کچھ باتیں، کچھ یادیں

شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی کی گولڈن جوبلی ۲۰۰۶ میں منائی گئی۔ ہمارے استاد ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری سابق چیئرمین شعبہ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ پاکستان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس جرنل گولڈن جوبلی نمبر کے لئے اس موقع پر اپنی کچھ یادیں قلمبند کرو۔ اس سلسلے میں نے جو تحریر کیا تھا وہ تحریر پیش خدمت ہے۔

ابھی بی۔ اے کے امتحان سے فارغ ہوئے تھے کہ محترم والد صاحب محمود علی چشتی ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن،سندھ، کراچی، نے کہا کہ لائبریری سائنس میں ماسٹرز کر لو۔ یہ ایک پیشہ ورانہ مضمون ہے۔ ملازمت بھی آسانی سے مل جاتی ہے۔ میں نے اردو ادب میں ماسٹرز بعد میں کیا۔ دراصل ہم ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ مرحوم والد صاحب کی خواہش تھی کہ میری بیٹیاں، بیٹوں کی طرح میرا ساتھ دیں۔ لہذا ہم نے والد کے حکم کے آگے سر جھکادیا اور ہمارا داخلہ ۱۹۷۵ء میں شعبہ لائبریری سائنس، جامعہ کراچی میں ہوگیا۔ کتاب خوانی کا شوق تھا یوں اس کی تکمیل بھی ہوئی۔

لائبریری سائنس ہمارے لئے ایک نیا مضمون تھا۔ کیونکہ اس وقت انٹر اور بی اے کے نصاب میں یہ مضمون شامل نہ تھا۔ صدر شعبہ لائبریری سائنس پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید تھے۔ ان کے لیکچرز اتنے محققانہ ہوتے تھے کہ اکثر سر سے گزر جاتے تھے۔چند طالب علم تو ان کے لیکچرز ٹیپ کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ شعبہ کے ہردلعزیز استاد پروفیسر ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری تھے۔یہ نہایت قابل استاد تھے۔ درجہ بندی پڑھاتے تھے۔ اس مضمون کو بڑے سلیقے سے اپنے شاگردوں کے ذہن میں بٹھادیتے تھے۔ مشیر طلبہ ہونے کے باعث اپنے شاگردوں سے بہت قریب تھے۔ سر اکرم پر خلوص اور بلند کردار انسان ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ ہماری استاد تھیں۔ ان کے پڑھانے کا انداز نہایت اعلی تھا۔ یہ بارعب اور قابل شخصیت ہیں۔ انھوں نے انتھک محنت کو اپنا شعار بنایا جو آج بھی قائم ہے۔

میرے دیگر اساتذہ میں پروفیسر ڈاکٹر جلال حیدر، پروفیسر مظہر باری، پروفیسر صادق علی خان، پروفیسر عبدالصمد انصاری اور پروفیسر ملاحت کلیم شیروانی شامل ہیں۔ میڈم ملاحت کا ان ہی دنوں میں تقرر ہوا تھا۔ بہت ذہین اور قابل استاد تھیں۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے بہت ہی دوستانہ ماحول میں پڑھاتی تھیں۔ ۱۹۷۵ء میں لاہور کی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر سفر میں ساتھ ہونے کی وجہ سے ان سے قریب ہونے کا موقع ملا۔ یہ بحت یہ سلجھے مزاج کی خاتون ہیں۔ میں نے ان کو کبھی کسی کی برائی کرتے نہیں سنا۔
لائبریری سائنس ایک ایسا مضمون ہے جو اپنے طالبعلموں کو آرٹس و سائنس کے تقریبا تمام مضامین کی بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمارے لئے بڑی مفید اور دلچسپ بات ہے اور ہمارے لئے بڑے فخر کا مقام ہے کہ ہم کسی بھی مضمون کےطالبعلم سے اس کے مضمون کے بارے میں باآسانی گفتگو کر سکتے ہیں۔

ماسٹرز کرتے ہی گورنمنٹ کالج کی سترہ گریڈ کی ملازمت مل گئی اور لیکچرر کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ نیا کالج تھا لائبریری سائنس کی تعلیم کے لئے اسکی لیب لائبریری ہوتی ہے۔ لائبریری میں صرف فرنیچر موجود تھا۔ لہذا میں نے لائبریری کی ابتدائی ترتیب و تنظیم اور منصوبہ بندی کی۔ ۱۹۷۸ میں میرا تبادلہ ریاض گورنمنٹ گرلز کالج میں کر دیا گیا۔ اس کالج میں میرے آنے سے قبل کسی لائبریری سائنس کی استاد کا تقرر نہیں ہوا تھا۔ لائبریری ہال میں دیگر مضامین کی کلاسز ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت لائبریری میں صرف بارہ سو کتابیں اور مختصر فرنیچر تھا۔ اب لائبریری میں تقریبا پندرا ہزار کتابیں موجود ہیں اور فرنیچر میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ طالبات بہت ذوق و شوق سے یہ مضمون پڑھتی ہیں۔

جہاں تک موجودہ دور کے شعبہ لائبریری سائنس کا تعلق ہے اس کا نام تبدیل ہو کر شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس ہو گیا ہے۔ پہلے ماسٹرز کو ایم ایل ایس اور اب ایم ایل آئی ایس کہتے ہیں۔ ہمارے دور میں یہ شعبہ لائبریری کی عمارت میں قائم تھا۔ اب کلیہ آرٹس کی عمارت میں منتقل ہو گیا ہے۔ شعبہ میں کمپیوٹر لیب کا اضافہ ہوا ہے۔ جس سے طلبہ اور اساتذہ کو تعلیم و تدریس میں بڑی سہولت میئسر آئی ہے۔ میری تعلیم کے وقت جو اساتذہ شعبہ میں موجود تھے وہ سب ریٹائر ہو گئے سوائے پروفیسر ملاحت کلیم شیروانی کے۔ اس وقت صدر شعبہ بھی وہی ہیں۔

یہ مضمون شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس، جامعہ کراچی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر تحریر کیا گیا تھا۔