حضرت عمرؓ کی شخصیت غیر مسلموں کی نظر میں

اسلامی سال 1435 الوداع ہو رہا ہے اور یکم محرم الحرام سے نئے ہجری سال کی ابتداء ہو رہی ہے۔ محرم الحرام کا چاند جب مغرب کی بلندیوں سے جھانکتا ہے تو اسلامی تاریخ کے کچھ خونی واقعات بھی ہمارے قلب و ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں۔ اسی ماہ کی پہلی تاریخ کو اسلام کے بطل جلیل، امت مسلمہ کے محسن اور نبی کریمﷺ کے عظیم المرتبت صحابی، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کا یوم شہادت ہے۔ حضرت عمرؓ فاروق کے منجملہ کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس ہجری تقویم کا آغاز حضرت علیؓ شیر خد کی مشاورت سے اپنے دور خلافت میں آپؓ نے ہی کیا جو آج تک امت مسلمہ میں رائج العمل ہے۔ آپؓ کے شخصی امتیازات، اسلامی خدمات، کارنامے اور دوران ِخلافت اصلاحی اقدامات اسلامی تاریخ کے سنہرے ابواب ہیں۔ دنیاکی ریت چلی آرہی ہے کہ اپنے تو اپنوں کی تعریفیں کیا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اصل تعریف وہ ہوا کرتی ہے کہ غیروں کی زبانیں بھی رطب الساں ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ عربی کا ایک مقولہ ہے کہ ”الفضل ما شہدت بہ الاعداء“ ”کہ اصل فضیلت وہ ہوا کرتی ہے کہ دشمن بھی جس کی گواہی دیں“۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ
خوش تر آں باشد کہ سر دلبراں
گفتہ آید از حدیث دیگراں
(اپنے محبوب کی تعریف جب رقیبوں کی زبانوں سے ادا ہو تو اصل میں وہی حقیقی تعریف ہوتی ہے) بیشمار مستشرقین اور غیر مسلم سکالرز نے جب غیر متعصب انداز میں حضرت فاروق اعظمؓ کی شخصیت کا مطالعہ کیا انہیں خراج عقیدت پیش کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس حوالے سے چند ایک معروضات حسب ذیل ہیں۔
1۔ مہاتما گاندھی جی نے 1935 ء میں ایک تقریر کی جو اخبار ”Young India“ میں شائع ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ”آؤ حضرت عمرؒ کی مثالی زندگی کی طرف متوجہ ہوں۔ وہ ایک وسیع و عریض سلطنت کے فرمانروا تھے لیکن ایک مفلس کی طرح زندگی گزارتے تھے“

اسی طرح 27 جولائی 1937 کو بمقام پونہ (انڈیا) میں دوران تقریر انہوں نے کہا کہ ”سادگی ارباب کانگرس کی اجارہ داری نہیں۔ اس حوالے سے میں رام چندر جی اور کرشن جی کا حوالہ نہیں دے سکتا۔ میں مجبور ہوں کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ کا نام لوں۔ وہ عظیم انسان تھے۔ وسیع علاقہ پر حکومت کے باوجود فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے“۔

