انگ ریزی

 ’انگ‘ ہندی زبان کا لفظ ہے اور معنی ’بدن ،جسم ،عضو‘ رکھتا ہے۔ جبکہ ’ریزی‘ فارسی سے ہجرت کر کے اردو میں آن بسا ہے جس کے معنی ’ٹکڑا‘ ’حصہ‘ یا جز کے ہیں۔ دونوں الفاظ کو ایک دوسرے کے ساتھ مرکب کر کے پڑھیں تو لفظ انگ ریزی وجود میں آتا ہے۔جس کاہوا جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔

اور جب ہم اس لفظ کو باہم مدغم کر دیں تو ’انگریزی ‘ کا لفظ جنم لیتا ہے۔ ہماری عقل شریف میں آج تک یہ بات پورے معنوں کے ساتھ جلوہ گر نہیں ہوئی کہ آخر اس بدیسی بچارے انگلش مینEnglish man) کو انگریز کیوں کہا گیا جب کہ ہمارے یہاں اس مرکب لفظ کے دونوں حصوں کے معروف معنی موجود ہیں۔ یہ لفظ اگر طنزیہ طور پے کہا گیا ہے کہ انگریز بچارہ کہاں سے چلا اور انگ ریزی کرتا ہوا کہاں آن پہنچا۔ اس نے زندگی کو کتنا مشکل میں ڈال کر جینے کا سامان کیا ہے۔ اسے یورپ جیسے ٹھندے علاقے میں کیا آگ لگی کہ وہ یہاں سے دھوپ کے ستائے علاقوں میں مارامارا پھرتا رہا۔یہاں کے علاقوں پر قبضے کر نے کے لئے کتنی انگلش ماؤں نے اپنے لختِ جگر نثار کئے اور کتنی بیویوں نے انتظار کے المناک سالوں پر محیط ثانیے گزارے ہوں گے۔ اور آخر اس بچارے کو یہاں سے ہجرت کر کے اپنے گھر واپس بھی جانا پڑا۔اگر انگریز سے ہمدردی کا رویہ اختیار کئے بغیر بات کی جائے تو پھر اس لفظ کے معانی میں کچھ کمی بیشی کرنی ضروری لگتی ہے۔ ہم اس بحث کو تھوڑا سا اور سپیس دیں گے۔ ہماری اردو میں ’ریز‘ کے لاحقے کے ساتھ اور بھی الفاظ موجود ہیں ان سے کچھ مدد لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ایک مثال لیتے ہیں : رنگریز۔ اس لفظ کے معنی میں وہ شخص جو کپڑوں کو خاص رنگ میں رنگ دیتا ہو۔ یہ ایک اسم فاعل ہے ، ایک پیشہ ہے۔ ایک اور مثال ہے: گلریز۔ اس کا مطلب ہے گلوں کو بکھیرنے والا۔ یہ لفظ بہت اچھے مقرر کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔کو اتنی اچھی گفتگو کرے کہ لوگ کہیں یہ الفاظ نہیں بلکہ پھول نچھاور کرتا ہے۔ اس کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں،وغیرہ۔ان دونوں مچالوں سے ہماری کچھ رہنمائی ہوتی ہے کہ ہم ’ انگریز‘ کو ایک دوسرے تناظر میں دیکھ سکیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ’ انگریز ‘ وہ ہوتا ہے جو انگ یعنی جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے یعنی دوسروں کے نا کہ اپنے۔

