پنجاب پولیس کے ساتھ ! ناممکن

ایبٹ آباد سے واپسی پہ کے پی کے پولیس کی تعریفیں سن سن کے میں تقریباَ بور ہو گیا تھا۔میں عوام سے ملتا ہوں۔ جس سے پوچھو وہ پولیس کی امانت دیانت اورشرافت کی گواہیاں دے رہا تھا اور مزے کی بات یہ کہ عام آدمی۔یہی حال محکمہ مال کا بھی تھا۔پٹواریوں کی توصیف ۔خدایا یہ واقعی پاکستان کا حصہ ہے۔پولیس اور پٹواری۔۔۔پیسے نہیں لیتے لیکن گواہیاں اتنی زیادہ تھیں کہ مانتے ہی بنی۔میرا ایک عزیز پولیس میں ہے۔ملاقات ہوئی تو پژمردہ تھا۔ کہنے لگاتحریک انصاف کی حکومت نے پولیس کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔رشوت لینے والے کو برداشت نہیں کیا جاتا اور سیاسی مداخلت تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس کا ثبوت بھی مل گیا۔ ملکپورہ ایبٹ آباد کے پی ٹی آئی ٹائیگرغلام مصطفےٰ کوکسی بات پہ پولیس نے پکڑا اور جیل بھیج دیا۔پی ٹی آئی والے ایبٹ آباد میں غلام مصطفےٰ کی گرفتاری پہ احتجاج کر رہے تھے۔اس سے پہلی حکومتوں میں غلام مصطفےٰ جیسے حکومتی پارٹی کے کارکن کو پولیس گرفتار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

میں نے ہزارہ کی حدود چھوڑیں تو سڑک کو دوحصوں میں تقسیم کر کے اس کے اوپر جمپ بنا کے ٹریفک گذاری جا رہی تھی۔رفتار ضرور کم ہو جاتی تھی لیکن روانی میں فرق نہیں پڑتا تھا۔ جونہی بابِ ہزارہ عبور کر کے میں پنجاب کی حدود میں داخل ہواتو رش کے باعث ٹریفک دونوں طرف رکی ہوئی تھی۔بجائے اپنے آپ کو کوفت میں ڈالنے کے میں نے گاڑی سڑک کنارے کھڑی کی اور ایک چائے خانے میں داخل ہو گیا۔چائے پی لی لیکن ٹریفک کا وہی حال تھا۔قریب جا کے دیکھا تو پنجاب پولیس کے گھبرو دھڑا دھڑ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف تھے۔وہ موقع کی مناسبت سے چھوٹے اور بڑے ہتھیار دونوں استعمال کر رہے تھے۔سب سے چھوٹا ہتھیار بیس روپے کا اور سب سے بڑا سو روپے کا نوٹ تھا۔ایک کار سوار جس کے پاس گاڑی کے دو نمبر کاغذات تھے۔میرے سامنے ایک سو روپے کا نوٹ دے کے ناکہ پار کر گیا۔پولیس والے نے ہل من مزید کا تقاضا بھی کیا لیکن کار سوار نے بجائے اس کی فرمائش پوری کرنے کے اسے ڈانٹ دیا۔

