حضرت خواجہ مخدوم علاؤالدین کلیری قدس سرہ العزیز تحریر:پیرمحمدامیرسلطان چشتی قادری اوگالی شریف

حضرت خواجہ مخدوم علاؤالدین کلیری قدس سرہ العزیز تحریر:پیرمحمدامیرسلطان چشتی قادری اوگالی شریف علی احمد صابر 592ھ تاریخ پیداءش وجھ شھرت آپ کی طبیعت میں جلال بہت زیادہ تھا آپ خلاف شریعت نہ خود چلے نہ دوسروں کو چلتا دیکھ سکتے تھے۔ بلکہ احکام اسلام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سختی سے ڈانٹتے تھے۔ جناب مخدوم اپنے ماموں کے لنگر انچارج تھے۔ فقیروں ، درویشوںاور دوسرے حاجت مندوں میںکھانا تقسیم کرتے سب کو خوب پیٹ بھر کر کھانا کھلاتے مگر خود بھوکے رہتے تھے 592ھ کوتوال ضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم جناب سید عبدالقادر جیلانی کے پوتے اور آپ کی والدہ محترمہ جناب فرید الدین مسعود گنج شکر کی حقیقی بہن تھیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ اس کے بعد آٹھ سال کی عمر میں آپ اپنے ماموں جان کی خدمت میں پاکپتن آ گئے۔ 603ہجری میں ان سے بیعت کی۔ جناب مخدوم کلیری اپنے ماموں کے لنگر کے انچارج تھے۔ فقیروں ، درویشوںاور دوسرے حاجت مندوں میں آپ ہی کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ سب کو خوب پیٹ بھر کر کھانا کھلاتے مگر خود بھوکے رہتے تھے۔ اسی رعایت سے آپ کو جناب فرید الدین نے صابر فرمایا جو آگے چل کر آپ کی شہرت کا سبب ہوا۔ جب علوم ظاہری و باطنی میں کمال حاصل کر چکے۔ تو آپ کو دین اسلام کی تبلیغ اور علوم دین کی اشاعت کے لیے جناب فرید نے شہر فیض بخش کلیر کو جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ پاکپتن سے کلیر تشریف لے گئے۔ اور وہاںپہنچ کر اپنے فرض منصبی کو ادا کرنا شروع کر دیا۔ابھی کلیر میں آئے ہوئے آپ کو تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ آپ کے کمالات علمی کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ایک خلق خدا آپ سے فیض پانے لگی۔ ایک مرتبہ آپ جمعةالمبارک کی نماز ادا کرنے کے لیے اپنے درویشوں کے ساتھ شہر کی جامع مسجد میں گئے۔ اور اس صف میں جا کر بیٹھ گئے جو شہر کے معززین کے لیے مخصوص تھی۔ جب شہر کے امراءو مشائخ آئے تو انہوں نے آ پ اور آپ کے درویشوں سے تعرض کیا۔ اور سختی سے کہا کہ یہ ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ یہاں سے اٹھ جا ؤظاہر ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں امیر و غریب ، شاہ و گدا سب برابر ہیں ۔ ان کا تعرض کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف تھا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ بات پسند نہ آئی۔ چنانچہ اس نے فوراً ہی انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ کہتے ہیں شہر کی جامع مسجد گر گئی۔ اور ہزاروں آدمی اس کے نیچے دب کے مر گئے اور شہر تمام کا تمام برباد ہو گیا۔ طاعون کی ایسی بیماری پڑی کہ بارہ بارہ کوس تک کوئی چرند پرند ، حیوان اور انسان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آپ کی طبیعت میں جلال بہت زیادہ تھا۔ یہی سبب ہے کہ آپ کے رعب و داب سے متعلق لوگوں نے طرح طرح کے قصے پھیلا رکھے ہیں۔ ہمیں ان قصوں سے مطلق غرض نہیں۔ ہمارے نزدیک ستائش کا پہلو تو یہ ہے کہ آپ خلاف شریعت نہ خود چلے نہ دوسروں کو چلتا دیکھ سکتے تھے۔ بلکہ احکام اسلام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سختی سے ڈانٹتے تھے۔ جب شہر کلیر برباد ہوا تو اس کے بعد لوگوں پر آپ کی روحانی قوت کی اتنی ہیبت چھا گئی۔ کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہوئے انہیں خوف آتا تھا۔ آپ کے خلفاءمیں جناب شیخ شمس الدین ترک پانی پتی آپ کے ممتاز خلیفہ ہیں۔ وہ آپ کی خدمت میں کامل بتیس برس تک رہے۔ اور کبھی آپ سے جدا نہیں ہوئے جب ترک پانی پتی آپ سے روحانی تحصیل کر چکے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ جا ؤسواروں میں جا کر ملازم ہو جا ؤاور دیکھو جس روز تمہاری کوئی دعا کسی کے حق میں قبول ہو جائے۔ سمجھ لینا کہ میں دنیا سے چلا گیا۔ چنانچہ ترک پانی پتی مرشد کے حکم سے شاہی فوج میں نوکر ہو گئے۔ اور سلطان علاو?الدین خلجی کے ساتھ چتور گڑھ کی مہم کو سر کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ سلطان نے بڑی کوشش کی اور ایک طویل عرصے تک قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا۔ مگر قلعہ فتح نہ ہوا۔ اسی دوران میں ایک روز رات کو ایسی آندھی چلی کہ تمام لشکر کے چراغ پٹ ہو گئے۔ مگر ایک چراغ جل رہا تھا جسے دیکھ کر سلطان کو بڑا تعجب ہوا۔ سلطان معلوم کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص خیمے میں قرآن پڑھ رہا ہے۔ وہ یہ ماجرا دیکھ کر چپ چاپ موؤدب کھڑا رہا ۔ جب ترک پانی پتی قرآن حکیم کی تلاوت سے فارغ ہوئے۔ تو سلطان کو باہر کھڑا دیکھ کر جلدی سے اس کی تعظیم کے لیے آگے بڑھے اور پوچھا کہ حضور نے اس وقت کیسے زحمت فرمائی۔ سلطان نے کہا میرا قصور معاف کر دیجیے۔ اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کیجیے۔ کہ قلع فتح ہو جائے۔ آپ نے یہ سن کر کہا کہ میں تو آپ کی فوج کا ایک ادنیٰ سا ملازم ہوں۔ مجھے ایسی مقبولیت کہاں نصیب ہے جو میری دعا قبول ہو جائے۔ آپ کو شاید کسی نے بہکا دیا ہے۔ سلطان نے اصرار کیا کہ نہیں ایسا نہ کہیے۔ آپ دعا کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔ چنانچہ ترک پانی پتی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ اللہ نے دعا قبول فرما لی۔ اور قلعہ فتح ہو گیا۔ قدرت خدا جناب مخدوم کلیری کی بات پوری ہوئی۔ جس روز ترک پانی پتی کی دعا قبول ہوئی۔ اسی روز جناب مخدوم کلیری کا انتقال ہو گیا۔ ترک پانی پتی کے دل نے اس واقعہ ناگزیر کی گواہی دی ۔ چنانچہ وہ کلیر پہنچے اور اپنے مرشد کے تجہیز و تکفین کے فرض کو سر انجام دیا۔ جناب مخدوم علاؤالدین کلیری صابری نے690ھ میں انتقال فرمایا۔ آپ کا مزار کلیر ضلع سہارن پور میں نہر گنگ کے کنارے پر واقع ہے۔ شہنشاہ نور الدین جہانگیر نے اپنے عہد میں آپ کے مزار کا گنبد تعمیر کرایاتھا۔ آپ کے مزار پر ہر سال عرس ہوتا ہے۔ تمام مذاہب کے لوگ بلا امتیاز و تخصیص کے اس میں شامل ہوتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی نے آپ کے عرس کی ایک کیفیت لکھی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ربیع الاول کی پہلی تاریخ سے چودہ تک جناب مخدوم کلیری کا عرس ہوتا ہے۔ جس میں دو لاکھ کے قریب مجمع ہوتا ہے۔ صابریہ سلسلے کے تمام مشائخ اور ان کی خانقاہوں کے سجادہ نشین اس میں شامل ہوتے ہیں۔ نذرونیاز اور لنگر کے طعام کے لیے کم سے کم پانچ لاکھ روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ رقم وہ ہے جو سال بھر تک ہر درویش اپنے مریدین سے لنگر کے خرچ کے لیے نذر ونیاز قبول کر کے جمع کرتا ہے۔ اور عرس کے موقع پر یہاں لا کر خرچ کر دیتا ہے۔ سینکڑوں بنیے گھی، قند، اور چاول وغیرہ مسلمان زائرین کے ہاتھ فروخت کر کے چند ہی دنوں میں مالا مال ہو جاتے ہیں۔ تقسیم طعام کی یہ صورت ہوتی ہے کہ ہر فقیر کے پاس بریانی کے چاولوں اور خمیری روٹیوں کا ایک انبار لگ جاتا ہے۔ جہاں تک وہ کھا سکتے ہیں کھاتے ہیں جو خشک ہو سکتا ہے اس کو سکھا کر بطور تبرک اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ صابریہ سلسلہ کے بعض بعض مشائخ ایسے بھی آتے ہیں ۔ جو ہزار ہزار روپیہ کا کھانا پکوا کر فقیروں اور غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ حلوے اور مٹھائیوں پر نیاز دلواتے ہیں۔ غرض عرس کی دھوم دھام کہاں تک بیان کریں۔ یہ موقع دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سماع کی محفلیں، فاتحہ خوانی، اور ذکر و شغل کے حلقے ، حال وقال اور وعظ و نصیحت کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں۔
ugalisharif
About the Author: ugalisharif Read More Articles by ugalisharif: 3 Articles with 9531 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.