ہر گلی ماتم ہے یاں

جب چاروں جانب وحشتیں رقص کررہی ہوں، خوبصورت الفاظ منہ چڑا رہے ہوں،دانشوراپنی دانش کی دیگ چڑھائے خود ہی اس سے مستفید ہورہے ہوں، اہل جبّہ ودستار اہل ثروت کے خوشہ چیں بن جائیں،اہل قلم اپنے قلم سے ارباب اختیارکے قصیدہ خواں ہو جائیں،ادیبوں کواپنی محفلوں سے فرصت نہ ہو،شاعری حسن وعشق سے…وہ بھی مصنوعی… فرصت نہ پائے، ارباب اختیار محلات میں بیٹھ کر منصوبے بنائیں جن سے ٹھیکیدار فیض پائیں،پانی کے بلبلے جیسے دعوے روز مرہ کا معمول بن جائیں،ہم کالم نگار اہل حکم کے درباری بن جائیں،پبلک ریلیشننگ کی دکان سجالیں توپھریہی ہوتاہے۔خلق خدا کی آواز کوئی نہیں سنتا۔

میں آپ سے مخاطب ہوں،اس لئے کہ آپ داتاہیں،رب ہیں۔میں آپ سے بھیک نہیں مانگ رہا، نہ ہی یہ کہہ رہاہوں کہ آپ آگے بڑھیں۔ میں خود بھی ایسے موضوع پر قلم نہیں اٹھایاکرتا۔مجھے آئے دن ایسے خطوط کاسامنا رہتاہے اور میں اپنے پرلے درجے کے دنیادار دوستوں کوان کاموںپر مجبور کردیتاہوں۔کیا ایسی باتوں کوعوام میں اٹھاناچاہئے۔ ہم سب کیا اندھے ہیں کہ اپنے آس پاس نہیں دیکھ سکتے۔

کیایہ ضروری ہے کہ ایک تھیلی آٹادے کرتصویریں بنائی جائیں اورپھر اخبارات میں انہیں چھپوا کر دوسروں کودکھایا جائے۔ ایسی مریض ذہنیت پرمیں ہزار بارلعنت بھیجتاہوں۔ اب یہ خط آہی گیا ہے۔ ذرا اسے دیکھئے۔ آپ کے سینے میں پتھر ہے کیا؟میں نے اپنی ساری زندگی آوارہ گردی کی نذرکردی ہے،پتھر وں کاسینہ بھی چھوٹی چھوٹی بوندیں چھید ڈالتی ہیں۔ میں نے خود ایسے پتھر گھنٹوں بیٹھ کر دیکھے ہیں ۔ ہم پرکوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ پھرآپ کوئی ٹھیکیدارہیں کہ ہرایک کی مدد کے لئے دوڑیں۔ خود کودیکھئے،اپنے بچوں کودیکھئے،حج اور عمرے پر عمرہ کیجئے،کڑاہی کھائیے،بروسٹ اڑائیے،جسم وجاں کوپروان چڑھائیے،غرق کیجئے سماج کو۔

لیکن یہ جوحکمران اورسیاسی رہنماء ایوان اقتدارکے محلات اوردھرنوں،جلسوں میں مشغول ہیں ، یخ بستہ ہال میں بیٹھ کر جوس پینے یا پھراقتدارکے حصول کیلئے دن رات کوشاں،کبھی دھرنے یاکروڑوں اربوں کے اخراجات صرف کرکے بڑے بڑے جلسوں کے انعقادمیں عوام سے بلندوبانگ دعوؤںکے بعد اپنی اپنی مقبولیت کے نعرے بلندکرنا،آخرگپیں ہانکنے سے کب فارغ ہوںگے، یہ کس عذاب میں ہم مبتلا ہیں؟؟مجھے یاد ہے بچپن کاوہ بوڑھا انسان جوبسوں میں ٹافیاں بیچاکرتاتھا اورکہتاتھا۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی ،نہ مانے تو کر کے دیکھ
جنت میں ہے دوزخ بھی ،نہ مانے تو مر کے دیکھ

ہرچیزمیں تجارت،سودوزیاں…رشتوں میں تجارت،محبت میں تجارت، تعلقات میں تجارت…ہرطرف تاجرہی تاجر…سودخور تاجر…کیسا سماج ہے۔یہ مذہب میں بھی تجارت… ہرطرف لفظوں کی بازی گری،اعداد کا مکروہ کھیل۔ لیجئے یہ خط پڑھ لیجئے۔

’’میں پشاورکے ایک اسکول میں استاد ہوں۔ہمارے اسکول میں ایک بچہ ہے جس کانام اقبال ہے اوروہ پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ کچھ دن پہلے کلاس روم میں اس کو اچانک کچھ ہوگیا،رنگت کالی پڑگئی اور یوں لگاکہ اس معصوم کی آخری سانسیں چل رہی ہیں۔میں جلدی سے اس کونزدیک ہی ایک ڈاکٹرکے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے سکون کاانجکشن لگایا اورکچھ دوائیں دے دیں جس کاخرچہ میں نے اپنی جیب سے برداشت کیا۔جب ڈاکٹرسے فارغ ہوکر میں نے معصوم اقبال کواس کے گھرپہنچایاتواس کی والدہ نے اسے دیکھتے ہی سینے سے لگا لیااور پاگلوں کی طرح رونے لگیں۔جب میں نے ان سے اقبال کی بیماری کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے بتایاکہ اقبال کوتقریباً تین سال سے دل کی تکلیف کی شکایت ہے۔