’انگریز‘ اس دوسرے معنی میں سمجھنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔کیوں کہ اس کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ اس لحاظ سے واقعی انگ ریز ہے اور ماضی میں بھی رہا ہے۔ انگ ریز کی یہ مشہورِ زمانہ پالیسی Divide and Rule ہی رہی ہے یعنی وہ دوسروں کے انگ علیحدہ علیحدہ کر کے ان پر فتح پاتا رہا ہے اور پھر اس نے اسی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کئی سو سال تک دنیا کو اپنا زیرِ نگیں بھی رکھا ہے۔ اس کی کومن ویلتھ آج بھی اس بات کی گوہی دینے کے لئے کافی ہے۔ماضی ہی کیا آج بھی برطانیہ اور امریکہ کی دنیا میں یہی پالیسی دیکھی جا سکتی ہے۔ کسی بھی قوم کو خاص کر مسلمانوں کو اس نے تقسیم در تقسیم کے ذریعے کمزورسے کمزور کر دیا اور پھر بڑی آسانی سے مسلم علاقوں پر اپنا تسلط قائم کیا۔ آج بھی دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنے پنجے گاڑھنے کے لئے پہلے وہاں انتشار پیدا کیا جات ہے اور پھر امن کے داعی بن کر وہاں کے ذخائر پر اپنا قبضہ جما لیا جاتا ہے۔تو پھر انگلش مین کو انگ ریز کہنے میں کیا غلط ہے۔انگریز نے تو سائنس جیسی منفرد شاخِ علم کی بھی انگ ریزی کی ہوئی ہے۔ تمام سائنس اعشاری نظام کی حمایت کرتی ہے اور اس میں پیمائشیں لینا اور سمجھنا سب سے زیادہ آسان سمجھا جاتا ہے لیکن انگ ریز نے وہاں بھی ساٹھ سیکنڈ کا منٹ، ساٹھ منٹ کا گھنٹہ اور پھر چوبیس گھنٹوں کا ایک شمسی دن نہیں چھوڑا چاہے ساری دنیا کو پیمائش کی مصیبت پڑی ہی رہے۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ انگریز کو افرنگی بھی کہا جاتا ہے۔ افرنگ کا لفظ نا تو انگلش کے قریب ہے اور نہ برٹنBritonکے اگر اس کی لسانی نزدیکی بنتی ہے تو وہ فرنچ کے کچھ قریب ہے لیکن فرنچ، انگریز کی نسبت یہاں کم متعارف ہیں۔ یہاں عام رویہ ہے کہ تمام یورپ کو ہی انگریز یا فرنگی سمجھ لیا جاتا ہے۔جبکہ ایسا نہیں ہے۔ہم اس لحاظ سے لفظ ’افرنگی‘ پر بات کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک اور بات کہ لفظ’ ولایت‘ بھی یورپ اور خاص طور پر برطانیہ کے لئے استعمال میں رہا ہے ۔ گو اب اس سنس میں کم ہو گیا ہے۔ ولایت کا معنی علمِ لادنی بھی رہا ہے۔لیکن یہاں ان دونوں معانی کا لفظ ’انگریز ‘ سے قریبی رشتہ سامنے نہیں آتا کہ آخر اس قوم کے لئے یہ لفظ کس معنی میں تخلیق پذیر ہوا۔

چلیں اب ہم اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں جو کہ ’ انگ ریزی‘ ہے۔ ہم اس لفظ پر غور کرتے کرتے اپنی انگ ریزی کر چکے ہیں لیکن لفظ ہے کہ سمجھ کے خانے میں پورا ہی نہیں آ رہا۔آج کل کی اردو زبان میں یہ لفظ بہت کم مستعمل ہو رہا ہے۔ کیوں کہ اب یہ لفظ انگ اور ریزی کے درمیان کسی دوری کے بغیر لکھنے میں آتا ہے اور ’ انگریزی‘ لکھا جاتا ہے جس کا معنی سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ اس کا مطلب انگریزوں کی زبان یعنی ’انگلش‘ ہے۔ انگلش کا لفظ پڑھے لکھے لوگ زیادہ استعمال میں لاتے ہیں اور کم پڑھے لکھے یا دیہاتی ماحول کے لوگ انگریزی ہی زیادہ بولتے اور لکھتے ہیں۔ ویسے بھی انگلش کا اردو میں ترجمہ انگریزی ہی کیا جاتا ہے۔جب چلتے چلتے ہم انگ ریزی کو انگ ریزوں کی زبان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اور بھی عجیب و غریب حقائق نظر آنے لگتے ہیں۔

