دل آزاری

تحریر:صباء اکرم

رات کے اس پہر جب سب لوگ میٹھی نیند سو رہے تھے، ایک نسوانی وجود اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھ کہ چھت پر ایک کونے میں چھپ کر اپنے دل پر لگے گھاؤ سہلا رہا تھا۔ آنسو تھے کہ کسی طور بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ آخر کار ہچکیاں بندھ گئیں، خوب جی بھر کر رونے کے بعد دل کا بوجھ ہلکا ہوا، تو کیا دیکھتی ہے کہ مایوسی اس کے دامن کے ساتھ لپٹی کھڑی ہے اور آس اور امید ایک طرف منہ بنائے ناراض کھڑی ہیں کہ ہمیں خود سے جدا کیوں کیا۔ وہ لڑکی فوراً سنبھلتی ہے اور مایوسی سے اپنا دامن چھڑواتی ہے اور جب آس و امید کو منانے کے لئے آگے بڑھتی ہے تو پھر سے تکلیف دہ باتیں یاد آجاتی ہیں، جو تیز دھار چاقو کی مانند اس کے دل کو چیرتی ہیں۔ مایوسی کا غلبہ پھر سے چھانے لگتا ہے لیکن اب مایوسی کو خود پر غالب نہیں ہونے دینا ، یہیں سوچ کر وہ لڑکی مایوسی کو غصے سے جھٹک کر خود سے الگ کرتی ہے اور آس اور امید کو سینے سے لگائے لوگوں کی باتوں کو ذہن سے محو کر کے ایک نئے عزم کے ساتھ کامیابی کی سیڑھی پر قدم مضبوطی سے جمانے اور مشکلات کا مقابلہ ہمت سے کرنے کے لیے آگے بڑھتی ہے۔ لیکن دل میں کہیں کوئی کسک سی اٹھتی ہے کہ لوگ اپنی باتوں سے نازک دل پر کاری ضرب کیوں کر لگاتے ہیں؟ اپنے مفاد یا اپنے دل کی خوشی کے لیے؟

اﷲ نے انسان کو دوسروں کے دکھ درد اور احساسات کو محسوس کرنے کے لیے جذبات سے بھرا دل عطا کیا ہے۔ کچھ لوگ جن سے ہمارا خونی رشتہ ہوتا ہے وہ ہی ہماری دل آزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن بعض ایسے لوگ جنہیں ہم بالکل نہیں جانتے، زندگی کے کسی موڑ پر ہماری اندھیر زندگی میں شمع کی مانند نمودار ہوتے ہیں اور ہمارے وجود میں چھپے غموں کو نکال باہر کرتے ہیں۔ وہ ہمارے ہمدرد ہوتے ہیں اور ان سے ہمارا اگر کوئی رشتہ نہیں بھی ہو تو ایک رشتہ ہوتا ہے انسانیت کا۔ دل کو ٹھیس پہنچانے والے اور کامیابی کی سیڑھی سے نیچے گرانے والے لوگ اس دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو اپنی زبان اوراخلاق سے گری ہوئی حرکتوں سے ہمارے حوصلے پست کر دیتے ہیں ایسے لوگ دوسروں کو خوش ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کی خوشی میں خوش ہونے کی بجائے ان کی خوشیاں چھین لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی قسمت پر شاکر نہیں ہوتے وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہماری باتوں سے دوسروں کے نازک دل پر کیا بیتتی ہے اور کیا وہ ہماری باتیں برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔

آفرین ہے ایسے لوگوں پر جو دوسروں کی باتوں کے تیر اپنے دل پر بڑی بہادری سے نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ مزید کامیابی کی طرف پرواز بھی کرتے ہیں ، کیونکہ ان کے ساتھ ایسے سہارے ہوتے ہیں جو انہیں پستی کی طرف جانے سے روکتے ہیں ان میں سب سے زیادہ مضبوط سہارا ایک خدا کا ہوتا ہے جوخود پر کامل یقین رکھنے والوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ جسم پر لگے زخم اور روح پر لگنے والے زخموں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جسم پر لگنے والے زخم آہستہ آہستہ مندمل ہو جاتے ہیں اور آخرکار نشان بھی مٹ جاتے ہیں لیکن روح پر لگنے والے زخم کسی کو دکھائی نہیں دیتے وہ تا عمر تازہ رہتے ہیں اور ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ہم کبھی ان لوگوں کو بھول نہیں سکتے جو ہمارے دل کو کرچی کرچی کرتے ہیں اور اپنے پاؤں تلے بے دردی سے روند دیتے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو جو ہمارے مسیحا ہوتے ہیں جو ہمارے ٹوٹے دل کو سہارا دیتے ہیں ہمیں مشکلات کے سامنے ڈٹ جانے کی تلقین کرتے ہیں۔
ہم اپنے معاشرے میں موجود ایسے لوگوں کی اصلاح کر سکتے ہیں، جو دوسروں کے دلوں کو کھلونا سمجھ کر ان سے کھیلتے ہیں اور حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اگر ہم انہیں ان کے وجود کا احساس دلائیں اور ان کو ان کے احساس کمتری کے مرض سے نکالنے میں ان کی مدد کریں تو ہمارا معاشرہ ایک پر امن معاشرہ بن سکتا ہے جہاں ہر کوئی اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتا ہے۔

Saba Akram
About the Author: Saba Akram Read More Articles by Saba Akram: 1317 Articles with 1025168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.