عالم اسلام کا محاصرہ …… فراست ایمانی کی ضرورت

لاتعداد مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑرہے ہیں، حوادث کا ایک بحر بیکراں ہے، ہرطرف غم و اندوہ کے جھکڑ چل رہے ہیں، واقعات و کیفیات انتہائی خوفناک ، بھیانک اور لرزہ خیز صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔ حالات ایک اندوہناک، تکلیف دہ اور دل سوز دھارے پہ جا نکلے ہیں،آنکھیں خون افشاں اورقلوب شدتِ غم سے نرخروں کو پہنچ چکے ہیں، سینوں میں عجیب وغریب حالات ووساوس ایک طوفانِ بے اماں کی شکل اختیار کرچکے ہیں، جہاں نظر دوڑاؤ، مصیبتیں ہی مصیبتیں ہیں، آلام ہی آلام ہیں، ہر کوئی حیران و پریشان ہے، سب کے حواس واعصاب ایک آفاتِ بلاخیز سے نبردآزما ہیں، ہر طرف مسلمان تکلیف دہ اور دردناک مرحلے سے گزر رہے ہیں، دنیا کے تغیرات وحادثات نے ان کو شل کردیا ہے، عالم اسلام پر خطرناک حد تک سکوت و جمود طاری ہے، امت مسلمہ انتہائی کڑے امتحان، کٹھن مراحل اور پرآشوب دور سے گزر رہی ہے، اور گردشِ ایام کے بھنور میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ قریب ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ سطحی سوچ والے ضعیف الاعتقاد لوگ یہ کہنے لگیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ہماری مددونصرت نہیں کی، ہمیں ترقی وکامرانی سے نہیں نوازا، کیا محض ہمیں رام کرنے کی خاطر وعدے کئے …… إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔

امت مسلمہ کو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں…… غرض تمام اطراف سے اغیار واعداء نے گھیرا ہواہے۔ یہ جنگ کے سرد و گرم پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے۔ اس کے افراد،مقدس مقامات اور دینی شعائر ہر جگہ ظلم وستم، استہزاء اور بے حرمتی کے شکار ہیں،مسلم قوم کا کھلے بندوں قتل عام ہورہا ہے، اور اسے سیاسی دھوکوں اور مکروفریب کا سامناہے،وہ چاہے اکثریت میں ہو یااقلیت میں، ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے،عرب و عجم مادی واقتصادی ، فکری اور عسکری پستی و انحطاط کا شکار ہیں اور اس کے اہل علم، مذہبی طبقہ اور عوام، بلاتفریق پٹ رہے ہیں ، قریب ہے کہ یہ گناہگار امت زندہ درگور کردی جائے اور اس کی تہذیب و تمدن کے نشان تک کو مٹا دیا جائے۔

اس وقت کرۂ ارض پر عالمِ اسلام کی مثال اس قریب المرگ مرد بیمار کی سی ہے، جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہو یا پھر اس کی مثال ایسی زبوں حال عمارت سے دی جاسکتی ہے، جو مسلسل روبہ زوال ہو اور اغیار اس پر اس طرح ٹوٹ پڑے ہوں جیسے بھوکے شیر بھیڑ بکریوں پر…… پہلے پہل انہوں نے اس کو معاشرتی، اقتصادی،تعلیمی، فکری، عسکری اور روحانی تمام اطراف سے گھیرا، پھر اس پر خونخوار بھیڑیوں کی طرح پل پڑے اور اس کو روندتے، کچلتے ، چیرتے پھاڑتے ہوئے اس کے حصے بخرے کرنے میں لگ گئے۔

عالم اسلام کا پچھڑا ہوا جسم میری آنکھوں کے سامنے ہے، اور میں جب اس کی طرف نظر اٹھا کے دیکھتا ہوں اور غور کرتا ہوں تو خدا کی قسم! اس کا کوئی عضو بھی صحیح سالم نہیں پاتا، وہ زخموں سے چور چور ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک خون میں لت پت ہے، ہر طرف خون ہی خون ہے، آنسو ہی آنسو ہیں، اور گوشت کے لوتھڑے بکھرے ہوئے ہیں، جب میں یہ منظر دیکھتا ہوں تو وحشت سے آنکھیں بہنے اور دل بیٹھنے لگتا ہے۔