’انگریزی‘ نے ہمارے ہونہار طالب علموں کی جو انگ ریزی کی ہے اسے ہم سے زیادہ اور کون سمجھے گا کیوں کہ ہم خود انگ ریزی پڑھاتے ہیں اور پڑھاتے پڑھاتے ہماری اپنی بھی انگ ریزی ہو جاتی ہے لیکن انگریزی ہے کہ قابو ہی نہیں آتی۔ ہمیں تو آج تک یہ بات بھی سمجھ نہیں آ سکی کہ ہم یہ انگ ریزی کس طرح اپنے ہونہار طالب علموں کو پڑھائیں کہ وہ اس انگ ریزی کے مہلک اثرات سے بچ سکیں یا انگریزی کے ہاتھوں ہونے والی اپنی انگ ریزی سے بچ سکیں۔ لیکن ہر بار نتیجہ نا کامی ہوتا ہے اور انگریزی ہماری انگ ریزی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ہم اگر خود کو انگریزی کی انگ ریزی سے نہیں بچا سکے تو ہمارے ہو نہار علم کے طالب کس کھیت کی مولی ہیں۔ وہ تو پہلے ہی انگریزی کے شہیدوں میں شمار ہونے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
ہم اپنے طالب علموں کی انگریزی پر مدت سے غور فرما رہے ہیں لیکن کوئی حتمی حل نظر نہیں آتا کہ ان بچاروں کو اپنے آباو اجداد کی غلطیوں ، کوتاہیوں یا محرومیوں کی سزا کیوں دی جا رہی ہے۔ اگر ان کے آبا نے انگریز کی مخالفت کی تھی، یا اس کا ساتھ دیا تھا یا کچھ بھی نہیں کیا تھا تو ان بچاروں کے گلوں میں انگ ریزی کا طوق کیوں ڈال دیا گیا ہے۔ مانا کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے لیکن یہ کیا ستم ہے کہ اس نے ہمارے ہونہار طالب علموں کو زبان رکھنے کے باوجود بے زبا ن بنا دیا ہے ۔ وہ بچارے ایک جملہ نہیں لکھ سکتے۔سارا سال اسی حسینہ کے پانے کی فریاد لئے عامل بابوں کی اکیڈمیوں کے دھکے بھی کھاتے ہیں، فیسیوں کے نذرانے بھی پیش کرتے ہیں ۔ نوٹسز کے تعویذات بھی لیمینیشن کروا کے گلے میں لٹکاتے ہیں لیکن یہ بے مروت ، بد لحاظ دوشیزہ ان کے ساتھ کوئی کال ہی نہیں ملاتی۔انگریزی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ان کی اپنی انگ ریزی ضرور ہو جاتی ہے انگریزی کا ایک انگ بھی چاہے ہاتھ میں نہ آئے۔

کتنے ستم کی بات ہے کہ جس سبجیکٹ پر ہماری سب سے زیادہ انرجی اور وقت کا اصراف ہوتا ہے وہی ہمارے ہونہار طالب علموں کے پلے نہیں پڑتا۔ اور اس سے زیادہ مزے کی بات ہے کہ ہم اپنا طریقہء کار بھی بدلنے کا سوچنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انگ ریزی پڑھانے کا یہ طریقہ صدیوں پرانا ہے ۔ لیکن اب اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے کیوں کہ اب طالب علم کا ماحول بدل گیا ہے۔ اس کا ماحول سکرین پر جا چکا ہے اور اسے انگریزی ابھی یونانیوں کے دور کے طریقے کے مطابق پڑھانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔اس طرح انگریزی تو کیا پڑھی جانی ہے البتہ انگ ریزی ضرور ہو جائے گی جو کہ ہو رہی ہے۔

ہمارے نظامِ تعلیم میں ربط کا زبردست فقدان ہے۔ اور یہی فقدان ہمیں انگریزی کے سبجیکٹ میں نظر آتا ہے۔ کسی ایک کلاس کو ایک مقصد کے لئے مختص کر دیا جائے اور ہر کلاس کو مکمل زبان کے لئے نہ رکھا جائے۔ ایک کلاس میں گرامر ہو جائے، ایک میں انشا ء پردازی، ایک میں سپوکن اور لسننگ وغیرہ۔ اس طرح انگریزی کی انگ ریزی میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔یا انگریزی کی فرضیت کم کر کے مستحب مضامیں میں ڈال دی جائے تا کہ جو اپنی مرضی سے رکھے وہ اپنی ذمہ داری سے اسے پڑھے بھی۔ ساری دنیا تو انگریزی کی انگ ریزی کا شکا ر نہیں ہے جس طرح ہمارا معصوم طالب علم ہے۔ جو چند ہونہار طلبہ پڑھیں گے وہ بہت اچھی پڑھ لین گے اور ملکی اور غیر ملکی ضرورتیں بھی پوری کریں گے۔ اس کو لازمی قرار دے کر بھی ہم نے کون سے ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لیا ہے بلکہ ہمارا طالب علم احساسِ کمتری اور قوم احساسِ بد تری میں مبتلا ہو رہی ہے۔ادھر انگریزی کی انگ ریزی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

