علامہ اقبالؒ : اردو شاعری کے لامثال مجّدد

 انسان کی رقیق القلبی، نزاکتِ احساس اورتخلیقی تجسس کی بدولت فنونِ لطیفہ وجود میں آئے۔ لطیف خیالات ان نوزائید فنہائے دقیق کے واسطے شیرِمادرکی مانند ابتدائی غذاء کے طور استعمال ہوئے ۔اہل فن نے الفاظ کا دلکش وباریک اور رنگین لباس پہناکر غنائیت کے جھولے میں جھلایا۔ نیز اپنے تمام جوہر، فن شاعری پر نثار کردیئے۔ غرض ایک شفیق ماں کی طرح پالا پوسا۔ نتیجتاً اسکی محبت میں مبتلاء ہوئے۔ فن کو جو چیز بھی اچھی لگی، ا سکی خدمت میں پیش کردی۔وارفتگانِ شعروشاعری، اپنے ہی پروردہ فن کے عشق میں اس قدر مبتلاء ہوئے۔ کہ اپنے اس محبوب کی ہر پسند کے سامنے وجدانی شعور خوب وذشت کو بالائے طاق رکھا۔" شراب و شباب" کی دو لفظی معجون فنِ شاعری کی وارفتہ مزاجی کو بھاگئی۔ شعراء نے بھی اس معجون کا خوب استعمال کیا۔ کسی بھی روایتی شاعر کا دیوان کھولنے پر قاری محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ میخانے میں داخل ہوگیا۔ اکثرشعراحضرات بھی اس عجیب احساس کمتری کے شکار ہو گئے کہ روایتی ڈگر کو چھوڑنا دنیائے شعر میں خود کشی کے مترادف ہے۔ اور اس دنیا میں ابدی زندگی سے ہمکنار ہونے کے لئے لازم ہے کہ شاعر مے کو آب ِ حیات کا درجہ دے اس کی تعریف میں الفاظ کے دریا بہا دے ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ جوادیؔ کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ"بہترین شعروہی مانا جاتا تھا جو شراب کے مٹکے سے نکالا گیا ہو"۔ حسن پرستی کا رحجان بھی اردو ادب میں باقی تمام اہم موضوعات کے لئے سم قاتل ثابت ہوا دن رات حسن کی تعریف میں مشغول شاعر کو فرصت کہاں،کہ وہ دیگر مضامین کی طرف دھیان دے سکے۔ اکثر شعراء نے غم دوراں پر غمِ جاناں کو ترجیح دی۔ اور شراب کو آب حیات سے اولیٰ جانا۔ پیمانہ شراب، شاعری کاپیمانہ قرار پایا۔ روایت شکن غالب ؔنے بھی پیمانے کی اس بندش کو بارہامحسوس کیاہے۔
ہر چندکہ ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے، بادہ و ساغر کہے بغیر

ادب کی معروف صنف یعنی غزل حسن اور معشوق پرستی کے لئے وقف ہوئی۔ "حسن زن" کے متعلق جس قدر ہمارے یہاں ادب میں مدح سرائی ملتی ہے اُسکے مقابلے میں" خالقِ زَن " کے حمد کا حصہ عشرِعشیر بھی نہیں۔اہل ہنر نے اس صنفِ نازک کے ہر منفی و مثبت پہلو کوابھارا۔ صرف شاعری ہی میں نہیں تقریباً ہر فنِ لطیف میں یہ بات مشترک ہے کہ اہل ہنر کے تخیل کے شیش محل میں عورت کی جلوہ گری تمام موزوعات پر چھائی رہتی ہے۔ بقولِ اقبالؒ
ہند کے شاعرو صورت گرو افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

