شاہ عبد اﷲ بن عبد العزیز السعود کی وفات

سعودی عرب کے چھٹے فرما نرواخادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ بن عبد لعزیز السعود طویل علالت کے بعد جمعرات اور جمعہ(۲۲ اور ۲۳ جنوری ۲۰۱۵ء) کی درمیانی شب ایک بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ۹۰ سال ۴ماہ اور ۲۳ دن دنیا میں گزار۔شاہ عبد اﷲ کی تدفین سعودی عرب کے دارالخلا فہ ریاض میں ان کے آبائی قبرستان ’العود‘ میں ہوئی۔ شاہ عبداﷲ یکم اگست ۱۹۲۴ء میں ریاض ہی میں پیدا ہوئے تھے ۔ نماز جنازہ و تدفین بروز جمعہ بعد نماز عصر عمل میں آئی ۔ شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ کئی اسلامی ممالک کے سربراہان جن میں پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف، مصر کے وزیر اعظم ابراہیم ملہب، سوڈان کے صدر عمر حسن االبشیر اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے علاوہ ایتھوپیا، خلیجی ریاستوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ شاہ عبداﷲ کئی سالوں سے بیمار چلے آرہے تھے۔ ان کی کمر کے مہرو ں کے کئی آپریشن ہوچکے تھے۔ پھیپھٹروں کی بیماری میں بھی مبتلا تھے۔ اب انہیں نمونیا بھی ہوگیا تھا۔ وہ کئی دنوں سے وینٹی لیٹر پر تھے۔ صحت کی بگڑتی صورت حال نے شاہ عبد اﷲ کو اس بات پر مجبور کردیا تھا کہ وہ عملی طو پر مملکت کے امور چلانے کی ذمہ داری کسی اور کو سونپ دیں اور ایسا ہی تھا انہوں نے اپنی زندگی ہی میں مملکت کے امور اپنے چھوٹے بھائی ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز کو سونپ دئے تھے۔کئی سال سے شاہ سلمان بن عبد العزیز مختلف سرکاری تقریبات میں شاہ
عبد اﷲ کی نمائندگی کیا کرتے تھے۔

شاہ عبداﷲ سعودی عرب کے ان فرمانرواؤں میں سے تھے کہ جن کادورحکمرانی تو۱۰ برس (۲۰۰۵ء تا ۲۰۱۵ء) پر محیط رہا لیکن وہ ۱۹۶۱ء سے سعودی حکومت میں کسی نہ کسی عہدہ پر فائز رہے۔انہوں نے مختلف حیثیتوں میں رہتے ہوئے سلطنت کے امور سر انجام دیے۔ ۱۹۶۱ء میں مکہ شہر کے میئر مقرر ہوئے، ۱۹۶۲ء میں شاہ فیصل نے انہیں سعودی عربین نیشنل گارڈ کا کمانڈر مقرر کیا ، وہ ڈپٹی ڈیفنس منسٹر کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔ ۱۹۷۵ء میں نائب وزیراعظم دوم مقرر کیے گئے،۳ جون ۱۹۸۲ء میں جب شاہ خالد بن عبد العزیز کا انتقال ہوا اور ان کے سوتیلے بھائی شاہ فہد بن عبدالعزیز تخت نشین ہوئے تو انہوں نے شاہ عبد اﷲ کو’کراؤن پرنس‘کے مرتبے پر براجمان کیا ۔ شاہ فہد کی وفات کے بعد۲ اگست ۲۰۰۵ء کو شاہ عبداﷲ بن عبد العزیزسعودی عرب کے بادشاہ بنے۔ وہ سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ تھے، وزرا کی کونسل کے سربراہ اور نیشنل گارڈز کے کمانڈر بھی تھے۔۱۹۹۵ء میں شاہ فہد کو فالج کا شدید حملہ ہوا تو شاہ عبد اﷲ نے مملکت کے تمام امور شاہ فہد کی جانب سے سر انجام دیے۔ شاہ عبداﷲ سعودی عرب کے ان بادشاہوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں بادشاہ بننے سے قبل مملکت کے امور میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مملکت کے امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ انہیں مذہب، تاریخ اور عرب ثقافت کے موضوعات سے خاص دلچسپی تھی۔

