری دنیا میں دوسروں کے دستِ نگر ہیں۔ اسرائیل کی مثال ہی لے لیں جو اتنا چھوٹا سا ملک ہے کہ عرب ملکر تھوک بھی دیں تو یہ ڈوب جائیگا۔ 70فیصد علاقہ صحرا ہے۔معدنی وسائل سے محروم ہے پورے ملک کی آبادی ہمارے ایک شہر لاہور سے بھی کم ہے لیکن پوری مسلم امہ میں ایک طاقت ہے اس لئے کہ وہ تعلیم میں پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے سائنسی اور دفاعی تحقیق میں نمبر 1ہے۔ نتیجتاً آج کوئی مسلمان ملک اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آج بھارت اور امریکہ اسرائیلی دفاعی سامان کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ اسرائیلیوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو تعلیم اور سائنس میں بالکل ترقی نہیں کرنے دی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج فلسطین میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور نئی فلسطینی نسل تمام تر جذبہ حب الوطنی کے باوجوداسرائیلیوں کے سامنے بے بس ہے۔ غلیلوں اور پتھروں کیساتھ اسرائیلی ٹینکوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اسرائیلیوں نے بہت کامیابی سے انہیں تعلیم سے محروم کر کے جہالت کے دور میں دھکیل دیا ہے۔حیران کن بات ہے کہ یہی ایجنڈا القاعدہ، طالبان، داعش اور دیگر دہشتگرد تنظیمیں لیکر مسلمان ممالک میں وارد ہوئی ہیں۔ جب سے طالبان کا عمل دخل افغانستان میں بڑھا ہے انہوں نے سب سے پہلا حملہ تعلیم پر کیا۔ لہٰذا افغانستان میں تعلیمی عمل کئی سالوں سے معطل ہے اور ایک مکمل طور پر ان پڑھ نسل پروان چڑھ چکی ہے۔ جو آپس کا خون بہانا بہادری سمجھتے ہیں۔ یہی کام نائیجیریا میں بوکو حرام، ایتھو بیا میں الشباب، شام وعراق میں داعش، یمن میں القاعدہ اور فاٹا میں تحریک طالبان کے لوگ کر رہے ہیں۔اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کی پشت پر کونسی طاقت ہے اور اسکے کیا مقاصد ہیں ؟ مسلمانوں کو جان بوجھ کر کسی خاص منصوبہ کے تحت پتھر کے زمانے میں دھکیلا جا رہا ہے اور ظاہر ہے جب مسلمان پسماندہ ہونگے تو مسلمانوں کے وسائل سے کونسی طاقتیں استفادہ کرینگی۔ مسلمان ممالک کی تیل کی دولت سے کون لوگ عیاشی کر رہے ہیں۔ وہی لوگ جو ان تنظیموں کی پشت پر ہیں۔پاکستان مسلم دنیا میں نسبتاً ایک بہتر تعلیم یافتہ اور ترقی پذیر ملک ہے۔ ایٹمی صلاحیت بھی حاصل کر رکھی ہے۔ پاکستان کو کمزور اور ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کیلئے اب تک کئی طریقے استعمال ہو چکے ہیں جن کی تفصیل پھر کسی وقت۔پاکستان کی علم سے محرومیت اب دشمن کا نیا حربہ ہے۔ ا?خر سوچنے کی بات ہے کہ تمام دہشتگرد تنظیمیں اسلام ہی کے نام پر کام کرتی ہیں۔ نام بھی اسلامی ہیں۔ اسلامی شریعت کے داعی بھی ہیں۔ علم کے متعلق حضور اکرم کے احکامات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں تو پھر یہ علم مخالف کیوں ہیں؟ فاٹا میں اب تک یہ لوگ لگ بھگ تین ہزار سکول مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کر چکے ہیں۔خیبر ایجنسی کے کچھ علاقوں میں پچھلے پانچ سالوں سے تعلیمی عمل معطل ہے سوچا جا سکتا ہے کہ اس ان پڑھ نسل کا کیا بنے گا؟ ظاہر ہے زندہ رہنے کیلئے تو وہ بھی طالبان ہی بنیں گے۔ علم سب سے زیادہ مؤثر اور طاقت ور ہتھیار ہے اور دہشت گردتنظیمیں اس عمل سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر علم پھیلتا رہا توان کی تباہی یقینی ہوگی۔پشاور ا?رمی پبلک سکول پر حملہ صرف سکول پر نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل پر حملہ ہے۔ اس کا مقصد محض فوجی آفیسرز کے بچوں کو شہید کرنا نہیں بلکہ پاکستان میں تعلیمی سلسلے کو تباہ کرنا ہے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں کیونکہ اس دن سے تمام ملک کے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ بلوچستان میں پہلے ہی کئی ماہ سے سکول بند ہیں یہی انکا مقصد ہے۔ حکومت اور عوام دونوں ڈرے ہوئے ہیں لہٰذا وہی ہو رہا ہے جو کچھ وہ چاہتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت بھی اپنی سوچ میں بالکل واضح نہیں۔
Muhammad Rafique
About the Author: Muhammad Rafique Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.