قدر

اس آسمان کے نیچے اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نواز ر کھا ہے۔اور خود اس کا وجود بھی ایسی نعمتوں کا مرقع ہے جس کا بدل کم از کم اس دنیا کی ساری نعمتیں بھی نہیں،اور شاید اسی وجہ سے انسان کو باقی تمام مخلوق پر برتری حاصل ہے۔اﷲ تعالیٰ نے یہ نظام قدرت ایسا بنا یا ہے جو ایک عام آدمی پر بھی ایسے ہی لاگو ہوتا ہے جیسے ایک خاص آدمی پر، اس قانونِ قدرت میں کسی کو بھی رعائت حاصل نہیں۔جس طرح یہ نظامِ کائنات ایک معین مدت کے لیے ہے اسی طرح اس کائنات میں موجود نعمتیں بھی ایک طے شدہ وقت تک کے لیے ہوتی ہیں ۔ہمارا اپنا وجود بھی اس کی ایک مثال ہے۔مگر یہاں ایک دلچسپ بات سے ضرور آپ کو آگاہ کرتا چلوں کہ یہ وعدہ بھی صرف اُن نعمتوں یا اُن کے لیے ہے جو دائرہ قدرت کی پاسداری کرتے ہیں۔جو اس دائرہ قدرت سے نکل گیا ہو اُس کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں۔آپ نے اکثر ایک بے قدر ہُنر مند کو دیکھا ہوگاجو ساری عمر اُس ہُنر سے رزق بھی کماتا ہے اور اُس کے خلاف زہر فشا نی بھی کرتا ہے۔اور جب کام کرنے لگتا ہے تو کسی اوزار کے نہ ملنے پر اُس اوزار یا پرزہ کو کوستا بھی ہے اور کیونکہ وہ اپنے فن کی قدر بھی نہیں کرتا پھر کیسے وہ اپنے اوزاروں کی بھی قدر کرے گا اور پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں اچھا کام کر کے دے اور پھر کیسے وہ اچھا معاوضہ پائے گا اور جب اچھا مُعاوضہ نہیں پا ئے گا تو کیونکر وہ زندگی کی آسائشوں سے بہرہ مند ہو سکتا ہے۔میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنے ماں باپ کی قدر نہیں کرتے اور دوسروں کے ماں باپ کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔کچھ تو اُن کو دوسرں کے ماں باپ کی مثالیں اور حوالے دے کر بھی شرمسار کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اکثر اس قسم کے فقرے بولتے ہیں’’ آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟‘‘مگر ہمیں اُن کی اور اُن کی وراثت کی قدر اُس وقت ہوتی ہے جب وہ منوں مٹی کے اندر ہزاروں حسرتوں اور خواہشوں کے ساتھ دفن ہو جاتے ہیں ۔پھر ہماری آنکھوں میں نمی اور اُن کی کمی رہ جاتی ہے اور وہ سارے درد جو ہم نے اُن کو دئیے ہوتے ہیں ہمارے دل کی زمین پر اُگنے لگتے ہیں۔میں نے ایسے ماں باپ بھی دیکھے ہیں جو اولاد کی قدر نہیں کرتے وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو کوستے رہتے ہیں کہ فلاں کا بچہ ایسا ہے اور فلاں کا بچہ ویسا ہے ۔’’اور تم کیا ہو فقط دکھ اور تکلیف‘‘ مگر پھر وہی بچہ ہوتا ہے، جو آپ کے بوڑھے جسم کو اپنے جوان ہاتھوں میں اُٹھائے پھرتا ہے۔ سخت بارش میں بھی اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جائے اُس کی آنکھیں آپ کے درد میں پرنم ہیں ۔کیاہم بھول جاتے ہیں کہ وہ ہمارے ہی وجود کا ایک حصہ لے کر پیدا ہوا ہے؟ مگر ہمیں اپنی اولاد کی قدر اُس وقت ہوتی ہے جب ہم اُن کو اپنے گھر سے بے دخل کر دیتے ہیں ۔وہ اولاد جس کا ہم چہرہ دیکھنا یا پھر جس کانام تک سننا گواراہ نہیں کرتے وہ ساری زندگی اپنے نام کے ساتھ ہمارا نام لکھ کر ہمیں زندہ رکھتا ہے۔