شاہ عبداﷲ اعتدال پسند لیکن سخت گیر عناصر سے لڑنے والے متحمل مزاج اور صلاح پسند انسان تھے۔ وہ مملکت سعودی عرب کی ترقی کے لیے ابتداہی سے سرگرم عمل رہے۔ سعودی عرب کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے والے کو انہوں نے ہمیشہ سخت الفاظ میں للکارااور دو ٹوک جواب دیا وہ سعودی عرب کی وحدت کا دفاع کرنے کا نہ صرف حوصلہ رکھتے تھے بلکہ سعودی عرب کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں سے انتہائی سخت طریقے سے نمٹنے کی پالیسی پر ہمیشہ گامزن رہے۔شاہ عبداﷲ دہشت گردی کو ایک مہلک مرض اور عالمی مسئلہ تصور کیا کرتے تھے۔وہ اسلام کو اعتدال پسندی اور تحمل کا مذہب گردانتے تھے۔وہ اختلاف کے بجائے اتفاق پر یقین رکھتے تھے۔ اسلامی اتحاد اور اسلامی ممالک کے مابین دوستانہ اور اچھے مراسم چاہتے تھے۔ پاکستان سے انہیں خصوصی محبت اور لگاؤ تھا۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف تھے۔ وہ وزیر اعظم محمد نواز شریف سے خصو صی انسیت و محبت رکھتے تھے۔ چند روز قبل نواز شریف اپنی ٹیم کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے بھی گئے۔ یقینا ان کا مقصد شاہ عبداﷲ کی عیادت کرنا بھی رہا
ہوگا۔

شاہ عبداﷲ کے دور میں سعودی عرب نے تمام ہی شعبہ جات میں ترقی کی۔ لیکن شہروں کو جو وسعت، کشادگی و ترقی شاہ عبداﷲ کے دور میں حاصل ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ شاہ عبداﷲ نے تعلیم کے شعبے کو خصوصی اہمیت دی اور ملک میں تعلیم کے فروغ اورسعودی نوجوانوں کواعلیٰ تعلیم کے حصول کے مواقع فراہم کرنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی۔جس کے نتیجے میں سعودی نوجوانوں نے نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک سے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ صحت کے شعبے کو شاہ عبداﷲ کے دور میں خصوصی اہمیت حاصل رہی۔ حکومت نے اسپتالوں کے قیام اور ان کے انتظامات بہتر سے بہتر بنانے کے ہر منصوبے کی حوصلہ افزائی کی۔ سعودی عرب میں سعودیوں کے لیے علاج معالجے کی بہترین سہولیات مہیا ہیں البتہ غیر سعودی یاوہ زائرین جو سعودی عرب عمرہ ، زیارت یا حج کے لیے جاتے ہیں یا وہ والدین جو وزٹ ویزا پر اپنے بچوں سے ملنے سعودی عرب جاتے ہیں ا گر بیمار ہوجائیں تو ان کے لیے علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔بیماری کی صورت میں انہیں انتہائی مشکلات اور پریشانی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ شاہ عبد اﷲ کے دور شہنشاہیت میں سعودی عرب نے معیشت کے میدان میں بھی ترقی کی ۔ معیشت نہ صرف مستحکم ہوئی بلکہ معیشت کے شعبے میں متعدد بڑے منصوبے پائے تکمیل کو پہنچے کچھ پر اب بھی کام ہورہا ہے۔

شاہ عبد اﷲ کے قابل تعریف کارناموں میں سے ایک کارنامہ مسجد الحرام اور مسجد بنوی کی توسیع کے منصوبے ہیں۔راقم الحروف کی خوش قسمتی ہے کہ اُسے شاہ عبد اﷲ کے دورِ حکومت میں چار مرتبہ سعودی عرب جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پہلی بار ۲۹ مئی ۲۰۱۱ء تا۲۳ اکتوبر ۲۰۱۱ء، دوسری بار ۸ فروری ۲۰۱۳ء تا۸ مارچ ۲۰۱۳ء، تیسری بار ۲۹نومبر ۲۰۱۳ء تا۳۰ جنوری ۲۰۱۴ء اور چوتھی بار ۲۰ اگست۲۰۱۴ء تا۸ ۱ستمبر ۲۰۱۴ءْ۔

اس دوران سعودی عرب کے مختلف شہروں جدہ، مکہ، مدینہ، طائف، جیذان اور فیفاء میں قیام رہا۔جہاں پر ہونے والی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کاموقع ملا۔توسیع حرم کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ حرم شریف کی اولین توسیع حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور۱۷ ھ میں ہی ہوئی۔اس کے بعد ۱۸ ہجری میں خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے توسیع کا کام کرایا۔ اموی خلیفہ امیر معاویہ نے مکہ کی ترقی اور فلاح و بہبو د پر خصو صی توجہ دی۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک نے کعبتہ اﷲ کی حفاظت کے لیے حرم شریف کے چاروں طرف ایک مضبوط پشتہ تعمیر کرایا ۔ گورنر مکہ خالد بن عبداﷲ نے کعبہ میں کئی ترقیاتی کام کیے۔ عقبہ بن الارزق نے کعبہ میں سب سے پہلے روشنی کا انتظام کیا۔ عہد عباسی میں مکہ کی تعمیرمیں بہت کام ہوئے، نہر زبیدہ ان میں سے ایک ہے، خلافت عثمانیہ کے ہر حاکم نے مکہ کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ حرم شریف کی توسیع کا کام بھی کرایا۔

