نقل ۔۔۔۔تعلیمی نظام کی بڑی خامی

کسی بھی قوم کی ترقی کا راز تعلیمی نظام میں پوشیدہ ہے۔ تعلیمی نظام جس قدر پختہ اور عمدہ ہو گا، قوم اس قدر مضبوط اورترقی یافتہ ہو گی۔ تعلیم کے بغیر کسی قوم نے بھی ترقی نہیں کی۔ جس قوم کو بھی ترقی کے بلند مدارج پر دیکھ اگیا اور اس کی وجوہات پر غور کیا گیا تو اس ترقی کا سبب تعلیم ہی نظر آیا۔ اس کے ساتھ ہی نظام تعلیم کمزور ہو تو اس قوم کے زوال میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا۔

ہم مسلمانوں کیلئے وحی کے ذریعے جو پہلا سبق دیاگیا وہ علم اور پڑھنے کے متعلق تھا۔ ابتداء اسلام کے مسلمان اور عرب اس درس علم پر عمل کر کے ساری دنیا کے امام بن گئے۔ اور ان کے بعد ہمارے اسلاف نے اپنی زندگی اور اپنے علمی کارناموں سے ثاابت کیا کہ ترقی کا راستہ علم ہی ہے۔

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اور اس کیلئے ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو اس کے بنیادی نظریہ کے موافق ہو۔ مگر تشکیل پاکستان کے بعد نظام تعلیم بدلنے کی زحمت نہ کی گئی اور اسی نظام کو باقی رکھا گیا جو لارڈ میکالے نے ایک محکوم قوم کو رسم غلامی میں پختہ کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ تاکہ ایسے لوگ تیار ہوں جو بے شک نام کے مسلمان ہوں مگر ذہنی طور پر مسلمان نہ رہیں اور ان کی سوچ اور فکر فرنگیانہ ہو۔ اور وہ کبھی بھی انگریزوں کی غلامی سے نکلنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ نئے نظام تعلیم اور قومی مقاصد سے ہم آہنگ نظام تعلیم تو دور کی بات اسی فرسودہ نظام میں اتنی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ نوجوانوں کے پاس بڑی ڈگریاں ، بڑی بڑی اسناد ہونے کے باوجود ان کے پاس علم اور علم کاشعو ر تک نہیں۔ لارڈمیکالے تو کلرک پیدا کرنا چاہتا تھا مگر اب اس نظام سے کلرکی کی اہلیت بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اور اس کی بے شمار وجوہات میں ایک بڑا سبب نقل ہے۔ تعلیمی نظام کو کھوکھلا کرنے میں نقل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ سب سے پہلے کتابوں کی گائیڈز، ٹیسٹ پیپر ز ، خلاصے اور لکی سیریز وجود میں آئیں۔ اور ان کا استعمال اپنی صلاحیت کو بڑھانے کیلئے نہیں بلکہ ان پر نقل کا دارو مدار بن چکا ہے۔ اور اصل کتب تو طلباء شاذو نادر ہی دیکھتے ہیں۔ چند سال قبل تک نقل کا رجحان عموما میٹرک اور اس کے بعد کے امتحانات میں دیکھنے میں آتا تھا۔ مگر اب یہ خطرناک رجحان بڑھتے بڑھتے مڈل لیول اور سکول کے امتحانوں تک آگیا ہے۔ طلباء کو یقین ہے کہ امتحان شفاف نہیں ہوں گے اور نقل ضرور ہو گی۔ لہٰذا سارا سال فضول مشاغل میں گزار دیتے ہیں۔ اور آخرمیں نقل کے سہارے کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ سکول کے اوقات کے بعد گھر میں پڑھنے کا تصور آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیوشن سنٹرز میں پڑھنے والے طلباء اپنے سنٹرز منتخب کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ ان اساتذہ کی رسائی امتحانی بورڈز تک کتنی ہے ؟۔

نقل کی کئی وجوہات ہیں۔ اساتذہ کی کمی کے باعث کورس پڑھانے والا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ لہٰذا آخر میں نقل ہی کارآمد ثابت ہو تی ہے۔ بعض اوقات استاد موجود ہوتا ہے مگر اس صلاحیت کا اہل نہیں ہوتاکہ اچھے طریقے سے طلباء کو پڑھا سکے۔

ایف ۔ ایس ۔ سی میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز میں داخلہ ہوتا ہے لہٰذا اس امتحان میں نقل کا تناسب بہت زیادہ ہو تا ہے۔ اور اس میں لوگ باقاعدہ منصوبہ بندی سے نقل کا انتظام کرتے ہیں اور وہ لوگ بھی اس مکروہ کام میں مصروف ہوتے ہیں جن پر گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور سارا امتحانی نظام مشکوک اور غیر شفاف ہو جاتا ہے ۔ انہی پس پردہ محرکات کے باعث ہی ا ساتذہ میں وہ جوش و جذبہ نہیں رہتا جو کبھی استاد کا خاصہ ہوتا تھا۔

