بیک وقت آذان و نماز جماعت

حکومت نے اسلام آباد میں نظام صلواۃ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے پھر یہ نظام مرحلہ وار پورے ملک میں نافذ کیا جائے گا ۔وزیر مذہبی امور سردار یوسف کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پورے اسلام آباد میں ایک ہی وقت میں اذان اور نماز کی جماعت ہو گی اور ان اوقات میں تمام کاروباری اور تجارتی مراکز بند رہیں گے ۔اس سلسلے میں علماء و مشائخ کا ایک اجلاس بھی ہوا ہے جس میں اس نظام کے نفاذ کے حوالے سے تفصیلی غور و خوض کیا گیا ۔

ایک لحاظ سے یہ اچھا فیصلہ ہے کہ جس طرح سعودی عرب میں نماز کے اوقات میں تمام بازار اور دکانیں بند ہو جاتی ہیں اور ایک اسلامی ملک کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے لیکن سعودی عرب اور پاکستان کے ماحول میں بڑا فرق ہے سعودی عرب میں ایک ہی مسلک کے لوگ رہتے ہیں ،پھر وہاں صرف دکاندار ہی نہیں بلکہ گاہک بھی یعنی عام لوگوں کی بہت بڑی اکثریت بھی پانچوں وقت نماز کی پابند ہے نماز کے اوقات میں کوئی فرد باہر گھومتا ہوا نظر نہیں آئے گا یا تو وہ نماز کے لیے جاتا ہوا نظر آئے گا یا پھر اپنے گھر پر ہو گا ۔

ہمارا حال تو یہ ہے کہ جب ہمارے آباو اجداد نے پاکستان کے لیے ہجر ت کی تھی تو ان کے ذہن میں یہی بات تھی پاکستان ایک مسجد کے مانند ہے اور وہاں جا کر ہمیں پانچوں وقت کی نماز پڑھنا ہو گی بلکہ میری والدہ بتایا کرتی تھیں کہ جب ہم ہندوستان سے پاکستان کے لیے چلے تھے تو وہاں پاکستان کے بارے میں اس قسم کی باتیں سنتے تھے خالص اسلامی ملک ہے وہاں پر نماز اوقات میں خواتین گھروں میں نماز کی تاکید کرنے لیے آتی ہیں لیکن بقول علامہ اقبال کے ۔۔۔مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے ،،،،من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں سے نمازی بن نہ سکا ۔

عام لوگ نماز کے لیے کیسے راغب ہو ں گے جب ہمارے سرکاری ایوانوں میں نماز کے اوقات میں وقفہ ہو ہمارے صدر اور وزیر اعظم خود امامت کرتے ہوئے نظر آئیں ۔اسی طرح ہر سرکاری دفاتر اور پرائیویٹ اداروں میں ان دفاتر اور اداروں کے سربراہ خود نماز کی امامت کریں ۔کیا پوری دنیا نے سعودی عرب کا یہ منظر نہیں دیکھا کے نئے سربراہ شہزادہ سلمان امریکی صدر اوبامہ اور ان کی اہلیہ کو چھوڑ کر نماز مغرب کی جماعت میں شامل ہو گئے اور نماز کے دوران ابامہ اپنی بیگم کے ساتھ تنہا کھڑے رہے ۔ذرا سوچئے۔۔۔کہ اگر ہمارے ملک میں امریکی صدر آتے اور دوران ملاقات نماز کا وقت ہوتا تو کیا ہمارے حکمراں امریکی صدر کو چھوڑ کر نماز میں شریک ہوتے ،بلکہ کبھی ایسا مرحلہ آیا تو وہ نماز چھوڑ دیں گے لیکن اپنے آقاؤں کو نہیں چھوڑیں گے ۔اب سعودی عرب کے عام باشندے کیوں نہ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھیں اس لیے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کے طاقتور ملک کے سربراہ کو چھوڑکر ہمارے ملک کا سربراہ اس کائنات کے رب کے سامنے جھکنے کے لیے چلا گیا ۔

