سُسرائیل

جس طرح پاکستان نے ابھی تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ایسے ہی کسی بہو نے سُسرائیل کو دل سے نہیں مانا۔ اور جنہوں نے مان لیا ہے اُن کی نہ جانے کیا مجبوری تھی۔ ہر بہو چاہتی ہے کہ اُسے سُسرائیل میں ایک اعلیٰ مقام ملے اور عزت سے نوازا جائے۔ جبکہ سلطنتِ سُسرائیل کی ملکہ عالیہ جسے عرفِ عام میں ساس کے نام سے ہی جانا جاتا ہے نہیں چاہتی کہ اُس کی حکمرانی میں کسی اور کو شریک ٹھہرایا جائے۔بہو تو دور کی بات وہ تو اپنے میاں! مٹھو (سسر) کو بھی پر نہیں مارنے دیتی ۔اُسے بھی چوری تب ہی ملتی ہے جب وہ رٹے رٹائے جملے ادا کر کے اپنی بیگم یعنی ملکہ عالیہ کو خراج تحسین پیش کرے۔۔۔۔۔ ساس آمریت پسند ہوتی ہے جبکہ بہو جمہوریت کی حامی اور میاں! مٹھو (سسر) ۔۔۔اُسے تو مجبوراناً آمریت کا ہی ساتھ دینا پڑتا ہے ۔ اور رہی بات بیٹے (شوہر) کی ۔۔۔وہ ہوتا تو اپویشن میں ہے لیکن اُسے آمریت اور جمہوریت دونوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔ساس اور بہو کا اصل میں مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟ ساس چاہتی ہے کہ گھر میں وہی کچھ ہو جو وہ چاہ رہی ہے اور بہو یہ چاہتی ہے کہ جو کچھ وہ کر رہی ہے اُس میں کوئی ٹانگ نہ اڑائے۔ بس اسی چاہنے اور کرنے کے چکر میں دونوں کے میاں یعنی باپ (سسر) اور بیٹا(شوہر) چکراتے رہتے ہیں۔اس امریکہ اور افغانستان کی جنگ میں نقصان زیادہ تر بے چارے پاکستان کا ہی ہوتا ہے۔اگر کوئی امریکہ کا ساتھ دیتا ہے تو اُس پر خود کش حملے کیے جاتے ہیں اور اگر طالبان کی حمایت میں کچھ بول دے تو ڈرون کی بارش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

ساس اور بہو کے لڑائی جھگڑے کی کوئی وجہ نہ بھی ہو تو ڈھونڈ لی جاتی ہے۔ اگر ڈھونڈنے میں ناکامی ہو تو خواہ مخواہ پیدا کر لی جاتی ہے۔ساس کو ہمیشہ وہم رہتا ہے کہ بہو نے اُسے تعویذ ڈال کر اُس کے بیٹے کو اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے۔ جبکہ بہو سمجھتی ہے کہ اُس کا شوہر ابھی تک اپنی ماں کے اشاروں پر ہی چلتا ہے۔اسی لیے دونوں یعنی ساس اور بہو کوئی نہ کوئی بابا ڈھونڈ کر اپنی اپنی خواہش کے مطابق تعویذگنڈے کا بندوبست کیے رکھتی ہیں۔ان بابوں کا روزگار بھی انہی جنگجو خواتین کی وجہ سے ہی چمکتا ہے۔ ورنہ شاید ہی کوئی ایسا شوہر ہوگا جو اپنی بیوی کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے اپنے خون پسینے کی کمائی حرام کرتا پھرے۔البتہ شادی سے پہلے محبوبہ کو قدموں میں دیکھنے کے خواہش مند بہت سارے نوجوان اپنی کمائی حرام کر لیتے ہیں۔۔۔گھر کے کسی کونے کھدرے سے کاغذ کا کوئی ایسا ٹکڑا جس پر آڑی ترچھی لکیریں لگی ہوں ساس یا بہو میں سے کسی کے ہاتھ لگ جائے تو شک یقین میں بدل جاتا ہے۔ وہ کوئی تعویذ نہ بھی ہو تو اُسے سو فیصد تعویذ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لیے کہ یہ حملہ کس دشمن نے کیا ہے؟ اور اُس کا مقصد کیا ہے؟ایک دفعہ پھر بابا جی کی خدمت میں حاضر ی دی جاتی ہے۔بابا جی اپنے پیسے کھرے کرنے کے لیے اُس پرچی کے تعویذ ہونے کی تصدیق فرما دیتے ہیں۔ تصدیق کچھ اس انداز سے کی جاتی ہے کہ پاؤں تلے زمین نکل جاتی ہے۔ بابا جی فرماتے ہیں کہ آپ کے اوپر بہت خطرناک وار کیا گیا ہے۔ اور یہ وار آپ کے کسی اپنے ہی رشتہ دار نے کروایا ہے۔ وار کروانے والی عورت ہے۔ اُس کا قد چھوٹا ، ہونٹ موٹے، آنکھین اندر کو دھنسی ہوئی اور رنگ گندمی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ساس اوربہو کو ایک دوسرے پر شک تو پہلے ہی ہوتا ہے۔ اور جو شکل و صورت کا نقشہ بابا جی کھینچتے ہیں وہ ساس اور بہو میں سے کسی کا نہ بھی ہو تو وہی لگنے لگتا ہے۔ اس لیے یقین کرنے میں دیر نہیں لگتی۔