ایک آدھ دن راستے میں رک کے وزیرداخلہ کے شہر راولپنڈی کا رخ کیا ۔شہر کے ہر ناکے پہ خلقِ خدا ذلیل ورسوا تھی۔گھنٹوں قطاروں میں لگے لوگ پنے آپ کو کوس رہے تھے۔ فوجی جوان رائفل تانے ہر ناکے پہ موجود تھے لیکن اردگرد سے لا تعلق۔پولیس والے ناکے پہ موجود تھے اور ہر پانچویں چھٹی گاڑی کو ناکے کے نکے سے گذار رہے تھے۔انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ٹریفک میں پھنسے لوگوں کا کیا حشر ہورہا ہے۔میں نے پہلے ناکے پہ کھڑے ہو کے سوچا کہ اگر راولپنڈی پولیس کاایس پی ٹریفک ایک بار جھاری کس پہ ہزارہ پولیس کا ناکہ وزٹ کر لے تو شاید وزیر داخلہ کے گرائیوں کی تکلیف کچھ کم ہو جائے۔ایک گاڑی کی گنجائش والے ناکے پہ چار چار گاڑیاں گھسنے کی کوشش کر کے سارا راستہ روک رہی تھیں لیکن انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔ناکے سے گذرنے کے بعد بائیں طرف دو ٹریفک وارڈن دنیا ومافیھا سے بے خبر خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔دوست کے ڈیرے پہ پہنچا تو راولپنڈی کے قلب چٹیاں ہٹیاں میں دھماکے کی پٹی ٹی وی سکرین پہ چل رہی تھی۔وہ اسے پنڈی کا مضافاتی علاقہ قرار دے رہے تھے۔ یار دوستوں نے خبر دی کہ یہاں بھی پولیس دہشت گردوں کے خلاف جانفشانی سے لڑ رہی ہے۔روز گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ ہر روز افغانی پکڑے جا رہے ہیں۔ان سے تفتیش ہو رہی ہے۔ہر تفتیش کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مبلغ تیس ہزار روپیہ سکہ رائج الوقت جناب سٹیشن ہاؤس آفیسر یعنی ایس ایچ او صاحب کی جیب میں جاتا ہے
اور چار ضمانتی۔افغانی ایک دم پاکستانی لگنے لگتا ہے اور اسے باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ بلا شبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ان کے اقدامات سے مجھے بہت حوصلہ ملتا ہے۔ان اقدامات پہ عمل لیکن پنجاب پولیس نے کروانا ہے اور پنجاب پولیس کرپشن کی بیماری کی وجہ سے اس قابل ہی نہیں کہ وہ ان اقدامات پہ عوام سے عمل کروا سکے۔نواز شریف اپنے بھائی کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ مریم نواز کے بچوں کو تعلیم کے لئے بیرون ملک بھجوا کے انہوں نے ملک کو محفوظ نہیں کر لیا بلکہ اس کے لئے انہیں مجرموں سے پہلے پنجاب پولیس سے کالی بھیڑوں کو پاک کرنا پڑے گا۔پنجاب پولیس کے کچھ ایماندار اور انتہائی مستعد آفیسر ز کو میں جانتا ہوں اور دل سے ان کی قدر بھی کرتا ہوں لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ان میں سے ستر فیصد اعلیٰ آفیسرز نا اہل کرپٹ اور سفارشی ہیں اور ڈی ایس پی سے نیچے کے عہدیدار نہ صرف کرپٹ ہیں بلکہ باقاعدہ اس طرح کے احکامات کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلرز کے لئے بنائے قانون میں بجائے پراپرٹی ڈیلر کو لٹکانے کے شہباز شریف متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو لٹکانے کا اعلان کریں اور دس بارہ کو لٹکا دیں تو میرے خیال میں باقیوں کو کان ہوں گے۔

ایک جنازے پہ میں نے ایک ڈی ایس پی کی زیارت کی۔اسے دیکھ کے ہنسی روکنا مشکل تھا۔اس نے دو بیلٹ جوڑ کے اپنی کمر کے گرد لپیٹ رکھے تھے اور اس میں بھی وہ یوں لگ رہا تھا جیسے پانچ کلو کے شاپر میں بیس کلو آٹا ٹھونس دیا گیا ہو۔دوستوں نے بتایا یہ بڑا دبنگ ڈی ایس پی ہے۔ بلا مبالغہ وہ گوشت کا پہاڑ تھا اور ہلنے سے مجبور۔ایسے آفیسرز کی موجودگی میں دہشت گردی کے خلاف قائم ہونے والی عدالتیں کیا کر پائیں گی ۔یہ معمہ گنگا رام کی سمجھ میں بالکل نے آ رہاآپ کی سمجھ میں آئے تو ضرور بتائیے گا۔مجھے ان پولیس والوں کے لواحقین سے پوری ہمدردی ہے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ قوم کی نذر کیا لیکن اس میں زیادہ قصور دہشت گردوں کی بجائے ناکے پہ کھڑے شہیدوں کے ان ساتھیوں کا تھا جنہوں نے سو روپیہ لے کے بغیر کاغذات والی گاڑی کو شہر میں گھسنے دیا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سے گذارش ہے کہ دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لئے اگر وہ اپنے بھائی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پنجاب پولیس کے دبنگ افسروں کو کھڈے لائن لگا کے ایماندار آفیسرز کو ذمہ داریاں دیں اور نااہل بدمعاش اور بری شہرت والوں کو نشانِ عبرت بنائیں جنگ جیتنا آسان ہو جائے گا۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268900 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More