اس بات کو تسلیم کرنے میں اہل ِفن پس و پیش کرتے تھے کہ شاعرانسانی فکر کی اصلاح کا فریضہ اثر انگیز طریقے سے انجام دے سکتاہے۔ بقول علامہ اقبال شاعر سماجی جسم میں دیدہ بینا کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی اس سماج میں سے کوئی عضو درد میں مبتلاء ہو جائے۔ یعنی مفاسد کاشکار ہوجائے تو شاعرجذبہ و فن کا استعمال کرکے اپنے ہم نفس بشر کو نفسیاتی کمک فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن اب اگر شاعر خود ہی مفاسد اور خرابیوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ تو پھر عام افراد کا خدا ہی حافظ۔! اہل فن کا بگڑنا گویا پورے سماج کا بگڑنا ہے۔ اس بات کی تصدیق علامہ اقبال کے اس قول سے بھی ہوتی ہے "کہ کسی قوم کی معنوی صحت زیادہ تر اس روح کی نوعیت پر منحصر ہے جو اسکے اندر اسکے شعراء اور صاحبانِ فن پیدا کرتے ہیں۔

لھٰذا کسی اہل ہنر کا مائل بہ اغلاط ضمیر اور تصور ایک قوم کے لئے ایٹ لاؔ اور چنگیز ؔکے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے بشرطیکہ اسکی تصویریں یا اسکے نغمے جذب و کشش کی طاقت رکھتے ہوں۔" مندرجہ بالا قول کے حوالے سے بطورِ دلیل اردو ادب سے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ اردو شاعری کی معشوق نوازی کے منفی اثرات سے خودی،عزتِ نفس ،معرفتِ ذات اور تسخیرِ کائنات جیسے حیات بخش انسانی پہلؤں پربھی مردنی چھائی ہوئی تھی ۔فرضی محبوب کے سامنے خود کو حقیر گرداناایک شاعر کا شیوۂ ناگزیر بن گیا تھا اوروہ اس فرضی محبوب کو خد اسے بھی بڑا درجہ دینے میں نہیں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔ اس معشوق پرستی نے ایک فرد کی خودداری کو لتاڑنے میں جو کثر اُٹھا رکھی تھی اسے پوراکرنے کے لیئے تصوف کا "فلسفہ نیستی"کام آیا۔ باالفاظ دیگر شعراء کی معشوق پرستی اور صوفیاء کے فلسفۂ نیستی نے جب فرد کی ہستی اور خودی کے خلاف ایک مشترکہ محاذ کھولا۔ تو انسانی وجود کی عزت و توقیراورسربلندی کی روح موت کی دہلیز پر دہائی دینے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ گاہے بگاہے غالبؔ جیسا معشوق فریب عاشق اپنی خودداری کو چھوڑ کر عدم کو وجود پر فوقیت دیتا ہے۔ ؂
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

بڑی مدت سے اردو ادب کی روح چندمخصوص شعری مضامین کے قید میں تڑپ رہی تھی۔ اور ایک نجات دہندہ کی تلاش میں تھی۔ جو اسے ایک وسیع و عریض کائیناتِ فکر و خیال سے آشنااورایک پر وقار نظریہ ٔ حیات کے روبروکردیتا۔چنانچہ اردو شاعری کو وہ مطلوب نجات دہندہ علامہ اقبال کے روپ میں نصیب ہوا جس نے شاعری کے تمام ناقص معیارات پر سوالیہ نشاں لگا دیا۔علامہ اقبال سے قبل بھی" ادب برائے زندگی "کے تصور کی لہر تو اٹھی تھی۔ مگروہ لہر ساحل ِ مراد تک آتے آتے ہی دم توڑ بیٹھی۔ جس شان سے اس فن کے مقصد کی آبیاری علامہ نے کی اُس کی نظیر پوری ادبی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پائے گی۔

علامہ اقبالؒ نے فنِ شاعری کو ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔ اُ نہیں اس بات کاشدید احساس تھا کہ فن کار کی قربانی کے بغیر فن کا زندہ رہنامحال ہے گویا فنکار اپنی زندگی کو فن کے لئے وقف کردیتا ہے تب جاکر اسکی جاذبیت اور دلکشی برقرار رہ پاتی ہے۔ ؂
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