سُسرائیل صرف بہو کا ہی نہیں ہوتا داماد بھی اپنا ایک عدد سسرائیل رکھتا ہے ۔ لیکن داماد بہو کے برعکس اپنے سسرائیل کا بہت احترام کرتا ہے۔جب کبھی اُسے اپنے سسرائیل جانے کا موقع ملتا ہے تو وہ بڑے اہتمام کے ساتھ جاتا ہے۔اور بڑے احترام کے ساتھ اپنی ساس حضور سے ملتا ہے۔بیچارے شوہر کا سسرائیل کیسا بھی ہو اُسے اس سے کوئی خاص شکایت نہیں ہوتی۔ دنیا میں ایسے شوہر کم ہی ملتے ہیں جو اپنی ساس کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ایسے شوہروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہونے کی وجہ سے نمایاں نہیں ہوتی۔ایسے شوہروں کو بگاڑنے میں اصل میں بیویوں کا اپنا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے شوہروں کی پہلی گستاخی کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔اور دوسری کے بعد تیسری اور چوتھی پر وہ اپنے شوہر وں کو نتھ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔اور یوں شوہر کا چاکا کھل جاتا ہے پھر وہ جب چاہے اپنی ساس کی شان میں گستاخی کر دیتا ہے۔ بیویوں کو چاہیے کہ ایسے شوہروں کو اُن کی پہلی گستاخی پر سخت سے سخت سزا دیں تاکہ وہ دوسری کی ہمت ہی نہ کر سکیں۔

کچھ داماد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ساس راس ہی نہیں آتی اور وہ اپنی بیوی سے زیادہ اپنی ساس سے تنگ ہوتے ہیں۔ لیکن وہ آہیں بھرنے اور اپنی قسمت کو کو سنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ۔بیوی کے ڈر سے اپنی ساس کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے۔ میرے ایک دوست کی شادی کو ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ وہ انتہائی پریشان رہنے لگا تھا۔ میں نے ایک دن پریشانی کی وجہ پوچھی تو اُس کی آنکھوں سے آنسو اُمڈ آئے۔ میں سمجھا شاید بھابی نے پیٹائی کر دی ہے ۔میرے مزید استفسار پر گویا ہوا کہ بیوی تو چاہے جیسی بھی ہو بندہ گذارا کر ہی لیتا ہے لیکن اگر ساس بُری نکل آئے تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔۔۔میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ تم نے زندگی اپنی بیوی کے ساتھ گذارنی ہے یا اپنی ساس کے ساتھ۔۔۔؟؟؟ گہری خاموشی کے بعد اُس نے ایک لمبی سانس لی اور کہنے لگایار۔۔۔!!! میری دعا ہے کہ بیوی چاہے کیسی بھی ہو لیکن آدمی کو ساس اچھی ملنی چاہیے۔۔ ۔ وہ دعا اُس کے دل کی اتھاء گہرایؤں سے سے نکلی تھی۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100225 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.