اس ظالم انگریزی کی ایک اور انگ ریزی یہ ہو رہی ہے کہ مقامی زبانیں کمزور پڑ رہی ہیں ان کے ختم ہو جانے کا خطرات اور خدشات چاروں طرف منڈلا رہے ہیں۔ دراصل انگریزی کی اس انگ ریزی کی طرف توجہ بھی کم ہو رہی ہے۔ مقامی زبانوں میں ادب کی کم سے کم اشاعت ہو رہی ہے۔ تمام زرخیز ذہن بھاگ بھاگ کے انگریزی کا اسیر ہو رہا ہے اور مقامی زبانیں اپنے سپوتوں کو اس گوری چٹی کے ہاتھوں خوار ہوتے دیکھ دیکھ کے مارے شرم کے منہ چھپا رہی ہیں۔یہ نامناسب سلوک بند یا کم ہونا چاہئے۔ مقامی زبانوں کا حق پہلے ہے اور قومی اور بین الاقوامی زبانوں کا حق بعد میں آتا ہے۔ ہم نے الٹ کر دیا ہے۔

سارا قصور انگریزی کی اس انگ ریزی کا ہی نہیں۔ ہمارا ہونہار طالب علم بھی ضرور اس ناکام تجربے میں برابر کا شریک ہے۔ وہ انگریزی کیا اردو اور اسلامیات میں بھی فیل ہونا برا نہیں مناتا۔ اسے لگتا ہے کوئی ہوش ہی نہیں۔ اس کے کانوں میں لگی ہوئی ہینڈ فری نے اسے ہر ذمہ داری سے فری کر دیا ہے۔ وہ محسوس ہی نہیں کرتا کہ اس نے بڑے ہو کر شادی کرنی ہے۔ شادی کے بعد بچوں اور گھر کی ذمہ واری اسے اپنے نازک کندھوں پر اٹھا نی ہے۔ وہ کس رومانوی دنیا کا ہیرو بنا پھرتا ہے۔ اسے اور تو سب کچھ آتا ہے اپنی کتابیں ہی نہیں آتیں۔ تعلیم اسے لا پرواہوں نے مذاق بنا کے رکھ دی ہے۔ایسا طالب علم ایک نشئی سے بس تھوڑا سا ہی بہتر ہوتا ہے کہ وہ نشہ نہیں کرتا۔ لیکن نکما وہ اسی جیسا ہوتا ہے۔ ایسے نکمے طالب علموں کی بھی انگ ریزی ہونی بنتی ہے۔اور انگ ریزی کے لئے انگریزی سے بہتر کون سا مضمون ہو گا جو آتے ہوئے بھی نہ آئے اور نہ آتے ہوئے بھی لگے کہ آتا ہے۔

