کھلتے راز(قسط اول)

بچپن میں میں جب بھی اُس کے پاس جاتا، لڑ پڑتا تھا۔ یہ لڑائی دن میں دوبار تو پکی ہوتی تھی اور اگر کوئی مہمان آ جاتا تو تیسری بار ہونے کے امکانات کم نا ہوتے۔ ایسے ہی وقت گزرتا گیا مگر یہ عادت بجائے چھوٹنے کے پکی ہوتی گئی۔ پتا نہیں کیوں وہ میری لڑائی کا بُرا نہیں مانتا تھا اور ناہی مجھے انکار کرتا تھا، جو بھی میں بولتا چاہے اچھا یا بُرا وہ بس سنتا رہتا تھااور اپنا کام کرتا رہتا۔ پھر ایک دن ایسا آیا اُس نے مجھے سمجھایا اور میں نے وہ راز پا لیا جس کے لیے میں انجانے میں برسوں سے لڑرہا تھا۔ ایک وقت گزر گیا ہے اب نا تو میں اُس سے لڑتا ہوں اور نا ہی خدا سے۔

گھر میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناتے خود کام کم ہی کرتا ، اکثر کام چھوٹوں سے کروالیتا تھا اور صبح صبح اُٹھ کہ دہی لینے جانے اور رات کو جب پی ٹی وی پہ ڈرامہ لگا ہو اور وہ بھی میرا پسندیدہ ، میں دودھ لینے جاؤں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پھر کیا ہوا وہ جو حاکم تھے محکوم بنا دیئےگئے ۔ سکول سے آئے دن بھاگنے، کام نا کرنے، آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومنے اور رات دیر تک باہر رہنے کے جرم میں ہمیں گھر بدر کردیا گیا۔ ہماری پناہ گا ہ بنا خالہ کا گھر جو کسی صورت بھی اڈیالہ جیل سےکم نہیں تھا۔وہ جو کل تک چھوٹوں پہ حکم چلاتا تھا آج وہ خالہ کے گھر سب سے چھوٹا ہونے کے باعث حکم بجا لانے لگا۔ سنا تھا چھوٹے ہونے کے بہت فائدے ہیں اور کچھ نقصان بھی مگر ہمارے کیس میں نقصان بہت زیادہ او ر فائدے کچھ کچھ تھے۔

صبح صبح جب ٹھیک ٹھاک مزے سے سو رہا ہوتا تو آواز پڑتی:"چلو بھائی اُٹھوجلدی دودھ لے آؤ۔ چاچابشیر انتظار کررہا ہوگا"۔

یہ آواز اذنِ قضا کاکام کرتی مگر میں بجائے مرنے کے اُٹھ بیٹھتااور ڈول اُٹھائے نیم غنودگی کی حالت میں گرتا سنبھلتا کسی طرح چاچے بشیر کی دکان تک پہنچ جاتا۔

"چاچا میں آگیا ہوں ! یہ میرا ڈول پڑا ہے، دودھ اس میں ڈال دو اور دہی شاپر میں"۔

بس اتنی سی ہانک لگاتا اور خود اُدھر ہی پھٹے (بینچ) پہ بیٹھا بیٹھا سو جاتا ، اُٹھتا تب جب انتظار کرکرکہ گھرسے کوئی لینے آجاتایاجب سورج کی دھوپ جلانے لگتی اور مکھیاں مجھ پہ تابڑتوڑ حملے کرنے لگتیں۔ تب جاکر کہیں آنکھ کھلتی اور آنکھ کھلتے ہی میرا پہلا نشانہ چاچا ہوتا:

"چاچا میں صبح کا آیا ہوں اور تم نے ابھی تک مجھے سودا نہیں دیا۔ اب گھر والوں سے جو مار پڑنی ہے اُس کا ذمہ کون لے گا؟ پتانہیں تمہیں روز روز مجھے لیٹ کرکہ مزہ آتاہے۔ میرے بعد آنے والے سبھی لوگوں کو تم نے سودا دے دیا ہے مگر مجھے ابھی تک نہیں دیا"۔

"او چھوٹے شاہ جی صبح کہ تو آپ ادھر آکے سوئے ہوئے ہیں سودا میں آپ کو کیا دوں"؟

"جو بھی ہے چاچا میری تیرے سے لڑائی ہو جانی ہے کسی دن ۔ تم میرے بعد آنے والے لوگوں کو پہلے سودا دے دیتے ہو اور میں ادھر بیٹھا مکھیاں مارتا رہتا ہوں، سوتا تو میں کبھی کبھی ہوں مگر تم روز ہی لیٹ کردیتے ہو"۔

"اچھا گرو اب گھر جاؤ آئندہ لیٹ نہیں کرتا"۔

وہ مجھے ہر بار یہی رٹی رٹائی لائن سناتا اور میں گھر لوٹ آتا۔ اُدھر میں چاچا کو سنا کہ آتا اور اِدھر گھر مجھے سننا پڑتی تھیں۔ مگر تھوڑی دیر بعد مک مکا ہو جاتا اور پھر موصوف عزت ماب سکول چلے جاتے ۔
پھر رات کو بھی ہماری ہی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی عین اُس وقت دودھ لینے جانا پڑتا جب میرا پسندیدہ ڈرامہ لگا ہوتا۔ میں ہرشام یہی دعا مانگتا کہ کسی طرح اُتنی دیر تک ڈرامہ رک جائے جب تک میں دودھ لے کر نہیں آجاتا مگر یہ صرف دیوانے کا ایک خواب ہوتا جو کبھی پورا نا ہوتا ۔

"رات کو چاچا کی دکان پہ اُدھم مچا دیتا، جلدی کرو چاچا، جلدی دودھ ڈال دو، ڈرامہ گزر جانا ہے، جلدی کرو نا چاچامیں جلدی آیا ہوں"۔

ترلے منت کرکے کہیں باری آتی مگرواپس آنے تک آدھا ڈرامہ گزر چکا ہوتا اور باقی کا آدھا یہ اندازے لگانے میں گزر جاتا کہ پہلے آدھے میں کیا ہوا؟
 
Shah Faisal Naeem
About the Author: Shah Faisal Naeem Read More Articles by Shah Faisal Naeem: 36 Articles with 31378 views Student of BBA (Honors)
Institute of Business Administration (IBA), University of the Punjab, Lahore.
Blogger at:
http://www.express.pk/blog/
http
.. View More