امن کی خواہش

اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں سرسری سی اس پر بات کر لیتے ہیں کہ امن ہے کیا؟

امن کی کوئی خاص تعریف نہیں ہے۔ امن ایسی حالت کو ہم کہ سکتے ہیں جس میں کوئی خوف اور خطرے کا احساس نہ ہو۔ اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو ریاستوں کے درمیان جنگ یا کسی قسم کی کشمکش کا نہ ہونا امن کہلاتا ہے۔ اقوام متحدہ بھی امن کی تعریف سے مراد جنگ یا کسی قسم کی کشمکش کا خاتمہ یا غیر موجودگی ہی لیتا ہے۔

موجودہ حالات میں امن بہت ہی زیادہ دیکھی اور کی جانے وال خواہش ہے۔ اس کے متعلق بہت سارے عالمی سطح کے علمی ماہرین اپنی اپنی امن کی تھیوریز پیش کرتے ہیں اور امن کو قاتم کرنے کی تدابیر بیان کرتے ہیں اور اسی طرح بہت ساری تنظیمیں دن رات امن کی بحالی کے لیے کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔

یوں تو ہر کوئی امن چاہتا ہے۔ کوئی اپنی ذات کے لیے امن چاہتا ہے تو کوئی اپنے خاندان اور قبیلے کے لیے تو کوئی اپنی قوم کے لیے اور چند ایک ایسے بھی ہیں جو انسانیت کے لیے امن چاہتے ہیں اور یہی تھوڑے سے لوگ ایسے ہیں جو صحیح معنوں میں امن چاہتے ہیں اور ان لوگوں کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ یا ادارے اپنے مفادات اورزاتی خواہشات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں ان کو یہ بات قطعا نہیں بھاتی اور وہ ان لوگوں کو راہ سے ہٹانے کے لیے حکمت عملی بھی بناتے رہتے ہیں مگر یہ امن کے داعی بھی اپنی نظریاتی فیڈریشن کے تصور کی ترویج میں دن رات کوشاں ہیں۔ اور ان کے نزدیک ایک ہی نسبت باقی سب نسبتوں پر حاوی ہے اور وہ ہے انسانیت کی نسبت۔ انسان خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو وہ دوسرے انسانوں کی طرف سے امن کا حق رکھتا ہے اور اس نظریہ پر کام کرنے والے انسان کہیں بھی رہتے ہیں اس نظریاتی فیڈریشن کا حصہ ہے۔

اب تو کرہ ارض پر رہنے والے انسان کچھ اس طرح سے ہجرت کے نتیجے میں آپس میں مل گھل چکے ہیں اور ہمارے تہذیب و تمدن اس طرح سے مکس ہوگئی ہیں کہ ان کو جدا کرنے کا کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا اور رہی سہی کسر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پوری کر دی ہے اور دنیا کے ایک کونے میں رہنے والے دوسرے کونے میں رہنے والوں کے ساتھ اس طرح رابطے میں ہے کہ ایک مضبوط معاشرے کی تصویر پیش کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر زندگی کا معمول ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ آزاد ریاستیں دوبارہ سے اتحاد کے بعد ایک یونٹ بنتی جارہی ہیں۔ مثلا یو اے ای، یو ایس اے، ای یو وغیرہ۔
اگر آپ اکیسویں صدی کی دنیا کو ماڈرن ٹیکنالوجی خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تناظر میں دیکھیں تو اس بات کی سمجھ آسانی سے آجاتی ہے کہ دنیااپنی انتظامی سرحدوں کی موجودگی کے باوجود بھی ایک کچھ اس طرح کا حال پیش کرتی ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں رہنے والا کو ئی انسان یہ نہیں کہ سکتا کہ اس کے کسی عمل یا سرگرمی کے باقی دنیا پر اثر ات نہیں ہیں بلکہ اس کے تمام ایسے عمل اور سرگرمیاں پوری دنیا کے رہنے والے انسانوں کے ایمان، تصورات اور نظریات کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ اس پر ایکشن یا ری ایکشن بھی دیکھنے میں سامنے آتا ہے۔ اس کی ہر آئے روز کے معمولات میں ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ حالیہ فرانس میں چارلی ایبڈو کے خاکوں کے بعد آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس نے کتنے انسانوں کے دل توڑے جن میں نہ صرف مسلمان بلکہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانوں نے بھی تنقید کی اور سختی سے مزمت کی۔ مجھے ایک انسانی حقوق کا کارکن ہونے کی حیثیت سے اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا کیا مقصد یا غرض و غائیت ہے بلکہ مجھے اس کے معاشرے اور انسانوں پر اثرات سے غرض ہے کہ اس سے تہذیبوں اور انسانوں کے اندر بہت بڑا خلا پیدا ہوتا ہے اورقدورتوں اور نفرتوں کو ہوا ملتی ہے اور انسان انسان سے دور ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا کا امن تباہ ہوتا ہے۔ اور اسی لیے ہم لوگ ایک انسانی اور محض انسانی رشتہ سے منسلک لوگ اس طرح کے واقعات سے تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اس طرح کی سرگرمیوں کو روکنے کے سدباب کے لیے عملی اقدامات کے لیے سفارشات پیش کرتے ہیں۔