انگریزی کی ایک بات ہے جو مقامی بچاری زبانوں میں نہیں ہے اور وہ ہے اس کا طلسم۔ اس زبان کا طلسم بلا ہے۔جب مشرقی لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس زبان کو انگریزوں کی زبان ہونے کا شرف حاصل ہے اور وہ انگریز اتنے گورے ہیں اور ان کی انگریزنیاں اور بھی زیادہ گوری ہیں تو ہمارے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں یہ انگ ریزی ضرور پڑھائی جائے۔ وہ تو یہاں تک بھی خواہش مند ہو جاتے ہیں کہ ان کے منکر نکیر کے ساتھ سوال و جواب بھی اسی میں ہو جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔دراصل اس زبان کا پسِ منظر جس طرح اس کے قاری کو لا شعوری طور پر اپنی طرف کھینچا ہے وہ بہت کمال کا ہے اور اپنا جواب نہیں رکھتا۔ پھر انسان اس انگریزی کی کسی بھی ظالمانہ انگ ریزی کو ایک ظالم حسینہ کا آخری ستم سمجھ کر برداشت کرنے کو تیار ہو جاتا ہے چاہے اُسے اسے پاتے پاتے اپنا آپ گنوانا ہی پڑے، کوئی بات نہیں ایسے کاموں میں ایسا تو ہوتا ہی ہے۔
انگریزی میں ایک بات بڑی منفرد ہے کہ یہ چھوٹی اور بڑی ابجد رکھتی ہے کو اس کی افادیت کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ ناموں کا اور اسمِ معرفہ کا آسانی سے پتہ چل جاتا ہے۔ اس کی تحریر بھی آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کی گرامر بھی مشکل نہیں ہے۔ پھر یہ ایک بینالاقوامی زبان ہے، پھر اس میں بہت برا مواد دستیاب ہے۔ ان ساری خصوصیات کی ہوتے ہوئے ہمارے ہو نہاروں کو اس کا نہ آنا ایک المیہ ہے۔ ہمیں اس المیہ کی انگ ریزی سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

انگ ریزی کا موضوع صرف انگریز یا انگریزی تک ہی محدود نہیں ، دنیا میں ہر طرف انگ ریزی ہی بکھری پڑی ہے۔ وقت سب سے بڑا انگ ریز ثابت ہوتا ہے۔ کیسے ایک انسان وقت کی مہربانیوں سے گذرتا ہوا اس کی سفاکی کا نشانہ بنتا چلا جاتا ہے، اور آخر چلا ہی جاتا ہے۔ شیکسپیئر نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے : Last scene of all,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
That ends this strange eventful history,
Is second childishness and mere oblivision
Sans teeth, sans eyes , sans taste ,sans everything

بڑھاپا جو انگ ریزی کرتا ہے وہ تو شاید انگریز بھی نہیں کر پائے۔ ہر چیز چھین لیتا ہے۔ اس وقت، وقت ایک سنگ دل مہربان کی طرح لگتا ہے جو پہلے دیتا ہے اور پھر سب کچھ لے لیتاہے۔جب دانت نکل جائیں، آنکھیں بیگانی ہو جائیں، اور سب مزے منہ موڑ کر چلے جائیں تو اس سے بڑی انگ ریزی کیا ہو گی۔ یہاں ہم بالوں کا تو ذکر کر ہی نہیں رہے کہ وہ کیسے موسمی پرندوں کی طرح جوانی کا موسم ڈھلتے ہی نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں۔
ایک درخت بچارہ ہی لے لیں ، کیسے خزاں اس کی انگ ریزی کر کے رکھ دیتی ہے۔اولاد جیسے پتے یکے بعد دیگرے گرتے چلے جاتے ہیں، اور درخت اکیلا رہ جاتا ہے جیسے کوئی مجبور۔پھول کو ہی لے لیں۔ کیسے شاعر، عاشق اور ادیب اس کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ لیکن اس کی جونی ڈھلنے کا حال کوئی بیان نہیں کرتا۔ایک ایک پتی گر جاتی ہے اور پھر ذرہ ذرہ ہو جاتی ہے ۔ اس انگ ریزی کو فطرت کی سفاکی نہ کہیں تو اورکیا کہیں۔
انسانی تعلقات ہی دیکھ لیں کیسے ان کی انگ ریزی ساری عمر جاری رہتی ہے۔ کبھی تعلقات بنتے ہیں اور ایک نئی نکور چیز کی طرح پیارے لگتے ہیں۔ پھر پرانے ہو جاتے ہیں اور پھر نئی نسل آ جاتی ہے اور کہتی ہے کہ ہاں ’ وہ ہمارے بڑوں کے رشتہ دار تھے آج کل ہمارا آنا جانا نہیں ہے۔‘ بچپن کی کیسے انگ ریزی ہوتی ہے اور پھر بچپن ایک خواب کی حیثیت سے زیادہ نہیں رہ جاتا ۔ جوانی کی انگ ریزی ہوتی ہے تو ہر وقت اچھلنے کودنے والی مستانی دیوانی کیلئے ایک قدم اٹھانا دریائے نیل عبور کرنے والی مہم بن جاتی ہے۔

