قیامت آنے والی ہے……!

اکثریہ سننے میں آتا ہیکہ قیامت آنے والی ہے ، قیامت کی نشانیاں ظاہر ہو رہی ہیں وغیرہ۔غربت،بے روزگاری،بے انصافی اورظلم و زیادتی برداشت کرتی ہوئی بے بس عوام پر آئے روز قیامت برپا ہوتی ہے،اس کا ذکر نہیں ہوتا۔جب کسی ماں باپ کے سامنے اس کا بچہ چند روٹی کے ٹکڑوں کے لئے ِبلکتا ہے یا جب کوئی اپنے بچے کو بیماری کے سبب سرکاری ہسپتال میں لے جاتا ہے اور اسے ٹیسٹ اور ادویات کی بڑی بڑی لسٹیں ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے اور وہ غربت کے ہاتھوں مجبور کچھ نہیں کر سکتے، تو ان کا ہر پل قیامت کا ہوتا ہے۔جب کسی معصوم بچی کو کوئی ظالم اپنی ہوس کا شکار بناتا ہے اور اس کے ورثاء تھانوں کے چکر لگا کر مایوس ہو جاتے ہیں مگر انہیں انصاف کی جگہ ان مکروہ صفت لوگمسکراتے چہروں کے ساتھ دندناتے نظر آتے ہیں ،تب قیامت آتی ہے ۔ جب بے انصافی کی وجہ سے بے گناہ کئی سال جیل میں سڑتا ہے اور اس کے سامنے لوگوں کو نشے کی صورت میں موت بیچنے والے اپنی آزادی کا جشن مناتے ہوئے جیل سے نکل جاتے ہیں، قیامت کا نظارہ اس وقت بھی سامنے آتا ہے، جب زمین جائیداد کے لئے بھائی بھائی کو قتل کر دیتا ہے ،بیٹا باپ کے گلے پر خنجر چلاتا ہے۔انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔قیامت تو تب بھی آتی ہے جب جعلی ادویات سے مریض دم توڑجاتا ہے اور اس کا جرم کسی پر نہیں آتا۔اس وقت بھی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگر کوئی مضر صحت ادویات بناتا ہوا پکڑا جاتا ہے تو اسے سزا نہیں ہوتی، یہ مافیا اس قدرطاقت ور ہو چکا ہے کہ بڑے سے بڑے عہدیدار اس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔قیامت تو اس وقت بھی گزرتی ہے جب منچلے جوان ویلنگ کرتے ہوئے حادثات کا شکار ہوتے ہیں ،ان کے خاندانوں پر کیا گزرتی ہے کسی کوکوئی خبر نہیں ہوتی ۔بے حسی کا پتہ اس وقت چلتا ہے کہ فٹ پاتھ پر مانگنے والے بچے کو گاڑی کچل کر آگے نکل جاتی ہے۔ قیامت تو اس وقت بھی آتی ہے ،جب رشتہ نہ دینے پر کسی کی بیٹی کے منہ پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی قیامت کا سا ماحول ہوتا ہے جب کسی کا بچہ ذہین ہو اورپڑھنا چاہتا ہو ،مگر اس کے باپ کے پاس کتاب دلانے اور سکول یا کالج کی فیس دینے کے لئے پیسے نہ ہوں ۔قیامت اس وقت بھی آتی ہے، جب اس کی محنت ،لگن اور گھر والوں کی تمام مشکلات اس کے نظروں کے سامنے ہوں اور اسے نوکری ملنے کے کوئی امید نہ ہو۔ جب وزیر اعظم سے لے کر ایک کلرک تک بے حسی اور مفاد پرستی کا مجسمہ ہوں،وہاں قیامت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

ہمارا معاشرہ اخلاقی روایات سے تہی دامن ہو کر معاشرتی ادب ،آداب اور اقتدار کو بھلا چکا ہے۔ہم متحد نہیں رہے۔کسی کو اپنے سواکوئی فکر نہیں۔منفی قوتوں کے سحر نے پہلے سیاسی و مذہبی اقدار کو نگلا۔اب معاشرتی روایات کو کچلنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔عصر نو کا ہر باشندہ اپنی خواہشات کا مزار سجائے نظر آتا ہے۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں مگر عملی طور پر غیر مسلموں سے کہیں زیادہ منفی ہیں۔مسلمان تو ایک درخت کا پتا تک نہیں توڑ سکتا ۔معاشی طور پر غیر مساوی تقسیم نے اتنا نفاق بڑھا دیا ہے کہ ہر کوئی جانوروں سے بھی بد تر سوچ کا مالک بن چکا ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ جب کوئی نا کافی وسائل کی وجہ سے دوائی تک خریدنے کی سکت سے محروم ہو جائے گا۔ہمارے ہاں لوگوں کی سب سے بڑی بیماری بھوک اور جہالت ہے ،رہی سہی کسر عدم برداشت نے پوری کر دی ہے۔ ہر کوئی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کر رہا۔اسے کوئی سروکار نہیں کہ اس کے کسی عمل سے کسی کے گھر میں قیامت ٹوٹ رہی ہے، اُسے اپنی خواہش کی تکمیل کرنا ضروری ہے ،اس کے لئے چاہئے کئی جانیں کیوں نہ ضائع ہوجائیں۔

معاشی نا انصافی حادثات کو جنم دیتی ہے۔ حکمرانوں کو غریب کی غربت کا تدارک کرنا ہو گا۔جو لوگ غریب عوام کے کندھوں پر اپنی اقتدار کی خواہش کو پورا کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں ،ان کا تاریخ میں ایک سیاہ باب ہو گا۔ہمیں عوام کو متحدکرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے نظام کو ایک دم سے بدلنے کی کوشش کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ بدلنے کا لائحہ عمل بنانا ہو گا،کیونکہ اگر ایک ہیدفعہ سب بدلنا چاہئیں، تو خرابیاں بڑھنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ سب سے پہلے نیت صاف کرنے کی ضرورت ہے ۔اپنے مفادات کو پسِ پشت رکھ کر حقیقت میں قومی مفاد میں ہر فرد کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔تبھی اس روز کی قیامت سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.