اس پچھاڑے ہوئے جسم کو گولیاں چھلنی کررہی ہیں، خنجر کاٹ رہے ہیں، چھریاں ذبح کررہی ہیں، ڈنڈے برستے برستے ٹوٹ رہے ہیں، اس پر آگ برسائی جارہی ہے، گولہ باری ہورہی ہے، طیارے بمباری میں مصروف ہیں، میزائیل داغے جارہے ہیں، ٹینک آگ اگل رہے ہیں، توپوں کے گولے داغے جارہے ہیں، ٹارگٹ صرف اور صرف عالم اسلام کا مجروح جسم ہے۔

ہم زیادہ دور نہیں جاتے کہ آپ کو ان حکومتوں اور ممالک کے بارے میں بتائیں جو روسی استعمار کے غاصب پنجے میں تھے ، کہ وہاں امت مسلمہ کے بے گناہوں پر کیا گزری ہے، یا بوسنیا کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کی حرماں نصیبی کا تذکرہ کریں ،اور وہاں بہیمانہ طریقے سے حق زندگی سے محروم کئے جانے والوں کی اجتماعی قبروں کی لرزہ خیز داستان بیان کریں، یا افغانستان کے اندر جو کچھ مسلمان قوم پر گزر رہی ہے، اس کی تپش سے جھلسے ہوئے دلوں سے اٹھنے والا دھواں آپ کو دکھائیں ،یا فلسطین میں مسلمانوں کے لہو سے کھینچی گئی لکیر دکھائیں یا دنیا کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کی کہانی چھیڑیں …… بلکہ آئیے! ہم آپ کو اپنے پڑوسی ملک ہندوستان میں لیئے چلتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں پر کیا بیتی ہے…… اس سے ہماری مراد کشمیر بھی نہیں ہے، بلکہ ہم ہندوستان کے اندر کے وہ حالات آپ کو دکھانا چاہتے ہیں، جن سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت کے دعوائے جمہوریت کی قلعی پوری طرح کھل جاتی ہے اور اس مودی جی کی مسلم دشمنی اظہر من الشمس ہوتی ہے جس نے آج کل پاکستان کی سرحدات پر یلغار کی ہوئی ہے۔

آئیے! ہم ایک ہندو صحافی سے مسلمانوں کی ان قتل گاہوں اور ذبح خانوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، جہاں گجرات کے اندر خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ ہندو صحافی ’’ہرش مندر جی‘‘ جس نے اس وقت متأثرہ علاقوں کا دورہ کیا، اور انٹر نیٹ پر اپنی رپورٹ جاری کی، لکھتا ہے:

میں نے ایک کیمپ کا معائنہ کیا، جس کے اندر ۵۳ ہزار پناہ گزین انتہائی بری حالت میں تھے۔

میں نے ایک کیمپ میں ایک عورت دیکھی جس کے پیٹ میں آٹھ ماہ کا بچہ تھا، وہ انتہا پسند ہندو دہشت گردوں سے رحم کی اپیل کررہی تھی، جس کے جواب میں ان ہندوؤں نے اس عورت کے پیٹ کو چاک کرکے بچے کو نکال کر ان کے سامنے اس کے ٹکڑے کردئیے …… یہ واقعہ سن کر بے اختیار میری زبان پر یہ شعر جاری ہوگیا ؂
ألا موت یُباع فأشتریہ
فھذ ا عیش مالا خیر فیہ
’’اے کاش! موت قیمتاً فروخت کی جاتی تو میں اس کا خریدار بنتا، کیونکہ یہ بھی کوئی جینا ہے، جس میں کوئی خیر نہیں‘‘۔

حملہ آور ہندو ہرقسم کے سازوسامان سے مسلح تھے، مثلاً: گاڑیاں، موبائل فون، مہلک ہتھیار، آتشیں بم اور گیس کے سلنڈر وغیرہ اور ان کے ہاتھوں میں احمد آباد کے مسلمانوں کے گھروں کی فہرستیں تھیں،وہ ان گھروں میں داخل ہوکر اہل خانہ کا قتل عام کرتے، پھر لوٹ کھسوٹ کرتے، بعد میں اس گھر کو آگ لگادیتے۔

میں نے جب ان مصیبت زدہ لوگوں سے بات کی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے منہ سے الفاظ نہیں گویا خون اور پیپ کے لوتھڑے نکل رہے ہوں۔

میں نے ایک گھر کا معائنہ کیا، جس میں انیس مسلمانوں کو جمع کرکے ان پر اوپر سے پانی ڈالاگیا اور اس میں برقی رو چھوڑ دی گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ وہیں جل کر شہید ہوگئے …… آہ ! موت تجھے موت ہی آئی ہوتی!

