برقع اور حجاب

اسلام نے عورت کو سب سے پہلے عزت دی اور معاشرے میں اسے فخروعزت کا باعث بنایا۔ مسلمان عورتوں کو دوسروں کی نگاہوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جو نشانی دی گئی اسلام اسے حجاب کہتا ہے۔ پہلے پہل حجاب کے طور پر بڑی چادر کا استعمال شروع ہوا جو بعد میں برقع کی شکل اختیار کر گیا۔ اب اس روایت میں کافی حد تک تبدیلی آ چکی ہے اور یہ جدید گائون اور اسکارف میں تبدیل ہو گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ آج کل گائون کا رواج قدرے کم ہو رہا ہے۔ جب کہ اسکارف کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تعلیم یافتہ خواتین کی اکثریت اسکارف پسند کرتی ہیں۔ بہت سی ورکنگ وویمن اور یونیورسٹیوں اور کالجز کی لڑکیاں ماڈرن بننے کی دوڑ کے باوجود اپنے مذہب سے لگائو کے باعث اسکارف یا حجاب اوڑھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اسکارف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دوپٹے کے ساتھ حجاب کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم قرآن و سنت کو اپنی زندگی سے الگ نہیں کر سکتے۔ عورتوں کے لیے حجاب حکم الٰہی ہے اور قرآن پاک میں کئی مقامات پر عورتوں کو حجاب کی تلقین کی گئی ہے۔ گائوں میں عام طور پر وہ خواتین اسکارف یا عبایا کا استعمال کرتی ہیں جو کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ 1980ء کی دہائی میں پاکستانیوں کا سعودی ممالک میں کام کرنے کے لیے جانے کا کافی رجحان تھا اور وہ سعودی کلچر سے قدرے مرعوب بھی تھے، یوں ایسے مرد حضرات جو وہاں رہ کر آتے، وہ اپنی بیویوں کو وہاں کا عبایا ضرور پہناتے۔ یوں وہ عورتیں بطور نشان امارت کے عبایا استعمال کرتیں۔ اسی طرح نوبیاہتا خواتین میں بھی اسکارف اور عبایا پہننے کا رجحان زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ بہت سی لڑکیاں بطور فیشن اسکارف کا استعمال کرتی ہیں۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ یہ معاشرتی طور پر انھیں تحفظ کا احساس دلاتا ہے اور آتے جاتے پڑنے والی نامناسب اور میلی نگاہوں سے ان کو محفوظ رکھتا ہے۔ ان کی یہ بات بڑی حد تک درست ہے۔ عام زندگی میں بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ دفاتر میں کام کرنے والی لڑکیاں ہوں یا بڑے اداروں میں خدمات سر انجام دینے والی خواتین، اسکارف ، عبایا یا خوبصورتی سے لی گئی چادر ان کی عزت اور احترام بڑھانے کا بھی باعث بنتی ہیں اور دیکھنے، ملنے والوں کی نگاہوں میں ان کے لیے ایک خاص مقام ہوتا ہے۔ اسکارف پہننے والی لڑکیوں کی شخصیت کو بھی ایک وقار کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ خاندانوں میں مذہبی رجحان زیادہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں پر دبائو ہوتا ہے کہ وہ ہر صورت میں حجاب کریں۔ لیکن سروے کے مطابق زیادہ تر لڑکیوں کا ماننا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے حجاب لیتی ہیں۔ سر پر اسکارف لینے سے انھیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ ایک لڑکی کا کہنا ہے کہ اس نے حجاب لینا اس لیے شروع کیا کہ جب وہ اسکارف پہن کر گھر سے نکلتی ہے تو دکاندار سے لے کر بس والے تک اور کلرک سے لے کر بزنس مین تک انھیں کام کی حد تک دیکھتے ہیں اور بامقصد بات کرتے ہیں۔ یوں وہ کسی حد تک مردوں کے ستانے سے بچ پاتی ہیں۔ اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ مخلوط تعلیم والے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے اسکارف لینے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے اداروں میں جہاں لڑکے، لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں، لڑکیوں کا کہنا ہے کہ اسکارف یا مکمل حجاب لینے سے وہ زیادہ بااعتماد انداز میں اپنی کلاس پڑھ پاتی ہیں اور انھیں بار بار اپنے بال سنوارنے یا کپڑے درست کرنے کی فکر نہیں ہوتی۔ اس طرح وہ پوری دلجمعی کے ساتھ ٹیچر کو سننے اور نوٹ کرنے میں وقت دے پاتی ہیں۔ بہت سی طالبات کا کہنا ہے کہ فیملی کی طرف سے کسی بھی قسم کا کوئی دبائو نہیں ہے، میں اپنی مرضی سے اسکارف لیتی ہوں، اس سے میں اپنے آپ کو پر اعتماد اور محفوظ محسوس کرتی ہوں اور یہ دلی خوشی میرے ساتھ ہوتی ہے کہ میں نے اپنے رب رحمان کی مرضی اور حکم کو خوشی سے مانا ہے۔ اسکارف لینا اگرچہ ایمان پر عمل کا نام ہے، یہ صرف کپڑے کا ٹکڑا ہی نہیں بلکہ صحیح نسوانیت کی عکاسی کرتا ہے۔ عورتوں کے کردار کو ہر جگہ ان کے عمل کے بجائے ان کے ظاہری لباس کی کسوٹی پر زیادہ پرکھا جاتا ہے۔ کردار کی پختگی مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ضروری ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اپنے معاشرے کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر مسلمان بھی اسلام کا سفیر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کا لباس، طرز زندگی، لہجہ غرض ہر عمل صرف اس شخص تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ پوری امت مسلمہ کا انداز کہلاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اسکارف یا حجاب پاکیزگی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب ایک عورت اسکارف یا حجاب اوڑھتی ہے تو معاشرہ بھی اس سے چند توقعات وابستہ کر لیتا ہے۔ اسے کردار کے اعلیٰ درجوں پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ حجاب اوڑھنے والی ایک یونیورسٹی طالبہ کا کہنا ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ حجاب اوڑھنے والی لڑکیاں زیادہ سوشل نہ ہوں، لوگوں سے زیادہ بات چیت نہ کریں، یونیورسٹی میں کسی مخلوط گانے بجانے کی محفل میں شرکت نہ کریں۔ وہ ہم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم فوق البشرSuper Human)) بن جائیں۔ اسی طرح ایک اور لڑکی کا کہنا ہے حجاب لینے کے بعد مجھے کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا، البتہ لوگوں کی نظر میں اپنے لیے عزت ضرور محسوس ہوتی ہے اور اگر معاشرہ ہم سے اچھی توقعات رکھتا ہے تو میرے خیال میں یہ ایک مثبت چیز ہے۔ میرے خیال میں اگر ہم اپنے مذہب کی نمائندگی کر رہے ہیں تو پوری طرح سے کرنا چاہیے اور اپنے لباس، اخلاق اور عادات کو ویسا ہی بنانا، اس صورت میں قطعی مشکل کام نہیں، جب ہماری تربیت ہی ویسی ہوئی ہو۔ ہر چیز کے مثبت و منفی پہلو ہوتے ہیں۔ کوئی بھی قانون بنایا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں تین طرح کے لوگ سامنے آتے ہیں۔ ایک اس کو ماننے والے، دوسرے اس کے مخالف اور تیسرے وہ لوگ جو درمیانی راستہ نکالتے ہیں۔ بالکل اسی طرح مسلم معاشرہ میں کچھ خواتین مکمل حجاب کرتی ہیں۔ کچھ نہیں کرتیں ان میں ایک تیسری قسم بھی ہوتی ہے، وہ اسکارف یا برقع فیشن کے طور پر یا اپنی اصلیت چھپانے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ کہیں کہیں کچھ خواتین اور لڑکیاں حجاب کے پس پردہ ایسے کام کرتی ہیں، جس سے درست حجاب لینے والی بھی مشکل کا شکار ہو جاتی ہیں۔ عام لوگوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ اسکارف یا حجاب پہننے والی خواتین کو کیسا سمجھتے ہیں تو ایک دکاندار کا کہنا تھا جو عورتیں اسکارف لیتی ہیں یا مکمل حجاب کرتی ہیں، ہم ان کو عزت سے ہی دیکھتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہیں جو حجاب کا غلط استعمال کر تے ہیں جیسا کہ اگر آپ مارکیٹ وغیرہ میں چوری کرنے والی خواتین دیکھیں تو وہ عموماً برقع وغیرہ میں ہوتی ہیں۔ ہم ان پر اعتبار کرتے ہیں لیکن اس طرح چوری کر کے وہ نہ صرف اپنی عزت بلکہ وہ حجاب کا بھی نام خراب کرتی ہیں۔ کالج یونیورسٹی کی لڑکیاں بھی اپنی شناخت چھپانے کے لیے حجاب، اسکارف کا استعمال کرتی ہیں کہ وہ اگر کسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کا حصہ بنتی بھی ہیں تو کسی حد تک اس کو ظاہر نہیں کرتیں۔ اس وجہ سے پردہ کرنے والی سب خواتین کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انھیں بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حجاب جیسے ایک پاکیزہ اور مذہبی فریضہ کو دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرنا بالکل بھی مناسب نہیں۔ ایک مسلمان عورت حجاب، اسکارف اس لیے اوڑھتی ہے کہ یہ حکم الہیٰ ہے اور حضورﷺنے اس کی ہدایت فرمائی ہے اور یقینا عورتوں کا سر کو ڈھانپنا پاکیزگی، حیا داری، راست روی اور ایمان کی علامت ہے۔ اگر کوئی لڑکی یا خاتون اسکارف یا مکمل حجاب لے رہی ہے تو اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ جس دین اسلام کی نمائندگی کر رہی ہے اس پر خود بھی عمل پیرا ہو اور ایسی کسی بھی سرگرمی کا حصہ نہ بنے، جس سے لوگ اس پاکیزہ چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔ ٭…٭…٭
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 257205 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More