خدائی خدمتگار خان عبدالغفار خان

بولان تا چترال و افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان آباد پشتون قوم نے زندگی کے ہر شعبے میں بڑی بڑی نامور شخصیات پیدا کیں چاہے میروائس ہوتک ، شیر شاہ سوری ، احمد شاہ ابدالی یا محمود غزنوی جیسے فاتحین عالم ہوں یا خوشحال خان ، رحمان بابا اور غنی خان جیسے عظیم شعرا لیکن سب سے پہلے نامور شخصیت پشتون قوم کے عظیم رہبر برصغیر کے آزادی کے عظیم مجاہد خدائی خدمتگار تحریک کے بانی فلسفہ عدم تشدد کے علمبردار جن کا نامی اسم گرامی خان عبدالغفار خان جو عرف عام میں باچا خان کے نام مشہور ہوئے انہوں نے جدوجہد کرتے ہوئے حق اور صداقت کی شمع روشن کی آپ کے ملی خدمات کو برصغیر کے عوام فراموش نہیں کرسکیں گے اور آپ کے تذکرے کے بغیر بشتون قوم کی تاریخ ہمیشہ نامکمل رہے گی آپ برصغیر کی تحریک آزادی کے ہر اول دستے کے سپاہی تھے ہر طرح کے مصائب اور مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور اپنے مشن اور موقف پر ڈٹے رہے آپ کی ثابت قدمی اور استقامت میں رائی برابر بھی لغزش نہ آئی آپ پر غداری اور ملک دشمنی کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے مگر اس کے باوجود انہوں نے اس جدوجہد کو ترک نہیں کی آزادی سے پہلے سر کٹوانے سے بھی دریغ نہ کرنا آپ نے اپنے آباد واجداد سے سیکھ رکھا تھا کیونکہ آپ کے والد بہرام خان اور دادا سیف اللہ خان نے بھی انگریز سامراج کے خلاف زبردست جدوجہد کی اس طرح سامراج دشمنی اقور حریت پسندی آپ کے جنون میں شامل تھی باچا خان نے اپنی جدوجہد کا آغاز ١٩١١ میں کیا اُس وقت آپ حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ ایک رضا کار کی حیثیت سے شریک تھے جب حاجی صاحب ہجرت پر چلے گئے تو باچا خان نے حاجی صاحب کے ادھورے تبلیغی اصلاح اور تعلیمی پروگرام کی تکمیل تک پہنچانے اور اس سے آگے بڑھانے کے لیئے اپنی جدوجہد کا آغاز کردیا آپ کے زمانے میں پشتونوں میں جہالت عروج پر تھی آپ نے جہالت اور فرسودہ روایات کے خلاف جہاد کیا اور پشتونوں میں جدید تعلیم کے لیئے نئی اُمنگ پیدا کی اور لا تعداد مدرسے اور سکول قائم کئے ١٩١٢ میں تین سال تک ڈیرہ غازی خان میں جیل کھاٹی آپ نے ١٩٢٤ میں انجمن اصلاح الافاغنہ نامی ایک سماجی تنظیم بنائی آپ خلق خدا کی خدمت کو خدا کی خدمت کہا کرتے تھے آپ کے مخالفین بھی آپ کی بے داغ شخصیت کے قائل تھے ١٩٢٥ میں ماہنامہ پشتون اخبار شائع کیا ١٩٢٩ میں سیاسی مجلسی ، اقتصادی اور روحانی تحریک ، خدائی خدمتگار بنائی آپ نے پشتون جیسے بہادر قوم کو جن کا زیور ہی ہتھیار ہے کو عدم تشدد پر قائل کیا کیونکہ آپ کی نظر میں نظریہ دماغ میں ہوتا ہے بندوق کی گولی میں نہیں تشدد کو بندوق کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے مگر عدم تشدد کو نہیں آپ کے تحریک کے منشور میں خلق خدا کی خدمت عدم تشدد کا نظریہ کا آپس میں اتحاد حسن خلق کا پیغام اور محبت کا درس شامل ہے ١٩٣٠ میں جب آپ گجرات جیل میں قید تھے آپ نے ایک وفد تشکیل دیا تھا کہ کسی بڑی سیاسی جماعت سے اتحاد کرلیں کیونکہ انگریز نے آپ کی تحریک کو ختم کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا وفد دہلی لاہور اور شملہ میں مسلم لیگ اور دوسری جماعتوں سے ملنے کے بعد مایوس ہو گیا کیونکہ کئی مسلم لیگی نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کسی کو مسلمانوں