شطرنج کے ایک ماہر کی انوکھی فرمائش : بساط بھر چاول!

کہانی کچھ یوں ہے کہ کسی ملک کا بادشاہ خود کوشطرنج کا بہت بڑا ماہر سمجھتا تھا۔ اسے زعم تھا کہ شطرنج کے کھیل میں کوئی اسے نہیں ہرا سکتا۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اس کی سرحدوں پر اپنی فوج لا کر کھڑی کر دی۔ پڑوسی ملک بہت طاقتور تھا اور اس کی فوج بھی بہت زیادہ تھی۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے، دوسرے ملک کے بادشاہ نے اپنے ایلچی کے ہاتھ اس بادشاہ کو پیغام بھیجا، اگر وہ شطرنج کے کھیل میں اسے شکست دینے میں کامیاب ہو گیا، تو وہ اپنی فوجیں واپس لے جائے اور دوبارہ کبھی حملہ نہ کرے،لیکن اگر وہ ہار گیا تو پھر اسے اپنی ساری سلطنت، پڑوسی بادشاہ کے حوالے کرنا ہو گی۔ خون خرابے سے بچنے کے لیے حملہ آور بادشاہ نے شرط منظور کر لی۔ایک بڑے ہال نما کمرے میں، جس کے فرش پر شطرنج کی بساط کے خانے بنے ہوئے تھے (جن میں مہروں کی جگہ غلام کھڑے کیے جاتے کھیل شروع ہوا۔ حملہ آور بادشاہ اور اس کے مشیر بھی شطرنج میں زبردست ماہر تھے۔ ان کے مقابلے میں شطرنج میں مہارت کا دعویٰ رکھنے والے بادشاہ سلامت کمزور پڑنے لگے۔ ایک ایک کر کے ان کے غلام (یعنی مہرے) پٹتے گئے۔ یہ دیکھ کر ان کے ہوش جاتے رہے وہ اپنے وزیروں مشیروں سے مشورے مانگنے لگے، لیکن پوری سلطنت میں سب سے زیادہ شطرنج تو بادشاہ سلامت ہی کو آتی تھی۔ دوسروں کے مشوروں پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بازی اور بھی زیادہ ہاتھ سے نکلنے لگی۔ بادشاہ کا گھمنڈ ٹوٹ گیا۔اسی موقع پر ایک وزیر نے آ کر باد شاہ کے کان میں کہا ’’حضور! باہر ایک فقیر کھڑا ہے۔ کہتا ہے کہ وہ آپ کی شکست کو فتح میں بدل سکتا ہے۔ اسے یہاں آنے کی اجازت دی جائے یا نہیں؟‘‘ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ کچھ ہی دیر بعد میلے کچیلے کپڑوں والا ایک فقیر بادشاہ کے سامنے تھا۔ اس نے بادشاہ سے وعدہ لیا کہ وہ صرف وہی چال چلے گا، جسے چلنے کا مشورہ فقیر دے گا۔ یعنی وہ شطرنج کے کھیل سے عملاً دستبردار ہو جائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پانسہ پلٹ گیا۔ فقیر نے ایسی ایسی چالیں بتائیں کہ بادشاہ کو شطرنج میں مہارت کا اپنا دعویٰ غلط معلوم ہونے لگا۔ حملہ آور بادشاہ کے مہرے ایک ایک کر کے پٹتے چلے گئے، یہاں تک کہ اسے ’’شہ مات‘‘ ہو گئی… اس طرح حملہ آور بادشاہ اپنے لائو لشکر سمیت واپس چلا گیا۔ پورے ملک میں خوشی کے شادیانے بجائے جانے لگے۔ فقیر نے بادشاہ سلامت سے رخصت چاہی تو بادشاہ نے کہا ’’نہیں! ہم تمھیںایسے جانے نہیں دیں گے۔ تم نے ہماری سلطنت بچائی ہے۔ اس لیے تمھیں منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ بولو! تمھیں کیا چاہیے؟‘‘ اس پر فقیر نے کہا: ’’گستاخی معاف جہاں پناہ! لیکن جو کچھ مجھے چاہیے، آپ کا خزانہ وہ دینے کے قابل نہیں۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ آگ بگولا ہو گیا کہ ایک فقیر میں اتنی ہمت کیسے آ گئی کہ وہ شاہی خزانے کو بے حیثیت کہے… اس نے فقیر کو حکم دیا کہ وہ اپنی فرمائش بیان کرے ورنہ اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ یہ سن کر فقیر کہنے لگا: ’’جناب! میری فرمائش تو صرف اتنی سی ہے کہ آپ مجھے بساط بھر چاول اس طرح سے عطا فرمائیے کہ (شطرنج کی) بساط کے ہرخانے میں پچھلے خانے سے دو گنی تعداد میں چاول ہوں اور بس۔‘‘یہ عجیب و غریب فرمائش سن کر بادشاہ اور اس کے درباریوں نے ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ لیے، مگر فقیر کی سنجیدگی میں فرق نہیں آیا۔ جب یہ لوگ اچھی طرح سے فقیر کا مذاق اڑا چکے تو شاہی خزانے کے نگراں کو حکم دیا گیا کہ وہ فقیر کو سرکاری غلہ گودام میں لے جائے اور اس کی فرمائش پوری کر دے،لیکن وہی ہوا جیسا فقیر نے کہا۔ غلہ گودام میں رکھے ہوئے چاولوں کی ساری بوریاں خالی ہو گئیں لیکن فقیر کے مانگے ہوئے ’’بساط بھر چاول‘‘ پورے نہ ہو سکے۔ بادشاہ کو جب یہ خبر ہوئی تو اس نے فوراً فقیر کو بلوا بھیجا اور ماجرا دریافت کیا۔ اس پر فقیر نے کہا: ’’انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی بساط سے بڑھ کر خدائی دعوے نہ کرے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دربار سے چلا گیا اور پھر کبھی دکھائی نہیں دیا۔