طوفان اور سونامی انسانی آبادیوں کی جو انگ ریزی کرتے ہیں انکا تو جواب ہی نہیں۔ صفحہء ہستی سے ایسے مٹا دیتے ہیں جیسے کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ کیسا ستم ہے۔انسانی آشیانوں کا تنکا ، تنکا بکھیر دیتے ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں، انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ان کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں۔

لو ! دیکھیں آتش فشاں پھٹتا ہے اور پہاڑ کی انگ ریزی کر دیتا ہے۔ پہاڑ جیسی مضبوط چیز اس کے آگے بے بس ہے۔ ایسے اڑتے ہیں جیسے قیامت آگئی ہو۔ ایٹم بم بھی تو ایسی انگ ریزی کے لئے ہی بنایا گیا ہے۔ جنگ سراپا انگ ریزی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ دشمن کے پرخچے اڑا دو۔ یہ پرخچے اڑانا انگ ریزی کرنا ہی تو ہے۔

تنقید کا معاملہ ہی لے لیا جائے سوائے انگ ریزی کے کیا ہے۔ بال کی کھال اتارنا کوئی ناقدوں سے سیکھے۔ آج کل ایم فل اور پی ایچ ڈی کا زمانہ ہے اور ان دونوں ڈگریوں کے حصول کے لئے خوب انگ ریزی کرنی ہی پڑتی ہے۔ اور جو نہیں کرتا اس کی ڈگری مشکوک ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔اپنی ڈگری کو مشکوک نگاہوں سے بچانے کے واسطے انگ ریزی لازم ہے۔

شہرت ہی لے لیں، کسی عزیزنہیں۔ لیکن انگ ریزی کے بغیر یا تو ملتی نہیں یا پھر رہتی نہیں۔شہرت سے ملنے یا اسے پاس رکھنے کے لئے انگ ریزی سے بہتر کوئی حکمتِ عملی نہیں۔کہا جاتا ہے:Inspiration is one percent but perspiration is ninety-nine percent.

کسی بھی کام کے کرنے کے لئے انگ ریزی لازمی ہے۔ دوسرے الفاظ میں انگ ریزی کائنات کی وہ حقیقت ہے جسے پچھلی کچھ صدیوں سے یورپ نے پہچانا ہے اور اس پر عمل کیا ہے جبکہ مشرق کے بہت سے ذہن ابھی موقع پرستی کر رہے ہیں۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں کام کرنے کا موقع ملے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موقع تلاش نہیں کیا جاتا پیدا کیا جاتا ہے۔ پچھلی صدیوں کی یورپ کی تاریخ اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔انہوں نے، جیسے بھی، مواقع بنائے اور پھر ان سے فائدہ اٹھایا۔موقع بنانے کے لئے بھی انگ ریزی اور پھر اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے بھی انگ ریزی۔

پرانے زمانے میں سزائیں بھی انگ ریزی کی صورت میں دی جاتی تھیں۔ ایک مجرم کی سزائے موت قسطوں میں پوری کی جاتی تھی: پہلے دونوں ہاتھ، پھر دونوں پاؤں، پھر دونوں بازو ، پھر دونوں ٹانگیں اور آخر میں اس کی گردن کاٹ کے اس کو دوسروں کے لئے نشانہء عبرت بنا دیا جاتا۔خدا معاف فرمائے! دل دہل جاتا ہے ایسی انگ ریزی کی ایسی حقیقتوں سے متعلق جان کر۔

میں کافی دیر سے سوچ رہا تھا کہ انگ ریزی کا متضاد کیا ہو گا یا کیا ہونا چاہئے۔ مستند حوالوں سے معلوم نہ ہونے پر ہم نے اپنی مرضی کی ہے اگر اچھی نہ لگے تو کوئی بات نہیں۔ ہم نے انگ ریزی کا الٹ انگ بانی سوچا ہے۔ انسان اپنی انگ بانی کرنی چاہتا ہے جبکہ ہو اس کی انگ ریزی جاتی ہے۔