اس واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے کئی ایک شعور رکھنے والی شخصیات ، اداروں اور حکومتوں نے یہ اعادہ کیا ہے کہ وہ اس طرح کے قوانین بنائیں گے کہ کسی بھی نظریہ یا مذہب کہ تضحیک نہ ہو جس میں روس نے بھی اس بات کا اعادہ کیا ہے۔ اسی طرح امن کے لیے سرگرم عمل شخصیات، اداروں اور ملکوں نے اقوام متحدہ پر اس بات کا زور دیا ہے کہ اس طرح کے قوانیں بنائے جانے چاہیں کے انسانوں کے مذاہب اور نظریات و عقائد کی تضحیک جیسی سرگرمیوں کا خاتم ممکن ہو سکے۔

یوں اس طرح اس موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو معاشرے یا ریاستوں کے اندر کشمکش کے انداز اور ایک دوسرے کو متاثر کرنے کے پیمانے بدلنے کے ساتھ ساتھ امن کی تعریف بھی ایک بہت ہی وسیع تصور رکھتی ہے اور ہم خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارا ہر انفرادی عمل بین الاقوامی اثرات بھی رکھتا ہے لہذا ہمیں سوچنا بین الاقوامی پڑے گا اب سوچوں کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے عمل کے ساتھ بھی بین الاقوامی مقصد اور سوچ کی ضرورت ہے۔

رائے اختلاف اپنی جگہ مگر دوسروں کے نظریات اور عقیدے کی توہین کی کوئی بھی تہذیب یا مذہب اجازت نہیں دیتا اور جو لوگ دوسروں کے عقائد اور نظریات کی تعظیم نہیں کرتے تاریخ نے کبھی بھی انکو اچھے نام سے یاد نہیں کیا۔ جلد یا بدیر انکو اپنی غلطی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ اختلاف رائے تو ہمیشہ بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ یہ اپنی اصلاحی جزبے والی خوبصورتی نہ کھوئے تو۔

آزادی اظہاررائے بھی ہر انسان کا حق ہے مگر اس کی خوبصورتی بھی اس کے ساتھ متعیں حدود و قیود کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور اگر حدود و قیود سے باہر آ کر کی جائے تو اسے صحافت نہیں بلکہ صحافت گردی کہا جائے گا اور اس کا امن کو خراب کرنے میں وہی کردار ہوگا جو ایک خود کش حملہ آور معصوم نہتے انسانوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اور اس کے جواز اور دلائل کے لیے اس خود کش حملہ آور کے پاس بھی بہت کچھ ہوتا ہے اور اس کی بھی ذہن سازی کی گئی ہوتی ہے ورنہ اپنی جان دینا اتنا آسان کام نہیں۔

اگر ہم امن کی خواہش کے ساتھ واقعی مخلص ہیں تو بہرحال ہمیں تمام مذاہب، زبان، علاقوں، قومیت، رنگ ونسل وغیرہ کے بنائے ہوئے اپنے ارد گرد حصار کو توڑ کر باہر نکلنا ہوگا ، کوئی اس کی ضرورت کو محسوس کرے یا نہ کرے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، او راگر ہم وقت کے تقاضے اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے دنیا کو جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا اپنی سرگرمیوں کا دوسروں پر اثرات کاشعور رکھتے ہیں تو ہمیں اس نظریاتی فیڈریشن کا حصہ بننا ہوگا جس کی بنیاد صرف اور صرف انسانیت ہے -

اچھے اعمال اور اچھی شہرت رکھنے والے اور برے اعمال اور بری شہرت رکھنے والے کبھی بھی ایک نہیں ہو سکتے اور کسی کے کہنے سے کبھی کسی کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ میں کہوں گا کہ جاہلوں کے ساتھ بحث کرنے کی بجائے انھیں سلام کرکے درگزر کر جانا چاہیے۔ اور یہی اہل علم کا شیوہ رہا ہے۔ جو دوسرے انسانوں کی خواہشوں کا احترام کرتے ہیں انہیں ہی دنیا میں حقیقی عزت و احترام کا مقام ملتا ہے۔ ہمیشہ انسانوں کی بھلائی کا جزبہ رکھتے ہوئے انسانی عظمت کے لیے بر سر عمل رہنا چاہیے۔ برداشت کو جو اپنا ہتھیار بنا لیتے ہیں کوئی بھی ان کی دلیری اور بہادری کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور جو غصہ کو پی جاتے ہیں کوئی عقل و فہم میں ان کو مات نہیں دے سکتا۔
 
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114722 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More