تمام سعودی فرماں رواں سعودی عرب کی ترقی اورتوسیع کے ایک نہ رکنے والے منصوبے پر عمل پیرا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کا ہر شہر تیزی سے ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔جس شہر میں چلے جائیں ترقیاتی کام بڑے پیمانے پر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ سعودی حکمران شاہ عبد لعزیز ّ آلِ سعود نے ۱۳۶۸ھ میں حرم شریف کی توسیع کا اعلان کیا ۔ یہ منصوبہ حرم شریف کی تاریخ ِ توسیع کا اہم ترین منصوبہ تھا۔ اس منصوبے پر بیس سال مسلسل کام ہوتا رہا۔ حرم شریف کی خارجی سمت کی توسیع نہایت اہم تھی اس کا کل رقبہ ساٹھ ہزار مربع میٹر تھا مسجد حرام کی دونوں منزلوں کے اندرونی اور بیرونی حصوں میں ٹائل لگا ئے گئے۔ ساتھ ہی عثمانی دور کی تعمیرات کی بھی اصلاح و ترمیم سے سنوارو گیا اور سعودی دور کی توسیع کو عثمانی دور کی توسیع سے باہم ملا دیا گیا۔مطاف کو بھی وسیع کیا گیا۔ اس میں سفید سنگِ مر مر کا استعمال کیا گیاجس کی خوبی یہ ہے کہ یہ گرمی کی تپش سے گرم نہیں ہوتا۔ زم زم کے کنوے تک پہنچنے کے لیے دروازے لگائے گئے کعبہ شریف کا دروازہ تبدیل کیا گیا جس میں خالص سونے کی پلیٹیں جڑی گئیں جن کا وزن ۲۸۶ کلو گرام ہے۔ اس عظیم توسیع میں صفا و مروا کے درمیانی جگہ بھی شامل تھی۔ دوسری منزل پر بھی سعی کی سہولت فراہم کی گئی۔

سعودی فرما نرواشاہ فہد بن عبد لعزیز نے حرم شریف کی توسیع میں ذاتی دلچسپی لی۔ ماہِ سفر۱۴۰۹ھ میں مزید توسیع کا فوری طور پر حکم دیا۔ ان کے دور میں توسیع کا کام جاری رہا۔ ان کے دورِ حکمرانی میں ’’مسعا‘‘ کے درمیانی حصے میں پل نما چھ گزرگاہیں بنائی گئیں۔ نمازیوں کی سہولت کے لیے دوسری منزل پر چڑھنے کے لیے خود کار زینے نصب کیے گئے۔ مسجد حرام کی چھت کو نماز کے قابل بنا یا گیا تاکہ وقت ضرورت یہ چھت نماز کے لیے استعمال ہوسکے۔

خادم ِحر مین شریفین شاہ عبد اﷲ بن عبد العزیز مرحوم کے دور حکمرانی میں مسجد الحرام اور مسجد بنوی کے عظیم الشان توسعی منصوبوں کا آغاز ہوا۔ اس منصوبے پر اخرجات کا تخمینہ 10.7بلین تھا۔اس کا افتتاح خود شاہ عبداﷲ نے ۱۹ اگست ۲۰۱۱ء کو کیا۔ حرم شریف کے شمالی و جنوبی صحنوں میں انتہائی توسیع کے منصوبے پر دن رات کام ہورہا ہے۔سڑکوں کا نیا جال بچھا یا جارہا ہے۔اس کے تحت گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کے لیے برقی زینو، خود کار راستوں اور ٹنل کی تعمیر شامل ہے۔ خانہ کعبہ کے گرد صحن میں دو منزلہ ٹریک جو گولائی میں ہے بنایا گیا ہے جس کی پہلی منزل پیدل چل کر طواف کرنے والوں کے لیے ہے جب کہ دوسری منزل وھیل چیٔر پر طواف کرنے والوں کے لیے مخصوص ہے۔ ہیلی پیڈ بھی منصوبے کا حصہ ہے تاکہ حرم شریف سے مریضوں کو تیزی کے ساتھ اسپتال منتقل کیا جا سکے۔اس منصوبے کے علاوہ مکہ المکرمہ کو جدہ کے راستے مدینہ منورہ سے ملانے کے لیے ہائی اسپیڈ ٹرین کے منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اس توسیعی منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں مسجد حرام میں 2.5ملین لوگ ایک وقت میں نماز ادا کرسکیں گے اور حرم شریف کے شمال اور مغربی صحنوں میں آمد و رفت آسان ہوجائے گی، زائرین ٹریفک کے ازدھام سے متاثر ہوئے بغیر حرم شریف آجاسکیں گے۔میں نے حرم شریف اور مسجد نبوی میں ہونے والی توسیع کو اپنے آنکھوں سے دیکھا ۔ کام کی نوعیت اور تیزی سے ہونے والی توسیع قابل تعریف ہے۔اس کے علاوہ سعودی عرب کے چار اقتصادی شہروں کے قیام کا منصوبہ ، شاہ عبداﷲ یونیورسٹی، پرنسس نور ا یونیورسٹی شاہ عبد اﷲ کے عہد حکمرانی کے عظیم منصوبوں میں سے ہیں۔ شاہ عبد اﷲ نے سعودی عدالتی نظام کی تاریخی تشکیل نو کی بھی منظوری دے دی تھی۔ خواتین کو ووٹ کا حق اور اولمپکس میں شریک ہونے کا حق بھی شاہ عبد اﷲ نے دیا۔