پہلے توہمیں بھی اس بیماری کے بارے میں معلومات نہیں تھیں اور ہم اس کوصرف جسمانی کمزوری سمجھتے تھے لیکن جب گاؤں کے ڈاکٹرنے کہاکہ اس کاعلاج میرے بس کی بات نہیں ہے،اسے دل کے کسی بڑے ڈاکٹر کودکھائیے ۔ہم نے ایک سرکاری ہسپتال سے علاج معالجہ شروع کر وایا۔ ہسپتال میں دل کے بڑے ڈاکٹر صاحب سے ان کے ذاتی کلینک میںچیک اپ کروایاتوانہوں نے کچھ مہنگے ٹیسٹ بھی تجویز کیے جوکہ آٹھ ہزار روپے سے کم نہیں تھے۔گھرمیں جوکچھ تھا،فروخت کردیاپھربھی اتنی رقم ہاتھ نہیں آئی بالآخرادھارلیکریہ بل اداکیا۔ ٹیسٹ رپورٹس دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے دوائیاں لکھ دیںاوراقبال کی بیماری سے آگاہ کیا اورکہاکہ اقبال کے ہارٹ والوز ناکارہ ہوچکے ہیںلہندا انہیں تبدیل کرنا پڑے گا۔گارنٹی والے ہارٹ والوز پر تقریباً پانچ لاکھ روپے اوربغیرگارنٹی والے ہارٹ والوز پر تقریباً دولاکھ روپے خرچہ آئے گا۔

اقبال کے والد جن کانام سیدانورشاہ ہے ،ایک معمولی فوٹوگرافر ہیں،ایک کیبن میں بیٹھ کر دن بھر میں تین سو روپے مشکل سے کماتے ہیں۔ اکثردکان پر کام نہیں ہوتا تویہ بے چارے پارکوں میں گھوم پھرکرروزی کماتے ہیں۔اقبال کے علاوہ ان کی چھ بیٹیاں اور بھی ہیں اور اتنی کمائی میں گھر کے اخراجات،دکان ومکان کاکرایہ اور بجلی کابل مشکل سے اداکرپاتے ہیں۔ اقبال کی بیماری پرجتنی رقم صرف ہوگی وہ توانہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی، اس لئے انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی بیماری کواپنامقدرسمجھ کر خاموشی اختیارکر لی اور اپنی معصوم بیٹے کے علاج کی بجائے آنسو بہاتے ہیں۔میرااس گھرانے سے کوئی رشتہ نہیں ،اگررشتہ ہے تو انسانیت کااور اقبال سے ایک استادکا لیکن استاد کادرجہ بھی والدین سے مرتبے میں اونچا ہے''۔

میراتعلق بھی اسی معاشرے سے ہے جہاں غریب ماں باپ اپنے بچوں کے نام اپنے ملک کے مشاہیرکے ناموںپراس امیدپررکھتے ہیں کہ شائدان کی بھی قسمت ایسی ہی ہوگی اوراکثروالدین توبچپن سے ہی اپنے بچوں کو''جج وغیرہ ''کہہ کرساری عمرخوش گمانی میں مبتلارہتے ہوئے اس دنیاسے خودبھی رخصت ہوجاتے ہیں ۔انہیں کیامعلوم کہ اقبال، بلاول ،حمزہ اور مریم نام رکھنے سے توقسمت تبدیل نہیں ہوجاتی ۔ جس نظام میں ہم زندہ ہیں،یہاں توہرگلی میںکسی نہ کسی گھرایساماتم ہردن دیکھنے کومل رہاہے۔ خاطرجمع ر کھئے،میں آپ سے کچھ نہیں مانگ رہا،میں تواس ظالمانہ نظام کودفن کرناچاہتاہوں جہاں ہرگلی محلے میں ایسی دردناک کہانیاں جنم لے رہی ہیں ۔بس کبھی سوچئے، اگر اقبال آپ کااکلوتا بیٹا ہوتا تب آپ کیا کرتے۔اس نظام کوتبدیل کرنے کیلئے اپناکرداراداکرنے کیلئے میدان میں کب اتریں گے؟

میرازندہ اورباقی رہنے والارب نگہبان ہے،بے کسوں کا،وہی ہے بس،وہی۔ آپ کیوں نظریں چرا رہے ہیں، کچھ بھی تونہیں رہے گا،ہاں کچھ بھی تونہیں۔بس نام رہے گا اللہ کا۔
بے حسی شہر کی جب ایک حقیقت ٹھہری
بے سبب قصۂ پندار لئے پھرتا ہوں
جب کسی خواب کی ممکن نہیں تعبیر تو پھر
کس لئے دیدۂ بیدار لئے پھرتا ہوں
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350302 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.