بہرحال ہم وزیر مذہبی امور کے جذبے کی تعریف کرتے ہیں ان کے اخلاص کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اس نئے نظام کی قباحتوں پر بھی غور و فکر کرنا ہو گا ۔جب تک عام لوگ نماز کے پابند نہیں ہوں گے ہماری مسجدیں خالی رہیں گی جب یہ معاملہ اوپر سے نیچے کی طرف آئے گا توزیادہ موثر ہوگا ۔پورے ملک میں تو یہ نظام نافذ نہیں ہو سکتا کہ ہر جگہ کے طلوع و غروب آفتاب کے اوقات مختلف ہوتے ہیں شہروں میں یہ نظام نافذ ہو سکتا ہے لیکن ہمارے یہاں مختلف مسالک کے لوگ رہتے ہیں جن کے نظام الاوقات الگ الگ ہوتے ہیں ۔مختلف اوقات میں نماز و جماعت کے کچھ فوائد بھی ہیں کہ نماز ظہر کا وقت مختلف مساجد میں ایک بجے سے شروع ہو کر دو سوا دو بجے تک ہوتا ہے اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ کسی کو کوئی کام ہے تو وہ سوا بجے والی نماز پڑھ سکتا ہے اپنی سہولت سے ڈیڑھ بجے والی پڑھ لیتا ہے اگر کسی مصروفیت سے اس کی یہ نمازیں نکل گئیں ہوں تو وہ پونے دو والی یا دوبجے والی نماز پڑھ سکتا ہے اسی طرح سوائے نماز مغرب کے اور نمازوں میں الگ الگ جماعت کا وقت ہونے کی وجہ سے جماعت سے نماز پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔جیسے کہ ہمارے اہلحدیث مسلک کی مساجد میں عشاء کی نماز دیر سے ہوتی ہے اب اگر کسی کی اپنی مسجد میں جماعت نکل جاتی ہے تو وہ دیر والی نماز جماعت سے پڑھ سکتا ہے ۔

جمعہ و عیدین کی نماز کا یکساں وقت کرنے سے عام نمازیوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی ۔جمعہ کی نماز کے مختلف اوقات کی وجہ سے عام لوگوں کو نماز کی ادائیگی میں سہولت مل جاتی ہے اسی طرح کا معاملہ عیدین کی نمازوں کا ہے ۔عید کی تیاری میں لوگوں کو عموماَ دیر سویر ہو جاتی ہے اس لیے مختلف عید گاہوں میں مختلف اوقات میں نماز عید ہونے کی وجہ سے تمام لوگوں کے لیے عید کی نماز میں ادائیگی آسان ہو جاتی ہے۔ایک بات یہ بھی سننے میں آرہی ہے کہ حکومت کی طرف سے جمعہ کا خطبہ یا جمعہ کی تقریر خطیب حضرات کو دی جائے گی ۔یہ زیادہ خطرناک بات ہو گی ۔پاکستان میں مختلف مسالک کے لوگ رہتے ہیں اس لیے حکومت کس مسلک کی تقریر لکھ کر دیا کرے گی ۔البتہ یہ بات ہو سکتی ہے کہ جمعہ کی تقاریر مے حوالے سے کچھ نکات رہنمائی کے لیے دیے جا سکتے ہیں کہ خطباء حضرات قران و حدیث کی روشنی میں اپنی تقاریر کے نکات تیار کریں اور کسی مخالف مسلک پر متشددانہ اور نفرت آمیز گفتگو نہ کریں جس سے امن امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔اس کے ساتھ ہی یہ پابندی بھی ہو کہ لاؤڈاسپیکر کی آواز اتنی تیز اور بلند نہ ہو کہ قریب کی مساجد کے نمازیوں کو ادائیگی نماز میں پریشانی ہو ۔ویسے کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہیں کہ ہماری مسجد کمیٹی سے وابستہ لوگ اس کا خیال رکھیں تو بہتر ہے پہلی بات یہ کہ قریب کی مساجد کے لوگ آپس میں مشاورت کر کے نمازوں کے اوقات کی ترتیب میں اتنا فرق رکھیں کہ اگر کسی کی جماعت ایک مسجد میں فوت ہو جائے تو دوسری مسجد میں اس کوجماعت مل جائے ۔اسی طرح ہر مسجد کے گیٹ پر اس مسجد میں نماز کے اوقات نمایاں طور پر لگائے جائیں تاکہ پیدل چلنے یا بائیک سوار وہاں سے گزررہا ہے ور نماز کا وقت اگر مسجد کے صدر دروازے پر ہی دیکھ لے تو اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ یہاں اسی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھے یا آگے جا کر پڑھے ۔اور اگر ممکن ہو تو مسجد کے باہر نمایاں طور پر اور مضبوط اور محفوظ انداز میں بڑی سی گھڑی لگی ہو ۔

ایک حدیث کے مطابق جماعت کی نماز کا ثواب انفرادی نماز کے مقابلے میں ستائیس گنا زیادہ ہے ۔ایک مسجد میں ایک عالم تقریر کررہے تھے کہ جماعت سے نماز کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر امام کی نماز قبول ہو گئی تو تما م مقتدیوں کی نمازیں قبول ہو جائیں گی ۔اگر بالفرض امام کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی تو مقتدیوں میں سے اگر کسی کی بھی نماز قبول ہو گی تو اس کے طفیل امام سمیت تمام لوگوں کی نمازیں اﷲ قبول فرمالے گا تیسری بات یہ کہ اگر امام سمیت کسی مقتدی کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی تو اﷲ تعالیٰ جماعت کی برکت سے تمام مقتدیوں کی نمازیں قبول فرما لے گا ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.