میں نے ’’جو ہوپارہ‘‘ میں ایک چھ سالہ بچے کو دیکھا جس کے بہن بھائی اور ماں باپ ہندوؤں کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے۔ اس بچے کو مار مار کر وہ مردہ سمجھ کر چلے گئے، حالانکہ وہ بے ہوش تھا…… آپ کا کیا خیال ہے …… ایسے معصوم بچے کے بارے میں جس پر اس عمر میں اتنی بڑی قیامت ٹوٹ پڑی ہو……؟؟؟

کہتا ہے: ’’میں نے سناکہ ’’نرورا بھاٹیا‘‘ میں ایک پولیس اہلکار ایک مسلمان عورت کو اس کے تین سالہ معصوم بچے کے ساتھ بہلا پھسلا کر ایسی جگہ لے گیا جہاں انتہا پسند ہندو موجود تھے، اور انہوں نے ان دونوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا……۔

امان چوک کیمپ میں مسلمان دوشیزاؤں کی اس طرح آبروریزی اور بے حرمتی کی گئی کہ جسے آج تک نہ کسی کان نے سنا، نہ ہی کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کے دل میں اس کا خیال آیا ہوگا۔

اور اگر کوئی شخص ان تمام فسادات میں این جی اوز کی خدمات کے بارے میں سوچے تو اسے یوں لگے گا کہ گویا اس حوالے سے ہندوؤں کی کوئی تنظیم ہے ہی نہیں۔

قرآن مجید کے نسخوں کو جلایا گیا، اسلامی کتب کو ضائع کیا گیا اور مساجد و مدارس کو منہدم کیا گیا، جیسا کہ ہم آئے دن ٹیلی ویژن کی اسکرین پر دیکھتے اور رسائل و جرائد میں پڑھتے رہتے ہیں۔

مذکورہ بالا تمام واقعات تو گجرات کے فسادات کی چند جھلکیاں ہیں، جو کہ ایک ہندو صحافی نے لکھی ہیں، ورنہ مصائب وآلام اور حرماں نصیبی کی داستان بہت طویل ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جو کچھ ہندوستان کے اندر ہوا یا فلسطین وافغانستان میں ہورہا ہے، یہ سب اچانک یا یکبارگی نہیں ہوا، بلکہ یہ اسلام دشمن حکومتوں، تنظیموں اور تحریکوں کو پڑھایا ہوا سبق ہے، اور سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ بتوں کی پوجا کرنے والے ہندو اکھنڈ بھارت کا پرچار کررہے ہیں اور وہ بیت اﷲ پر بھی قبضے کا دعویٰ کرتے ہیں، بیت اﷲ کو صنم کدہ بنانا اپنا مذہبی حق سمجھتے ہیں، ابو جہل کو بت ہرستی کی وجہ سے اپنا مذہبی پیشوا بتاتے ہیں،انہوں نے اس سلسلے میں متعدد وفود اسپین بھیجے تاکہ ان کے نقش قدم پرچلتے ہوئے ہندوستان سے مسلمانوں کا صفایا کرسکیں جیسے انہوں نے اسپین میں مسلمانوں کی نسل کشی کی تھی۔

یہود عظیم تر اسرائیل کے لئے منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں اور مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرکے ’’ہیکل سلیمانی‘‘ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس کے لئے جو کچھ وہ فلسطین میں کررہے ہیں، اس کے دہرانے کی یہاں حاجت نہیں۔ قرآن مجید نے ان کی اسلام اور مسلمان دشمنی کو انتہائی مختصر جملے میں واضح کردیا ہے:
﴿ولتجدن أشد الناس عداوۃ للذین آمنوا الیھود والذین أشرکوا﴾ (المائدہ: ۸۲)
(بے شک آپ یہودیوں اور مشرکین (ہندوؤں) کو ایمان والوں کے سب سے زیادہ دشمن پائیں گے، لوگوں میں سے)۔

کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ابتدائے اسلام سے یہودی اسلام دشمنوں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہے ہیں، جیسا کہ تمام غزوات وسرایا بالخصوص غزوۂ خندق میں یہودومشرکین (ہنود) کا گٹھ جوڑ عیاں ہوا،ایک مرتبہ پھر یہودوہنود اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اکھٹے ہوئے ہیں اور تمام دنیا میں عیسائیوں کو بہلا پھسلا کر مسلمانوں کے خلاف لاکھڑا کر نے کی کوشش کررہے ہیں، اور مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، مختلف مذاہب اور قوموں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں، مودی کا واشنگٹن یاترا میں چہل پہل کچھ ان باتوں کی غمازہے،حتی کہ ان کی مکاریوں میں دجل وفریب سے بعض مسلمانوں تک کے پاؤں اکھڑ گئے اور بہت سے مسلمان کہنے لگے:
﴿متیٰ نصر اﷲ﴾ (البقرۃ: ۲۱۴)
(اﷲ کی مدد کب آئے گی)؟

اس تمام تر ناگفتہ بہ صورتحال کے ساتھ ساتھ مغرب یافتہ اور مہذب میڈیا بھی چیخ چیخ کر مسلمانوں اور عالم اسلام ہی کے خلاف ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ اسلام دشمنوں کو اکسار ہا ہے، اور اسلام ومسلمانوں پر گھناؤنی طعن و تشنیع کررہا ہے…… بلکہ کچھ عرصہ قبل بعض بدباطن مغربی صحافیوں نے تو یہاں تک کہا کہ مسلمانوں کے قبلہ کعبۃ اﷲ پر ایٹمی حملہ کردیاجائے …… جی ہاں! یہ لوگ صرف مسلمانوں کو ہی ختم نہیں کرنا چاہتے، بلکہ ان کے مقدس مقامات بالخصوص کعبۃ اﷲ کو بھی اس کرۂ ارض سے مٹانا چاہتے ہیں، تاکہ نہ کعبۃ اﷲ رہے اور نہ ہی اس نقطۂ اتحاد کی بنیاد پر ایک ہونے والے دنیا بھر کے مسلمان……۔

عالم اسلام اس وقت علاقائی، ملکی اور عالمی سطح پر فکری، اقتصادی، جنگی اور سازشی ہر قسم کے جال میں گھرا ہوا ہے، اور دشمن اس پر کتوں کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے انہیں نوچ رہے ہیں،اس کے برعکس مسلمان چھوٹا ہو یا بڑا، تحریک ہو یا حکومت، سب حیران وپریشان اور مبہوت ہیں، ان کے اندر اتنی طاقت و جرأت نہیں رہی کہ وہ آگے بڑھ کر کوئی کارنامہ سرانجام دیں، اس لئے کہ جہاد کا عمل انتہائی صبر آزما، پرمشقت اور اعصاب شکن تو ہے ہی، مگر اس کی تمام ممکنہ اور معروف راہیں جو مسدود کردی گئی ہیں، وہ اس سے بڑھ کر ہیں، خاص طور پر اس وقت جب کہ دشمن ہر طرح کے مہلک ہتھیاروں سے مسلح ہے، ضرورت کے تمام اسباب ووسائل سے مالا مال ہے اور ساتھ ساتھ عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف گٹھ جوڑ بھی ہوچکاہے، جب کہ مسلمان منتشر اور ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں اور وسائل واسباب کا بھی فقدان ہے، جس سے وہ کفار ومشرکین کا مقابلہ کرسکیں، مگر ان تمام امور کے باوجود مٹھی بھر اصحاب عزیمت مسلمان اپنے ان وسائل و معاملات سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں، جن کے لئے وہ ہرقسم کی قربانی دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں…… فلسطین، کشمیر وافغانستان کے مسائل پر تمام تر سرد مہری کے باوجود آج بھی مسلم امہ کے ایک گروہ میں ایک جذبہ اور ولولہ پایاجاتا ہے اور عملی جدوجہد بھی۔

بہرحال مسلمانو ں کے لئے یہ ایک ایسا نازک ترین مقام ہے، ایک ایسا خطرناک موڑ ہے جس میں عبقری ہستیوں اور نابغۂ روزگارشخصیات کا امتحان لیاجارہا ہے اور کھرے کھوٹے کا فرق معلوم ہونے کو ہے، عبقری وہ کہلاتا ہے جو ایسے پہاڑوں ، جنگلوں، صحراؤں اور بیابانوں اور وادیوں میں قوم کے لئے راستہ نکالے جس کے بارے میں ایک عام اور سطحی ذہن کا مالک سوچ بھی نہیں سکتا، چہ جائیکہ وہ اس پر عمل کرے۔ اس وقت مسلم امہ اپنی تاریخ کے ایک ایسے خطرناک ترین موڑ سے گزر رہی ہے، کہ اس وقت اس کی تھوڑی سی جنبش بھی اس کو تباہی کے گڑھے یا بام عروج تک پہنچا سکتی ہے، یعنی اِدھر یا اُدھر۔

