لس کا گلاب مہکتا رہے اور خوشبُو بکھیرتا رہے

گلاب ایک پھول ہے اور ہمارے معاشرے میں اسکی جو اہمعیت ہے اس سے کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا ، ماضی میں بڑے بڑے بادشاہوں کے باغات کی زینت یہ پھول رہاتو وہیں اپنی خوشبو سے انکے لباس اور محلات کو معتر بھی کرتا رہاہے۔ گلاب جو اپنی موجودگی کا احساس اپنی خُوشبو سے دلاتا ہے تو وہیں کوئی باذوق انسان اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کسی پیارے کی طرف بڑھائے تو اسکی کھل کھلاہٹ دیکھ کر فورا اسے تھام لیتا ہے۔ ویلنٹائین ڈے اور دیگر ایسے مواقع پر اپنے دوستوں کے خوب کام آتا ہے۔ اپنی جوانی کے دن کسی کے لیئے اسکے محبوب کی کتابوں میں گزار کر وہیں دفن ہوکر فنا ہوجاتا ہے۔اکثر خوشی کے موقع پر نظر آتا ہے، شادی کے موقع پر تو دولہے میاں کی گاڑی سے چمٹ جاتا ہےیا اسکے گل میں لٹک کر دل کی دھڑکنیں سننے لگتا ہے ۔ ایسا ہی اہم شخصیات کے ساتھ کرتا ہے انکودلوں کے راز بھی خُوب جاننے کی کو شش کرتا ہے لیکن ہوتا بڑا رازداں ہے یہ راز کبھی افشاں نہیں کرتا اسی لیئے تو گلاب تو گلاب ہے شادی کی یا کوئی خوشی کی تقریب ہو ، سیاسی قائد یا اہم شخصیات کی آمد ہو ، حج پر روانگی ہو یا کوئی اور ایسا موقع اس میں ہمیں گلاب ضرور نظر آتا ہے اور اس سے بھرپور استفادہ اُٹھایا جاتا ہے ۔ یہ سب اس گلاب کی اہمعیت ہے لیکن پھر اس مواقع پر اس گلاب کا جو حشر کیا جاتا ہےوہ بھی ہمارے سامنے ہے سب سے پہلے اس کھل کھلاتے پھول کو اسکے تنے کے ساتھ سے جدا کیا جاتا ہے پھر اسے پنکڑی پنکڑی کیا جاتا ہے ان پنکڑیوں کو ہوا میں اچھالا جاتا ہے اور جب زمین پر گر جائیں تو اسے پیروں تلے روندھا جاتا ہے یوں ایک خوبصورت پھول جسکی سب کے سامنے اہمعیت ہوتی ہے پنکڑی پنکڑی بنا کر روندھ دیا جاتا ہے۔ ہم گلاب کو پسند کرتے ہیں اسکی اہمعیت کو سمجھتے ہیں جانتے ہیں اور اسے تنے کے ساتھ کھل کھلا تا دیکھ کر پسند بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی اسے فنا کردیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ گلاب تنے کے ساتھ ہی اچھا لگتا ہے اسے پنکڑی پنکڑی کرنے سے وہ پھول نہیں رہے گا ۔پھر بھی ہم یہ ظلم کرتے ہیں ۔ یہی آج ہم اپنےلسبیلہ کا کررہے ہیں اسکی اہمعیت وافادیت کو ہم تسلیم کرتے ہیں اسکے تابناک مستقبل اور مستقبل کی اہمعیت سے بھی ہم آگاہ ہیں ۔ اس وقت لسبیلہ سب کی نظروں کا محور ومرکز ہے اس سے بھی ہمیں انکار نہیں کرتے۔ لسبیلہ محبتوں کی سرزمین ہے یہاں کے لوگ مہرومحبت سے پیش آنے والے اور باہمی اتحاد ویکجہتی کی پہچان قائم رکھنے والے ہیں ۔ امن پسندی اور امن ہماری پہچان ہےاس کا بھی ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اس وقت ملک کے کونے کونے سے مختلف مذاجوں ، سوچوں اور رویوں کے لوگ اکر لسبیلہ میں راہئش پذیر ہوئے ہیں جسکی وجہ سے لسبیلہ کا امن و سکون آہستہ آہستہ تباہ ہورہا ہے اور لسبیلہ کے نوجوانوں کی سوچوں اور مذاجوں میں بھی فرق آرہا ہے۔ ہم اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ اس وقت لسبیلہ جن حالات سے گزر رہا ہے ان حالات میں ہمیں باہمی اتحاد ویکجہتی کے لیئے مقامی قبائل کے وسیع تر اتحاد کےلیئے ہر قدم سوچ سمجھ کر اُٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہماری چھوٹے چھوٹے مسائل پر مورچہ بندیاں بہت بڑے سانحات کا سبب بن چکی ہے ۔ لسبیلہ کے مقامی قبائل کے ایک فرد کی غلطی بھی بہت بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ جب جام یوسف خان جلا وطن ہوئے اور بیلہ کے حالات بگھڑنا شروع ہوئے تو اس وقت سے میں اس بات کی نشاندہی کرتا آرہا ہوں کہ لسبیلہ اب کسی غیر سنجیدہ اقدام کا متمل نہیں ہوسکتا لیکن آپ نے دیکھا کہ اس کے باوجود بہت سے واقعات ایسے ہوئے جس میں ہمیشہ لسبیلہ خصوصا بیلہ میں کشیدگی کی فضا قائم ہوئی ۔ آج پھر ایسے ہی حالات سےبیلہ دو چار ہے اور کس رُخ پر جاتا ہے کچھ کہا نہیں جاتا ۔ بیلہ کے اندر ایک مخصوص سازش کے تحت نوجوانوں کو اشتعال دیا جاتا ہے نوجوانوں کو مشتعل کیا جاتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ بیلہ میں پولیس بالکل ناکام ہے چوریاں روز کا معمول ہے ۔ منشیات اور اسلحہ ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ آج ہماری غلطیاں ان قوتوں کو راستہ دے رہی ہیں جو یہاں کا امن تباہ کرنے کے لیئے مواقع ڈھونڈ رہی ہیں ۔ آپ کو میری اس بات سے اتفاق ہو یا نا ہو لیکن سچ یہ ہے کہ حالیہ بیلہ میں پیش آنے والے واقعہ کا رزلٹ کسی صورت اچھا نہیں نکلا ان قوتوں کو موقع ملا جو قوتیں راستہ ڈھونڈ رہی تھیں انتظامیہ اور پولیس کی معمولی غلطی نے بیلہ کو ایک مرتبہ پھر کشیدگی کی طرف دھکیل دیا پہلے بھی ایک ایسا واقع ہوا ۔ کل ایک دوست کا میسج آیا کہ بیلہ میں پانی بہت اُوپر آگیا ہے میں نے کہا آیا نہیں لایا گیا ہے ۔ ایک معروف اسکالر کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص اشتعال انگیز بات تو عام طور پر سننے والا غصہ ہوجاتا ہے۔وہ جوابی اشتعال کے زریعے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔مگر یہ طریقہ آگ کو آگ سے بجھانے کے ہم معنی ہے۔صیح طریقہ یہ ہے کہ اس آگ کو پانی کے زریعے بجھا یا جائے۔غصہ کا جواب صبر وتحمل کے زریعے دینے کی کوشش کی جائے۔ تحمل صرف ایک اخلاقی صفت نہیں اس سے بڑھ کر ایک طاقت ور تدبیر ہے۔ اگر ہماری انتظامیہ اس واقع کی اطلاع کے بعد زرا برابر بھی اس قول کی ایک چھوٹی سی بات کو بھی دیکھ لیتی تو یہ بدنما داغ بیلہ کی عظیم روایات پر نہ آتا وہ تمام طبقات جو اس سرزمین پر رہ رہے ہیں وہ سب نفرتوں ، کدورتوں اور تفریق کے بجھائے امن محبت اور سچے دل کے ساتھ سیاست مذہب رنگ نسل ذات پات سے صرف اس سرزمین کے ایک شہری کی حیثیت سے سوچیں اور دھرتی کی بقا کے لیئے امن کی بقاء کے لیئے اپنی بقاء کے لیئے کردار ادا کریں تاکہ وہ گلاب جسکی اہمعیت سے ہم آگاہ ہیں پنکڑی پنکڑی نہ ہواور یوں ہی لس کا گلاب مہکتا رہے اور خوشبُو بکھیرتا رہے۔
Asim Kazim Roonjho
About the Author: Asim Kazim Roonjho Read More Articles by Asim Kazim Roonjho: 17 Articles with 13661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.