سب سے بڑی بدقسمتی

کوئی شخص کتنا ہی بیمار ہو‘ اس کا سارا جسم بےکار ہوجاۓ، بولنے سننے‘ دیکھنے‘ چلنے‘ پھرنے کے قابل نہ رہے لیکن جب تک دل زندہ ہے وہ زندہ ہے۔

اسی طرح ہدایت کا معاملہ ہے کہ تمام تر گناہوں کے باوجود جب تک کسی کا دل مکمل زنگ آلود‘ سخت اورسیاہ نہیں ہوجاتا، انسان توبہ کرکے اپنے رب کے طرف لوٹ سکتا ہے اور رب کی رحمت میں داخل ہو سکتا ہے‘ ہدایت کے راستے اس کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔

بندے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا دل مکمل زنگ آلود ہوکر اتنا سخت ہو جائے کہ اس کا رب جو کہ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ہے اس کی دل کی سختی کی وجہ کر اس کی ہدایت کے دروازے بند کر دے۔
مسلم ملک و معاشرے میں رہنے والا کون ایسا مسلمان ہے جس کے کانوں میں آذان کی آواز نہیں پہچتی‘ لیکن کیسی بدقسمتی و بدبختی ہے اور دل کتنا سخت ہو گیا ہے کہ اللہ کی بندگی کے طرف‘ ابدی کامیابی کے طرف آنے کے بجائے مسجد کے دروازے پر ہی لوگ رب کی نافرمانیوں میں ‘ بے حیائیوں و بدکاریوں میں لگے رہتے ہیں۔

کتنی مسجدیں ایسی ہیں جن کے دروازے پہ ہی ویڈیوز شاپس ہیں‘ ہوٹلز و ریسٹورنٹس ہیں جن میں آذان و نماز کے اوقات میں بھی بلند آواز سے گانے‘ ڈرامے یا فلمیں لگے ہوتے ہیں اور بے شمار فرزندانِ اسلام نماز کو چھوڑ کر اُن سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض آذان و نماز کے اوقات میں اپنے گھروں میں ٹی وی اسکرین پہ نظریں جمائے بیٹھے رہتے ہیں یا دیگر فضولیات میں مگن رہتے ہیں۔

دل کے زنگ آلود ہونے کے اور دل سخت ہونے کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو گی۔

آج مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہے کہ اکثریت کے دل سخت ہوگئے ہیں‘ دل پتھر ہوگئے ہیں بلکہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوگئے ہیں کہ ہدایت قبول کرنے کی قابل ہی نہیں رہی۔ آج جہاں گمراہی کی باتیں عام ہیں تو ہدایت کے سرچشمے بھی کم نہیں۔

میڈیا کے ہر فورم پہ جہاں گمراہی پھیلانے والے شیطان کے چیلے سرگرم ہیں تو اللہ کے بندے بھی دلوں کو نرم کرنے کیلئے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی باتیں ہر لمحہ کئے جارہے ہیں۔

جہاں انٹرنیٹ پہ بے حیائی‘ فحاشی و دیگر اخلاق سوز مواد عام ہے وہاں عفت وعصمت‘ پاکیزگی و پرہیزگاری اور تقویٰ و دیگر اخلاقیات کی باتوں کی بھی کمی نہیں۔

اگر شرک و بدعات کی پرچار کرنے والے ہیں تو توحید‘ قرآن و سنت کی درس دینے والے بھی ہیں۔
لیکن افسوس کہ آج کے مسلمانوں کی اکثریت اِن ہدایت کے بہتے سرچشمے سے سیرآب ہونے کے بجائے گمراہی کے ہی خریداری ہیں۔ اکثراللہ کے نافرمانی میں حد سے نکل گئے ہیں۔
آج مسلمانوں کی اکثریت
سدھرنے کو تیار ہی نہیں۔
ہدایت لینے کو تیار ہی نہیں۔
اللہ و رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کیلئے تیار ہی نہیں۔