کہانی تو یہاں آ کر ختم ہو گئی، لیکن بچپن میں یہ کہانی اس لیے ہماری سمجھ میں نہیں آ سکی کیونکہ ہمیں اس میں پوشیدہ ریاضی سے واقفیت نہ تھی۔ اب ذرا حساب لگائیے کہ شطرنج کی بساط پر فقیر کی فرمائش کے مطابق کتنے چاول آئے ہوں گے۔یاد رہے کہ شطرنج میں64خانے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہر خانے میں چاول کے دانوں کی تعداد اور مختلف خانوں میں رکھے گئے چاولوں کی تعداد کا مجموعہ کچھ اس طرح سے معلوم کیا جا سکتا ہے: خانہ نمبر خانے میں چاولوں کی تعداد دانوں کی مجموعی تعداد پہلے آٹھ خانوں کی ترتیب سامنے رکھیں تو ایک فارمولا اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اگرخانے کا نمبر Nہو تو اس خانے میں چاول کے دانوں کی تعداد-1 2nہو گی، جب کہ پہلے خانے سے اس خانے تک میں(جسے ہم nواں خانہ بھی کہہ سکتے ہیں) چاول کے دانوں کی مجموعی تعداد-1 2nہو گی۔اب چونکہ شطرنج کی بساط میں 64 خانے ہوتے ہیں، لہٰذا 64ویں خانے (64=n) تک پہنچتے پہنچتے، بساط پر چاول کے دانوں کی مجموعی تعداد یہ ہو گی:264-1 قوت نما (Power) کے استعمال نے اس تعداد کو ظاہری طور پر بہت مختصر کر دیا، لیکن درحقیقت یہ عدد بہت بڑا ہے۔ البتہ اپنے کام کو آسان بنانے (اور چالوں کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے لیے ہم اس عدد کو چھوٹے اعداد میں توڑ کر آپس میں ضرب دے سکتے ہیں۔ کچھ اس طرح: 264=28x28x28x28x28x28x28x28x28 چونکہ 28کا حاصل 256ہوتا ہے، لہٰذا: 256x256x256x256x256x256x256x256 اس حساب کا حاصل ضرب یہ ہے: 18,446,744,073,709,551,616 لیکن یہ تو صرف تعداد ہے۔ اگر ہم یہ معلوم کرنا چاہیں کہ اتنے چاولوں کا وزن کتنا ہوگا تو ہمیں یہ بھی پتا ہونا چاہیے کہ چاول کے ایک دانے کا اوسط وزن کتنا ہوتا ہے۔ اب تک کی کھوج سے معلوم ہوا ہے کہ چاول کے ایک دانے کا اوسط وزن 30ملی گرام ہوتا ہے۔ لہٰذا اوپر دی گئی تعداد کو30 سے ضرب دینے پر ہمیں ان چاولوں کا وزن (ملی گرام میں) حاصل ہو جائے گا، جو یہ ہو گا: 553,402,322,211,286,548,480۔ اس وزن کو گرام میں لانے کے لیے1000 سے تقسیم کیجیے کیونکہ ایک ملی گرام دراصل ایک گرام کا ہزارواں حصہ ہے۔ لہٰذا چاولوں کا وزن (گراموں میں) یہ ہو گا: 553,402,322,211,286,548,48 ہمارا کام اب بھی پورا نہیں ہوا، بلکہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ چاولوں کی کتنے کلو گرام مقدار ہے۔ لہٰذا اوپر حاصل ہونے والے عدد کو ہم ایک بار پھر 1000سے تقسیم کریں گے کیونکہ ’’کلوگرام‘‘ کا مطلب ہے ایک کلوگرام۔ یہ مقدار ہو گی: 553,402,322,211,286.54848 لیکن آج کل زرعی اجناس کی پیداوار کے لیے جو پیمانہ رائج ہے، وہ ’’میٹرک ٹن‘‘ کہلاتا اور1000کلوگرام کے برابر ہوتا ہے۔ لہٰذا میٹر ٹنوں میں ان چاولوں کا وزن یہ ہو گا: 553,402,322,211.286548480 ابتداء میں ہم نے جو فارمولا معلوم کیا تھا،اس کے مطابق بساط پر چاولوں کی مجموعی تعداد264-1ہے۔ اب چونکہ 30ملی گرام کا مطلب 0.00000003 ٹن ہوتا ہے۔ لہٰذا اوپر حاصل کردہ وزن میں سے یہ ننھی منی مقدار بھی نفی کر دیں گے، تو بساط بھر چاولوں کا تخمینی وزن (میٹرک ٹنوں میں) یہ ہو گا: 553,402,322,211.28654845 یعنی یہ وزن ساڑھے پانچ کھرب ٹن سے بھی زیادہ ہے! اتنے چاول تو ساری دنیا کے کسان مل کر بھی نہیں اگا سکتے۔ بھلا بادشاہ کے خزانے کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہے۔ (ماخوذ ’’ گلوبل سائنس‘‘ کراچی)
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 256830 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More