جب ایک شخص اپنے بچوں کی ذہانت سے خوش نہیں ہوتا ،جب ایک شخص اپنے پیشہ سے خوش نہیں ہوتا ،جب ایک نوجوان اپنی جوانی کی قدر نہیں کرتا،جب ایک شخص اپنی صحت کی قدر نہیں کرتا،جب ایک شخص اپنے ماں باپ کی قدر نہیں کرتا،اور جب ہم وفادار لوگوں کو نظر انداز کر کے خوشامدوں پرنظرِ کرم کرنے لگتے ہیں اور جب ہم مظلوموں کو نظر انداز کر کے ظالموں کے ہم نوا بن جاتے ہیں ،اور جب تیز رفتار گاڑی میں اپنے جسم کی قدر کو بھول جاتے ہیں،اور جب ہم اچھے لوگوں کی پیروی کرناچھوڑ دیتے ہیں،ہم رزق کی قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور تو اور ہم اﷲ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو کر بھی اُس کا شُکر نہیں کرتے تب ہاں تب اﷲ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا دسترخوان لپیٹ لیتا ہے اور ہم ذلت ورسوائی کے تاریک گھڑے میں عمر بھر ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں۔فرمانِ خداوندی ہے ’’میرا شکر کرو میں تمہیں اور دونگا۔‘‘ مگر عجیب بات ہے ہمارا شکر بھی آج منافقت کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ۔ہم نے شکر کو فقط تکیہ کلام(ڈائیلگ) بنا لیا ہے۔آخر میں آپ کو یہ بتا تا چلوں کہ کبھی بھی کسی کام کا وقت نہیں گزرتا۔جب تک آپ کے جسم میں زندگی کی رمق باقی ہے آپ کے پاس چانس ہے کہ آپ کر سکتے ہیں۔آپ نے یہ طے کر لیا تھا کہ میں کبھی امیر نہیں ہو سکتا تو آپ ہو سکتے ہیں ۔دیکھیں کہیں آپ دولت کی بے قدری تو نہیں کر نے والے۔آپ ہمیشہ بیمار رہتے ہیں ،دیکھیں آپ صحت کے معاملے رسک لینے والے تو نہیں۔آپ اپنے بہن بھا ئیوں سے نالاں ہیں دیکھیں آپ کہاں پر غلط ہیں۔دیکھیں غلط فہمیاں حقیقت نہ بننے پائیں۔آپ کا ذہن بنا دیا گیا تھا کہ آپ کبھی پڑھ نہیں (تعلیم حاصل نہیں)سکتے تو دیکھیں آپ ایسے تو نہیں تھے جو علم کی قدر نہ کرتے ہوں یعنی آپ کو یہ لگتا ہو کہ آپ کا تعلیم حاصل کرنے میں کو ئی مفاد نہیں اور ہو اکتا ہے اب آپ کو تعلیم کی ضرورت ہو۔اسی لیے تو کہا گیا ہے علم حاصل کر گود سے گور تک۔تو پھر آج سے کیوں نہیں آپ دوبارہ پڑھنا شروع کرتے آج کیوں نہیں آپ اپنا مقصد ِ زندگی طے کر لیتے۔

ہمیں اپنے آج کی بھی قدر کر نی چا ہیے تا کہ ہمارا کل زیادہ تابناک ہو۔ہمیں اپنی قدر کر نا ہو گی۔ ہمیں اپنی قوم کی قدر کر نا ہو گی۔ہمیں پارک کے ہر اُس گھا س کے تنکے کی قدر کرنا ہوگی جو ہمارے قدموں کے نشیب و فراز کو نرم و گداز سطح مہیا کر تا ہے۔ہمیں اُس وطن کی قدر کر نی چا ہیے جو اقوامِ عالم میں ہماری پہچان ہے۔ہمیں اُس آزادی کی قدر کرنی چا ہیے جس نے ہمیں غلامی کی لعنت سے نجات بخشی اور اُن بزرگوں کی قدر کرنی چا ہیے جنہوں نے ہمارے لیے اپنا آرام و سکون قربان کر دیا اور صبح و شام اُن شہیدوں پر درودوسلام بھیجنا چا ہیے جنہوں نے ہمارے لیے اپنا آج اور کل قربان کر دیا۔اُنہوں نے اپنے بچوں کو تو یتیم کر دیا مگر ہمیں یتیمی سے بچا لیا اِس ملک کو یتیم و لاوارث نہ ہو نے دیا ۔اور اگر ہم یوں ہی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی بے قدری کرتے ر ہے تو وہ دن طے شدہ دستور کے مطابق ضرور آئے گا جب ہماری دنیا اور آخرت کی تو قیر جاتی رہے گی ۔ قدرت کسی کے لیے بھی اپنا قانون بدلہ نہیں کر تی ۔ ہمیں اُوجِ ثریا سے زمیں پہ آتے دیر نہیں لگے گی ۔
A.R Ikhlas
About the Author: A.R Ikhlas Read More Articles by A.R Ikhlas: 37 Articles with 28437 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.