کے نمائندگی کرنے کا موقع ملے وفد نے مسلم لیگ کے منفی ردعمل سے مایوس ہو کر کانگریس سے اتحاد کر لیا اس لیئے جب ایک دفعہ فیروز خان جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے سے اتحاد کے سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ معلوم کرکے آپ کو جواب دینگے مگر جب آزادی کے بعد ایک تقریب میں آپ نے فیروز خان نون نے شکوہ کرتے ہوئے کہا آپ نے ہندووں سے اتحاد کر لیا ہے تو آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا اگر میں ڈوب رہا ہوں اور کنارے پر مسلمان اور ہندو دونوں کھڑے ہوں اور مسلمان تو میری مدد نہ کریں اور ہندو مدد کریں تو مجھے کون عزیز ہوگا آپ نے آزادی سے پہلے کا وہ وعدہ یاد دلایا تو وہ شرمندہ ہوکر تقریب سے اُٹھ کر چلے گئے آزادی وطن کے لئے آپ نے مولانا ظفر علی خان ، مولانا شوکت علی خان ، مولانا محمد علی جوہر اور چوھدری خلیق الزمان سے ملاقتیں کیں سعودی حکومت نے آپ کی خدمات کے صلہ میں برصغیر پاک وہند سے موغر عالمی اسلامی کے منتخب شدہ اراکین مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی ، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد اسماعیل غزنوی کے ساتھ آپ کو بھی منتخب کیا آپ تحریک خلافت کے صوبہ سرحد کے صدر بھی رہے آپ یہ عہدہ لینے پر تیار نہ تھے لیکن جب تحریک خلافت کے دودھڑے بن گئے اور دونوں دھڑے آپ کی صدارت پر متفق ہوئے تو آپ نے ان کے اصرار پر یہ عہدہ قبول کیا ١٩٣٧ میں کانگریس کے صدارت کے عہدے کے لیئے گاندھی جی نے آپ کے حق میں دستبردار ہونے پر آمادگی ظاہر کی مگر آپ نے یہ عہدہ قبول نہ کیا کانگریس نے جب آپ کی پارٹی کے تنظیمی امور کے لئے روپے دینے کی کوشش کی تو آپ نے یہ کہ کر انکار کردیا کہ آزادی کی اس جدوجہد میں ہمارا بھی حق ہے ہم اپنے بوجھ خود اُٹھائیں گے دوسری جنگ اعظیم میں کانگریس نے انگریزوں کی جماعت کا فیصلہ کیا تو آپ نے غلط اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی اور آپ نے صوبے کی وزارات کانگریس کے اس فیصلے کے خلاف استعفی دینے والی آٹھ ریاستوں میں سرفہرست تھی ١٩٤٤ میں ہندوستان چھوڑو تحریک کے سلسلے میں مردان مارچ کے سلسلے میں جو آزادی کے حق میں نعرہ لگا رہے تھے پولیس لاٹھی چارج میں آپ کی دو پسلیاں ٹوٹ گئے ١٩٣٧ کے الیکشن میں آپ نے اپنے صوبے میں واضع اکثریت سے کامیابی حاصل کی آپ ١٩٤٦ میں ہندوستان کے مرکزی دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اس لئے پہلے ١٩٤٢ میں سول نافرمانی کے تحریک کے دوران کئی خدائی خدمتگار احتجاج کے دوران قربان ہوئے اور کئی سال پابندسلاسل رہے قائم پاکستان کے وقت آپ نے صوبہ سرحد کے لئیے ہونے والے ریفرنڈم جس میں صوبے کے عوام سے رائے طلب کی گئی تھی کہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہے یا ہندوستان کے ساتھ آپ نے ریفرنڈم میں حصہ نہ لیا آپ کا موقف تھا کہ صوبے میں ہماری وزارت قائم ہے آزادی سرحد کے لئے ریفرنڈم پر ووٹنگ ہو تو اس کے لئیے الیکشن کرنے کے لئے تیار ہے عوام نے پچاس فیصد ووٹ ڈال کر الحاق پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا جس کے دوران کئی لاکھ قبائلیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا تھا آزادی کے بعد آپ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مارچ ١٩٤٨ میں آپ نے پارلیمنٹ میں یادگار تقریر کرتے ہوئے