آج امت مسلمہ کو ایک نابغۂ روزگار شخصیت اور صاحب فراست قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ چاہے وہ کوئی بادشاہ ہو ، صدر ہو، وزیر ہو، صحافی ہو، داعی اور مجاہد ہو یا مفکر…… جو امت مسلمہ کو اس خونیں حصار سے نکالے، جو کہ قریب ہے کہ امت کو تباہی کے کسی گہرے گڑھے میں پہنچا دے، بلکہ صرف ایک شخصیت کی نہیں شخصیات کی ضرورت ہے جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے میدان میں امت مسلمہ کی رہنمائی کرسکے، وہ میدان سیاسی ہو یا معاشی، مادی ہو یا روحانی، دعوت وتبلیغ کا ہو یا جہاد کا، فکری ہو یا صحافت کا اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کافی الفور کوئی حل نکالے اور ایسے دیرپا منصوبے تیار کئے جائیں جن سے اسلامی شخصیات اور باصلاحیت وطویل المیعاد ادارے اور تحریکیں معرض وجود میں آئیں اور ایسے پروگرام ترتیب دئیے جائیں کہ جن کے مقاصد اور اہداف زمانے کے بدلنے یا ان کے منتظمین اورمؤسسین کے بدلنے سے متأثر نہ ہوں اور ان کی بنیاد ایسے اصولوں پر رکھی جائے جن پر عمل کرکے وقت کی دیگر عالمی طاقتیں، تحریکیں اور حکومتیں کامیاب ہوئیں، جیسے کہ عالم عرب کے مشہور اسلامی مفکر ’’فتحی یکن‘‘ لکھتے ہیں:
’’ہمارے لئے اغیار کے ترقیاتی منصوبوں اور مختلف النوع انقلابی تجربات کا جانناضروری ہے اور ان کی ناکامی کے اسباب کو بھی، اگر کہیں وہ ناکام ہوئے ہیں‘‘۔ (المجتمع، شمارہ: ۱۴۹۳)۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اقلیتی یا اکثریتی معاشرے میں رہتے ہوئے تمام علوم جدیدہ، ٹیکنالوجی، تجارت، معیشت ، اقتصاد کے اسباب ووسائل سے مسلح ہوکر دعوت حق اور ہمہ جہت اصلاح و ارشاد امت کے لئے سردھڑ کی بازی لگادیں اور ان کا یہ عمل باقاعدہ اسٹرٹیجک اور مکمل منصوبہ بند ہونا چاہیے، ایک صالح اور مخلص قیادت کے زیر اثر ہو، کیونکہ تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ باقاعدہ منصوبے اور مخلص راہنما کے بغیر ہونے والا عمل بسااوقات مسلمانوں کی نسلی اور علاقائی تقسیم کا سبب بنتا ہے، نیز مسلمانوں کے ذہن میں یہ سوچ اور نظریہ راسخ ہوناچاہیے کہ اسلام ایک عالمی اورآفاقی مذہب ہے اور بغیر کسی تردد کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ عالم مکمل طور پر اسلام اور مسلمانوں کا ہے۔ اس میں ’’عالم اسلامی‘‘ اور ’’عالم غیر اسلامی‘‘ کا کوئی تصور نہیں ہے کہ …… ہر ملک ملکِ ما است کہ ملک خدائے مااست۔

بہرحال آخر میں ہم تمام مسلمان صحافیوں اور اہل قلم سے گزارش کریں گے کہ وہ امت مسلمہ کو موجودہ محاصرے کے اسباب اور اس سے نجات کے طریقوں پر اپنا زور قلم صَرف فرمائیں، بلکہ مسلمان کہلانے والے تمام افراد اور طبقات ان ناقابل رشک حالات میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بجالاکر عظیم مجرمانہ خاموشی سے نکل آئیں، جن کے متعلق شاعر کہتا ہے:
لمثل ھذا یذوب القلب من کمدِ
إن کان في القلب إسلام وإیمان
(ان حالات میں دل شدت غم سے ڈوبنے لگتا ہے، اگر اس میں ذرہ برابر اسلام اور ایمان ہو)
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814772 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More