2۔ ہندوستان کے ایک انقلابی مصنف ایم۔ این رائے جو کہ اشتراکیت کے بہت بڑے داعی تھے اپنی کتاب ”Historical Role of Islam“ کے صفحہ نمبر 6 پر لکھتے ہیں۔ ”سلطنت روم کی داغ بیل اگستس نے ڈالی تھی۔ سات سو سال کی فتوحات کے بعد ایک عظیم سلطنت بنی۔ لیکن حضرت عمرؓ کے دور میں چند سالوں میں قائم ہونے والی اسلامی سلطنت کے چند حصوں کے برابر بھی نہ تھی۔ ایرانی سلطنت ایک ہزار سال تک رومیوں کے سامنے ڈٹی رہی لیکن (حضرت عمرؓ کے زمانے میں) خلفائے اسلام کے سامنے انہیں اپنا سر جھکانا پڑا“ آگے چل کے وہ لکھتا ہے کہ ” اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کے بیت المقدس میں فاتحانہ داخلے کا منظر یہ تھا کہ مدینہ طیبہ سے شام تک کا سفر اپنے غلام کے ہمراہ ایک اونٹ پر کرتے ہیں۔ جس پر شاہانہ سامان کی کل کائنات اونٹ کے کھردرے بالوں کا ایک خیمہ۔ ستو،جو اور کھجوروں کا ایک تھیلہ۔ پانی کیلئے مشق اور ایک پیالہ تھا“
3۔ ایک انگریز سکالر John Denham Parsons اپنی کتاب ”Our son god or Christanity before Christ“ (ہمارا فرزند ِخدا یا عیسائیت قبل از مسیح ، مطبوعہ لندن 1895) کے صفحہ نمبر پچیس اور چھبیس پر لکھتا ہے کہ حضرت عمر ؓ عظیم شخصیت کے مالک اور فیاض تھے۔انہوں نے 637ء میں بیت المقدس فتح کیا۔ اس موقع پر ان کا طرز عمل عادلانہ اور کریمانہ تھا۔ عیسائیوں نے یوروشلم کو صلیبی جنگوں کے نتیجے میں 1099ء میں فتح کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں کو بھی وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا۔ چھٹی صدی کے مسلمان گیارویں صدی کے عیسائیوں سے زیادہ شائستہ اور مہذب تھے۔ ان صدیوں کے درمیانی عرصہ کے دوران جن لوگوں نے سائنس اور تہذیب و تمدن کو درخشان و تاباں رکھا وہ عیسائی نہیں بلکہ مسلمان تھے“ (یہ اور چند دیگر حوالہ جات بحوالہ ضیائے حرم فاروق اعظم نمبر صفحہ نمبر 383-385)
4۔ انسائکلو پیڈیا برٹانیکا 1888 کے صفحہ نمبر 563 پر اور 1907کے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 586 پر ’’Muhammadanism“
کے عنوان سے درج ہے کہ ”حضرت عمر دس سال تک مسلمانوں کے خلیفہ رہے۔ امور سلطنت پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ انہوں نے اپنے نبیﷺ کی تابعداری کا حق ادا کیا۔ وہ خود مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر امور سلطنت چلاتے لیکن ان کے دور میں وسیع و عریض فتوحات ہوئیں۔ ان کی شخصیت سحر انگیز اور طاقت ور تھی۔ انہوں نے قانون کی حکمرانی کو رواج دیا“
5۔ واشنگٹن ارون (Washington Irving) ایک امریکی مصنف ہے۔ اپنی کتاب ”Lives of Successors of Muhammad PBUH“ میں لکھتا ہے کہ حضرت عمر کی سیرت بتاتی ہے کہ وہ ایک عظیم انسان تھے جنہیں قدرت نے خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ عدل و انصاف کرنے والے تھے۔ وہ اسلامی فلاحی ریاست کے بانی ہیں۔ انہوں نے ایک بہت بڑی سلطنت پر قانون کی حکمرانی قائم کی“۔6 ۔ سر ولیم میور اپنی کتاب ”The Caliphate, its rise, decline and fall“ کے صفحہ 190 پرلکھتے ہیں۔”حضرت عمرؓ کی زندگی کے چند گوشے یہ ہیں۔ سادگی اور فرائض کی انجام دہی پر آمادگی ان کے دو راہنما اصول تھے۔ آپ کے نظم و نسق کے دو بہترین جوہر غیر جانبداری اور اخلاص تھے۔ آپ کا نظام عدل و انصاف بہت مضبوط تھا۔ سپہ سالاروں اور گورنروں کی تعیناتی میں آپ انصاف پسند تھے۔ کسی طرح کی رو رعایت سے آپ کا مزاج پاک تھا۔ آپ کا دل رقیق اور شفیق تھا جبکہ آپ کی دہشت سے مجرم کانپتے تھے۔ یہ حقیقت ان گنت شواہد پر مبنی ہے۔ بیوہ عورتوں اور یتیموں کی دستگیری کرتے۔ ان کے دکھ درد کو دور کر کے سکھ کا اہتمام کرنا آپ کا نصب العین تھا۔ان حقائق کے ثبوت کیلئے ایک مثال کافی ہے۔ قحط کا زمانہ تھا۔ دوران گشت آپ کی نظر ایک غریب عورت اور اس کے بھوک سے روتے بچوں پر پڑی۔ کیفیت یہ تھی کہ آگ جل رہی تھی۔ بچے ارد گرد بیٹھے تھے اور کھانے کیلئے کچھ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ تیزی سے خود چل کے قریب کی بستی میں گئے۔ کچھ کھانے پینے کا اہتمام کیا۔ واپس آکر خود گوشت پکایا اور اپنے ہاتھوں سے بھوکے بچوں کو کھلایا۔ جب بچے کھا پی کر ہنسنے اور کھیلنے میں مصروف ہو گئے تو پھر حضرت عمر وہاں سے تشریف لے گئے“

کالم کی تنگدامانی حائل ہے ورنہ بیشمار دیگر غیر مسلموں نے بھی آپ ؓکے کارناموں کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ منصف مزاج غیر مسلم بھی عظمت و سطوت فاروقی کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔
 
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218978 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More