فرمایا آزادی ہند کے بارے میں میرا اپنا ایک تصور تھا جس میں اپنی دانست کے مطابق درست خیال کرتا ہو اور اسے کروڑوں ہندوستانیوں کو اتفاق تھا مجھے اس امر کا اعتراف ہے کہ میں نے تقسیم ہند سے اختلاف کیا تھا یہ میری دیانتدارانہ رائے تھی کہ ملک تقسیم نہیں ہونا چاہیے لیکن اب تقسیم ایک حقیقت بن چکی ہیں اب ہمارا اختلاف رائے ختم ہو گیا اور میرے رفقا پاکستان کے خدمت گزار ہے میں یہ وضاحت کر لینا چاہتا ہوں کہ ہم پاکستان کو ایسی ریاست بنانے کے خواہش مند ہے جس کا نظام حکومت قرون اولی او مسلمانوں کی ریاست کے مطابق ہو آپ پانچ وقت کے نمازی تھے انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے خانزادہ ہونے کے ناطے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر سکتے تھے آپ سنت نبویّ پر سختی سے عمل کرتے ہوئے اپنے کام ہاتھ کرنے کو پسند کرتے تھے یہاں تک اپنے کپڑے بھی خود دھوتے آپ کی شخصیت انتہائی متقی اور پریزگار تھی آزادی کے بعد یا آزادی سے پہلے آپ جتنے عرصہ اسیر رہے ہر اتوار کو روزہ رکھا بلکہ بات چیت کا بھی روزہ رکھا کسی نے پوچھنے پر فرمایا کہ انگریز کی اتوار کو چھٹی ہوتی ہے وہ خوشیاں مناتے ہے میں ان سے اپنی نفرت کے اظہار کے لئے روزہ رکھتا ہوں آزادی کے بعد آپ نے انگریزوں کی انتظامیہ جج اور فوج کے سربراہ کے طور پر تعیناتی پر احتجاج کیا آپ کی رائے میں فنی ماہرین بیرون ممالک سے بیشک آئیں مگر انتظامیہ مقامی لوگوں پر مشتمل ہونی چائیے آپ نے آزادی کے ابتدائی ١٨ سالوں میں سے ١٥ سال جیل میں گزارے یہ وہ صلہ تھا جو تحریک آزادی کے ہیرو کو ملا ١٥ جون ١٩٤٨ کو گرفتار ہوئے اور ١٩٥٤ تک جیل میں رہے ١٩٤٩ میں منٹگمری جیل میں اسیری کے دوران پنجاب کے وزیر اعلی افتخار حسین اور نوائے وقت لاہور کے مدیر حمید نظامی نے آپ سے ملاقات کی آپ نے ان کے ذریعے لیاقت علی خان کو مسلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی لیکن انہوں نے ٹھکرادی آپ نے پاکستان کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے پشتونوں کو وسیع خودمختیاری دینے کا مطلب شدت سے کرتے رہے پشتونوں کے مطلق آپ نے فرمایا کہ ہمیں اپنی ہی زمین پر بے نام رکھا گیا ہے اگر لائل پور کو فیصل آباد اور کیمبل پور کو آٹک میں تبدیل کیا جا سکتا ہے تو پھر پشتونوں کی اکثریت والی سرزمین کو پشتونستان یا پشتونخوا کا نام کیوں نہیں دیا جا سکتا ٢٠ جنوری ١٩٨٨ کی صبح پشتون قوم اور بابا کے پیروکاروں کے لیئے یتیم ہونے کا پیغام لیکر آئی اعظیم باچا خان اس دنیا سے کوج کر گئے پوری دنیا سے بابا کے پیروکار بابا کے آخری دیدار کیلئے پشاور پہنچ گئے آپ کی جسد خاکی کو کنکھم پارک میں دیدار عام کے لیئے رکھا گیا بھارتی وزیر اعظم نے آپ کے جنازے میں اپنے بچوں کو نصحیت کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کا وہ اعظیم مجاہد ہے جس کی بدولت برصغیر انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی جس کئ نتیجے میں میں آج بھارت کا وزیر اعظم ہوں آپ کے وفات تین ملکوں کی سرحدیں بیک وقت کھول دی گئی آپ نے فرضی لکیر ڈیورنڈلائن کو توڑتے ہوئے جلال آباد میں دفن ہونا پسند کیا ۔

ikhlaq ahmad khan achakzai
About the Author: ikhlaq ahmad khan achakzai Read More Articles by ikhlaq ahmad khan achakzai: 10 Articles with 17277 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.