خبرپاروں کے آئینے میں از عظمی صدیقی

اخباری کالم پر مشتمل کتاب "خبرپاروں کے آئینے میں" کی مصنفہ عظمی صدیقی نہ صرف کالم نگار ہیں بلکہ شاعرہ اور افسانہ نگار بھی ہیں۔جامعہ کراچی سے اردو ادب اور سیاسیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد تدریس کے منصب پر فائز ہوئیں۔تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ اخبارات، رسائل اور یونیورسٹی میگزین میں ان کے ادبی مضامین اور شاعری شائع ہوئی۔ ۱۹۹۵ء میں جرمنی آئیں،یہاں بھی ان کی ادبی سرگرمیاں جاری رہیں اور بے شمار مضامین مجلات میں شائع ہوئے۔ ۲۰۰۹ء میں جرمنی سے برطانیہ منتقل ہو گئیں۔یہاں کے ایک اردو اخبار میں ان کے ہفتہ وار کالم شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عظمی صدیقی لندن کے ایک کالج میں اردو کی لیکچرار بھی ہیں۔ آپکا ایک مجموعہ کلام ۲۰۱۱ء میں شائع ہوچکا ہے جس کاعنوان ہے،"آءو کچھ خواب چنیں" ۔

زیر تبصرہ کتاب "خبرپاروں کے آئینے میں" مصنفہ کی بہترین کاوش ہے۔ بقول عظمی صدیقی کے " میری خواہش ہے کہ میرا قلم ہمیشہ با ضمیر تحریروں، انسان دوست نظریوں کا حامی رہے اور سکوت اور ادھوری سچائی کے کلچر کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ رکھے"۔

عظمی صدیقی نے معاشرے کے مسائل کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھا۔ فرد سے معاشرہ وجود میں آتا ہے، فرد کے مسائل کے اثرات پورے معاشرے پراثرانداز ہوتے ہیں۔ انھوں نے موجودہ عہد کے معاشی اور طبقاتی نظام کے پیدا کردہ مسائل پر قلم اٹھایا۔ اس دور کے سیاسی، معاشی، تمدنی اور مذہبی بے راہ روی اور بے اعتدالیوں کی بھرپور انداز میں عکاسی کی ہے۔ ان کا اندازبیان ان کی علمی فراست پر دلالت کرتا ہے
"خبرپاروں کے آئینے میں" میں مصنفہ نے ملک اور عوام کو در پیش معاملات اور مسائل پر 64مضامین تحریر کیے ہیں۔ ایک مضمون "آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا" میں لکھتی ہیں،

"اس وقت پاکستان کا حال وہی ہے جو ڈکیتی کے بعد گھر کا ہوتا ہے۔ لٹیروں نے کچھ نہیں چھوڑا۔ سارا خزانہ خالی ہے۔ لیکن پاکستان کا قیام اور وجود اس روئے زمین پر ایک معجزے سے کم نہیں۔ بفضل تعالی جہاں قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہاں عوام کی چمڑی بھی خود کفیل ہے۔ عوامی چمڑی سے ہی ڈوبتی معیشت کو سہارا دیا جاتا سکتا ہےسو دیا گیا پھر بھی موجودہ بجٹ کو عوامی بجٹ نہ جانے کیوں کہا جا رہا ہے جب کہ وہ خالص عوامی چمڑی سے تیار ہے"۔

عظمی صدیقی نوع انسانی کی بقا اور معاشرے کی فلاح بہبود میں خواتین کی اہمیت اور افادیت کو مسلم سمجتی ہیں کہ ان کی فکری، ذہنی اور باطنی خوبیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کیا جائے۔ ایک کالم "خواتین میدان عمل میں" میں تحریر کرتی ہیں کہ "پاک فوج کے ہوابازوں میں خواتیں کی شمولیت اور دیگر میدانوں میں بھی ان کے مہم جو یانہ کارناموں کو دیکھ کر صنف نازک کے بارے میں تمام فرسودہ نظریے اور مفروضے غلط ثابت ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اگر مغربی ممالک میں خواتین مردوں کے مقابل دوڑ میں انھیں بہت سے میدانوں میں پیچھے چھوڑ جانے پر نظر آتی ہیں تو ہمارے ملکوں میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چلنے بلکہ ان سے دو دو ہاتھ کرنے کے جوہر دکھانے میں ماہر نظر آتی ہیں۔

کیونکہ ہم گذشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل پرکمرشل آرٹ میں خواتین کی مہارت پر ایک دستاویزی فلم دیکھ چکے ہیں۔ اپنے تحفظ میں وہ مد مقابل کا کیا حال کرسکتی ہیں غالب کی دور رس فکر نے صنف نازک کے بارے میں اس خیال کو پیش کر دیاتھا
ڈھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

پاکستان سے جرمنی اور پھر برطانیہ منتقل ہونے والی یہ خاتون بہت کم مدت میں نہ صرف برطانیہ کے معاشرہ کے مزاج سے واقف ہوئیں بلکہ یہاں کے ثقافتی نظام کی روایات کو سمجھا اور با ضمیر تحریروں کے لئے قلم اٹھایا۔ اس تصنیف میں بے شمار کالم برطانیہ کے کلچر، سیاست کے بارے میں تحریر ہوئے ہیں۔ اپنے ایک مضمون "آئرن لیڈی برطانوی سیاست کا ناقابل فراموش باب" میں لکھتی ہیں-

آج آئرن لیڈی کے رخصت ہونے کے بعد بھی برطانوی سیاست میں ان کے نظریات کا اثر کارفرما نظر آرہا ہے۔اس کے ساتھ ہی مختلف لوگوں کے رد عمل بھی سامنے آرہے ہیں۔ لوگ مارگریٹ تھیچر کے دور کی پالیسی اور حکمت عملی کو یاد کرکے خوفزدہ بھی ہیں۔ بےروزگاری اور نجی سرمایہ کاری سے پیدا شدہ انتشار، پول ٹیکس کے احتجاج اور ہنگامے، نسلی فسادات، ٹریڈ یونین اور سوشل سسٹم میں اصلاحات کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلفشار کو آج بھی لوگ نہیں بھولے ہیں اور موجودہ حکومت کو بھی اس امر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے"۔

زیر نظر تصنیف میں عظمی صدیقی نے اپنے کالموں میں معاشی اور سماجی مسائل کے تاریخی پس منظر کو پیش کیا ہے۔ انداز تحریر اتنا اثر انگیز ہے کہ مطالعے کے وقت ہر مزاج کے قاری کی دلچسپی بڑھتی ہے۔ ان کی تحریروں میں ان کا ادبی ذوق نمایاں ہے۔عبارت میں جا بجا اشعار بھی شامل کئے گئے ہیں۔