شاہ عبد اﷲ کی ذاتی زندگی کا مطالعہ بتا تا ہے کہ وہ سعودی رسم و رواج کاحصہ تھے اور ان پر سختی سے عمل پیرا بھی تھے۔ وہ ا پنے والد شاہ عبدالعزیز السعود کے دسویں بیٹے تھے۔ سعودی تہذیب و رسم ورواج میں شادیاں کرنا عام سے بات ہے۔ شاہی خاندان میں تو اس روایت کو زیادہ ہی پذیرائی حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ عبد اﷲ نے تیس شادیاں کیں جن سے ان کے ۳۵ سے زیادہ بچے ہیں۔ ان میں لڑکے بھی ہیں اور لڑکیاں بھی۔

شاہ عبداﷲ کے انتقال کے بعدسعودی عرب کی بادشاہت کا تاج ان کے ۷۹ سالہ رضائی بھائی شاہ سلمان بن عبد العزیز کے سر سجایا گیا۔شاہ سلمان کو دو سال قبل شہزادہ نائف بن عبد العزیز کی وفات کے بعد ولی عہد کا منصب عطا ہوا تھا۔ شاہ سلمان بن عبد العزیز ۲۰ سال کی عمر میں وزیر بنا دیئے گئے تھے۔وہ ۴۸ سال تک ریاض کے گورنر کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ سعودی عرب کے نئے فرمانروا بننے کے بعد شاہ سلمان نے کہا کہ سعودی عرب کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسلمانوں کو متحد ہوکر رہنا چاہیے ، جب کہ سعودی عرب کی سمت میں تبدیلی نہیں آئے گی اور ملک موجودہ سمت میں ہی آگے بڑھتا رہے گا۔ انہوں نے شہزادہ مقرن بن عبد العزیز کو سعودی ولی عہد اور نائب وزیر اعظم اور شہزادہ محمد بن نائف بن عبدالعزیز کو نائب وزیر اعظم دوم کے مرتبے پر فائز کیا۔ان کے علاوہ شاہ سلمان نے اپنے بیٹے کو وزیر دفاع مقرر کیا ہے۔یہ بات نئی اور قابل غور ہے کہ شاہ سلمان بند عبد العزیزکے دور میں پہلی مرتبہ شاہ عبد العزیز کی تیسری نسل اقتدار میں شریک ہورہی ہے۔ واضع رہے کہ مرحوم شاہ عبد اﷲ اس بات کے حق میں تھے کہ ابھی اقتدار شاہ عبد العزیز کے بیٹوں میں ہی رہے۔لیکن ایسا تو ایک نہ ایک دن ہونا ہی ہے۔ آج نہیں تو کل ۔ دعا یہ ہونی چاہیے کہ شاہ عبد العزیز اور ان کی اولادوں میں سرزمین مقدس کے لیے جو عقیدت اور محبت پائی جاتی ہے جو آلِ سعود کا ورثہ بھی ہے آئندہ نسل میں جاری و ساری رہے۔سعودی عرب کے نئے فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے اعلان تو کر دیا کہ سابق حکمراں کی پالیسیاں برقرار رہیں گی۔نئے فرمانروا نے بادشاہ بننے کے فوری بعد جو بیان دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’سیکورٹی اور استحکام برقرار اور سلطنت کی تمام برائیوں سے حفاظت کرنے میں اﷲ میری مدد کرے‘۔یہ بیان حوصلہ افزا ہے اور نئے بادشاہ کے عزائم کی نشاندھی کررہا ہے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280273 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More