پورا سال گھوم پھر کر اور آوارہ گردی کرتے رہنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ امتحان میں نقل کے باعث کامیابی یقینی ہے۔ اگر انہیں یقین ہو کہ امتحان شفاف ہوں گے تو وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے۔ کورس کا طویل ہونا بھی بعض اوقات نقل کے رجحان کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو تا ہے۔ تعلیمی اداروں کی طویل تعطیلات کے باعث کورس مکمل نہیں ہو سکتا اس لئے طلباء میں نقل کا رجحان بڑھتا ہے۔ اب کئی مسائل کی وجہ سے معاشرہ میں شفاف امتحانات کا رجحانات ختم ہوتا جا رہا ہے۔

نقل کے نقصانات سے طلباء کے ساتھ ساتھ معاشرہبھی بری طرح متأثر ہوتا ہے۔ نقل کے ذریعے پاس ہونے والے نوجوان معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ان کے پاس سند تو ہوتی ہے مگر کسی کام کے اہل نہیں ہوتے اور ملازمت کے حصول میں ناکام رہتے ہیں اور منفی سرگرمیوں کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ اور بعض اوقات جراء اور خود کشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس میں قصور کس کا ہے ؟۔ حکومت کا ، اساتذہ کا ، طلبہ کا یا معاشرہ کا ؟۔ حقیقت پسندانہ تجزیہ کیاجائے تو من حیث المجموع سارا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے اور نقل کیلئے بھی سارے طبقات قصور وار ہیں ۔

نقل کے نقصانات میں زیادہ نقصان ان غریب طلباء کو ہوتا ہے جو سارا سال اپنی محنت اور کوشش سے تیاری کرتے ہیں مگر نقل کے باعث نالائق طلباء زیادہ نمبر لے لیتے ہیں اور محنتی طلباء کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ نقل کا ایک نقصان پیپرز کی چیکنگ کے دوران بھی غیر شعوری طور پر ہو تا ہے کہ بعض ممتحن حضرات کے ذہنوں میں پہلے سے یہ موجود ہوتا ہے کہ امتحان میں نقل ہوئی ہے لہٰذا پرچوں کی چیکنگ میں محتاط نہیں ہوتے ۔ اور اس کا نقصان بھی عموما ان ہی طلبا ء کو ہوتا ہے جو اپنی محنت اور تیاری کے ساتھ امتحانات میں شریک ہوتے ہیں۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ میٹرک اور اس کے بعد کے اعلیٰ درجات میں نقل کا رجحان زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ اور کوئی امتحان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔

امتحانی نظام میں انفرادی سطح پر بورڈ ، یونیورسٹی میں کئی بار کوششیں ہوئی ہیں۔ اگر ان کوششوں کی پذیرائی عوامی سطح پر کی جائے تو مجموعی بہتری کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

حکومت اور خصوصی طور پرمحکمہ تعلیم توجہ دے تو تو تعلیمی بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اساتذہ اپنے طلباء میں تعلیم کے ساتھ ساتھ نقل سے نفرت پیدا کرے۔ جبکہ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نقل کی لعنت سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ والدین خود اپنے بچوں کیلئے نقل کا انتظام کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جب تک معاشرے کا ہر فرداپنی ذمہ داری کو دیانت داری سے ادا نہ کرے مکمل سدھار ممکن نہیں۔

نقل کے خاتمہ کیلئے ایک عمدہ طریقہ میرٹ پر ملازمتوں کا حصول یقینی بنایا جائے ۔ اگر ہر طالب علم کو یقین ہو کہمطلوبہ قابلیت و اہلیت کے بغیر ملازمت کا حصول کسی طرح ممکن نہیں تو یقینا وہ محنت کی جانب راغب ہو گا۔ اور نقل سے دور رہے گا۔ مگر بد قسمتی سے اس امر کی جانب کبھی توجہ نہیں دی گئی اور ملازمتوں میں بھی سفارش اور رشوت کاکلچر ہی فروغ پا چکا ہے۔

میڈیابھی نقل کے رجحان کے خلاف مؤثر کام کر سکتا ہے۔ آج میڈیا کی آواز بہت مؤثر ہو چکی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نقل کے تمام ذرائع کی مذمت کی جائے اور اسے معاشرتی برائی قرار دے کر اس کے خلاف لڑنے کا عہد کیاجائے تو اس کے اثرات جلد مل سکتے ہیں۔

جب تک طلباء حقیقی معنوں میں تعلیم حاصل کرکے میدان عمل میں نہ آئیں گے ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ لہٰذا اپنی اور ملک کی حقیقی ترقی کیلئے جلد از جلد اس بات کا ادراک کر لینا ضروری ہے۔
Muhammad Tahir
About the Author: Muhammad Tahir Read More Articles by Muhammad Tahir : 2 Articles with 3080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.