اگر مبالغہ نہ بھی کیا جائے تو تمام زندگی انہی دو الفاظ کا کھیل لگتی ہے: انگ بانی، انگ ریزی۔

یعنی انسان چاہتا انگ بانی ہے لیکن ہو انگ ریزی جاتی ہے۔کائنات کا خلاصہ یہی دو الفاظ کہے جا سکتے ہیں۔ یا یہ کہہ لیں کبھی انگ بانی ہے اور کبھی انگ ریزی ہے۔یا یوں کہہ لیں انگ بانی اور انگ ریزی ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے متوازی چلتی ہیں ۔ یا یوں کہہ لیں ہر انگ بانی کے بعد انگ ریزی کا زمانہ آتا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں انگ بانی کے لئے انگ ریزی لازمی ہے۔

فلمی دنیا بھی اگر مماسی انداز میں ٹچ ہو جائے تو کیا برا ہے۔کبھی فلمی دنیا میں انگ نمائی ہوتی تھی اور دیکھنے شریف لوگ اتنے میں ہی سیراب ہو جاتے تھے اب زمینوں کی زرخیزی میں کافی کمی آچکی ہے اور زیادہ سے زیادہ کھاد کی ضرورت پڑتی ہے اور پھر شدیدسے شدید زہروں کا سپرے بھی ضروری ہے۔ لہٰذا فلمیں انگ نمائی سے انگ ریزی کی طرف آگئی ہیں۔ اب جسم پر برائے نام سے ہلکے سے کپڑے رہ گئے ہیں جن کا فلسفہ سمجھ سے باہر ہے۔اب تمام اعضاء توڑ کر دکھانے ضروری ہیں۔ یعنی فلمیں بھی اب انگ ریزی کا سہارا لے رہی ہیں۔ فلمی دنیا کا ذکر آہی گیا ہے توں کیوں نہ ’انگ‘کے حوالے سے ایک پرانی پنجابی فلم کے ایک گیت کا ایک شعر آپ کی نذر کیا جائے:
ساڈے انگ انگ وچ پیار نیں پینگاں پائیاں نیں
اساں دنیا توں چوری چوری اکھیاں لائیاں نیں

پتہ نہیں کہ انگ ریزی کا زمانہ پرانا ہونے کے بعد انسان کو کس چیز میں کشش محسوس ہو گی کیوں کہ اپنی کشش کی آخری انتہاؤں کو تو وہ چھو چکا ہے۔خیر ہمیں اتنا پریشا ن ہونے کی کیا ضرورت ہے اگلا زمانہ جانے اور اس کے پانے والے۔ہمار خیالِ ناقص ہے کہ انگ ریزی سے آگے کوئی سٹیج نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ ہم انگ ریزی سے پھر انگ نمائی کی طرف چلے جائیں۔اور پھر انگ ریزی کی طرف پلٹیں۔اور اسی چکر میں ہی چلتے رہیں۔خیر ریزی ہو یا بانی، یا نمائی انگ ضرور رہے گا کیوں کہ ساری بہار اسی انگ کے ساتھ ہے۔ غالبؔ یاد آئے بغیر رہتا ہی نہیں کیا کریں:
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہء بادِ بہاری کا

ملک کی موجودہ خود کش حملوں کی صورت میں تو انگ ریزی کا موضوع بہت ہی گھمبیر ہو جاتا ہے۔دھماکوں میں اعضا یوں بکھرتے ہیں کہ انسانیت کانپنے لگتی ہے۔خدا معاف کرے ۔ یہ سب خرابی کچھ جلد از جلد ختم ہو جائے۔ اور انگ ریزی، انگ بانی کی شکل اختیار کر کے ملک و قوم کی خدمت کرے۔یہ انگ ریزی دنیا میں کہیں بھی نہ ہو۔ سب انسان باہمی احترام کے ساتھ دنیا کی چند روزہ زندگی گذار کر اپنی آخرت کی طرف جائیں۔ موت سے پہلے مر جانے یا مار دیئے جانے کے واقعات دنیا کے ماضی کا حصہ بن جائیں۔ لیکن ایسا صرف چاہا یا سوچا جا سکتا ہے لیکن ابھی تک ایسا دیکھا نہیں جا سکا۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284374 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More