کیا آج کا مسلمان نہیں جانتا کہ اللہ و رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں ہی اس کی دنیا و آخرت کامیابی ہے ؟

کیا وہ نہیں جانتا کہ جزا و سزا کا ایک دن مقرر ہے جس دن اُسے اپنے ہر کرتوت کا حساب دینا ہے یا اُمتِ مسلمہ میں شامل ہونے کے باوجود اُس کا اُس دن پر ایمان ہی نہیں ؟ کیا وہ اسے (جزا و سزا کے دن کو ) محض ایک افسانہ سمجھ بیٹھا ہے ؟
اگر ایسا ہے تو اللہ کی باتیں بھی دو ٹوک ہے ‘ چاہے وہ مسلمان کہلائے یا کافر و مشرک:

وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿١١﴾وَمَا يُكَذِّبُ بِهِ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿١٣﴾كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿١٤﴾كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ﴿١٥﴾ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِيمِ ﴿١٦﴾ثُمَّ يُقَالُ هَـٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ﴿١٧﴾ ( سورة المطففين)
ترجمہ : ’’ اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے۔ جو جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتے رہے۔ اسے صرف وہی جھٹلاتا ہےجو حد سے آگے نکل جانے واﻻ (اور) گناه گار ہوتا ہے۔ جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ اگلوں کے افسانے ہیں۔ یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کےاعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔ ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سےاوٹ میں رکھے جائیں گے۔ پھر یہ لوگ بالیقین جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ پھر کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے وه جسے تم جھٹلاتے رہے "۔ (سورة المطففين)

کاش ہمیشہ کی رسوا کن عذاب سے بچنے کیلئے آج ہم سب اپنے دلوں کی سختی دور کر لیں۔
آج وقت ہے۔ آج اپنے دلوں کی سختی دور کرنے کا موقعہ ہے۔ اور یہ کوئی اتنا مشکل بھی نہیں۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا:
"جس طرح لوہے کو زنگ لگتا ہے اسی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ ‘‘
صحابہؓ نے سوال کیا:
"اے اللہ کے رسولؐ دل کے زنگ کو اتارنے کا کیا طریقہ ہے؟ ‘‘
آپؐ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"موت کو یاد کرنا اور قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا۔ ‘‘

اور آپؐ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس طرح بھی فرمایا:
"بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے‘ اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو وہ سیاہی دور کر دی جاتی ہے اور اگر توبہ کے بجائے گناہ پر گناہ کئیے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے‘ حتیٰ کہ اس کے پورے دل پہ چھا جاتی ہے۔ (مسند احمد، ترمذی، نسائی، امن ماجہ، ابن جریر، حاکم، ابن ابی حاتم، ابن حبان وغیرہ)۔ ‘‘

کیا یہ مشکل ہے کہ ہم ہر لمحہ اپنی موت کو یاد رکھیں جو کسی بھی وقت آسکتی ہے؟
کیا گناہ چھوڑنا آسان نہیں ؟
کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے گناہوں پہ نادم و پشیماں ہوں اور اپنے رب کے طرف لوٹ آئیں‘ توبہ کرلیں‘ سچی توبہ ‘ اپنی گناہوں کی معافی مانگیں اور اپنے پیارے رب اور پیارے نبی ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کے طرف لوٹ آئیں؟
فحش لٹریلیچر‘ اخلاق باختہ نیٹ سرفنگ‘ پراگندہ ڈرامے اور فلمیں وغیرہ کو چھوڑ کر اپنے رب کی لاریب کتاب قرآن میں دل لگائیں‘ اس سے ھدایت حاصل کریں اور اس میں اپنے دل کا اطمینان ڈھونڈھیں۔

أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴿٢٨﴾ سورة الرعد
ترجمہ : ’’ جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ ‘‘
Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 95 Articles with 62461 views اللہ کا یہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھنا‘ سمجھنا‘ عم.. View More