علامہ اقبال جیسے غائتی شاعر کے دل میں یہ بات کیونکر نہ کھٹکتی کہ اہل فن کا یہ خونِ جگر محض صنفِ نازک کے ہونٹوں کی لالی بن جائے۔ یا مئے آتشیں کی قوتِ خمار کو مزیدتقویت دینے کے کام آجائے اورصرف گلوں کی رنگت کو بڑھانے کے لئے استعمال میں لایا جائے تاکہ بلبل کی رنگین نوائی میں کچھ اور مٹھاس پیداہو۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ یہ وہبی نعمت یعنی فن و ہنر کی صلاحیت جو مخصوص افراد کے حصے میں آتی ہے بامقصدو ہدف ہو۔ اسکا استعمال انسانیت کی روحانی بقاء کی خاطر ہو۔ کیونکہ فن کا تعلق براہِ راست انسانی روح سے ہوتا ہے۔ اور سب سے زیادہ اسی روح کو متاثر کرتا ہے۔ اسے حیات بخش کام لیئے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ نظر کو فن کی مقصدیت سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ؂

اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن

جوشے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مقصود ِہنر سوزِحیاتِ ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دونفس مثلِ شرارکیا
شاعر کی نواہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا!

محض ذاتی ذوق ِطبع کی خاطر فن و ہنر میں جولانی طبع دکھانا اقبا ل کی نظر میں فعلِ لا حاصل ہے کیونکہ صاحب ِہنرغایت درجے کا تجرد پسند ہی کیوں نہ ہو وہ اپنے گردو پیش سے فرار اختیار نہیں کر سکتا ہے اور اس کے فنی نگارشات کے منفی و مثبت اثرات اسے مربوط معاشرہ پر لابدی طور مرتب ہوں گے اس لئے شاعر ہو یا کوئی اور فن کار اُسے ہمیشہ اجتماعیت کی فلاح کا خیال ذہن میں ہونا چاہیئے شاعر خوابیدہ ذہنوں کوجھنجھوڑ کر بیدار بھی کرسکتا ہے اور اپنی فنی ساحری سے ہوشیار مغز افراد کو بھی مسحور کرسکتا ہے۔یعنی اسکی منفی طرزِ فکر بہت حد تک انسانی معاشرے میں منفی خیالات پیدا کرسکتی ہے۔اپنے ہنر میں اعلی پایہ جاذبیت رکھنے والے ہنر مند افراد قومی بیداری کی عظیم ذمہ داری بطریقِ احسن نبھاسکتے ہیں ان کے پاس ایک ایسا اثر انگیز آلہ ہوتا ہے جو ان کو عام افرادسے ممتاز بناتا ہے۔ اجتماعی فرض یا قومی ذمہ داری سے دامن کش شاعر اپنی شاعری کے اعلیٰ نمونے پیش کرے تو کرے۔ لیکن علامہؔ اس طرح فن پاروں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ جنمیں پیغام ِبیداری کے بجائے حشیش و افیون کی تاثیر پائی جاتی ہو۔ اسی اصول کی بنیاد پر علامہ نے حافظِ شیرازی پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ اور اسکی شاعری کو افیون آلود قرار دیا۔

ہوشیار از حافظِ صہباگسار

جامش از زہرِ اجل سرمایہ دار
رہن ساقی خرقۂ پرہیزاو

مے علاجِ ہولِ رستاخیز او
نیست غیر از بادہ دربازاراو

ازدوجام آشفتہ تند دستارِ او
مفتیٔ اقلیم او مینا بدوش

محتسب ممنون پیرِ مے فروش
گوسفند است وفنا آموخت است

عشوۂ نازواداآموخت است
ضعف را نام توانائی دہد!!

سازِ او اقوام را اغو اکنند
بے نیاز از محفلِ حافظ گزر

الحدز از گوسفنداں الحذر
علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کو ہمیشہ مقصد کے تابع رکھا۔ انہوں نے ان تمام روایات سے انحراف کیا جن سے قومی ضمیر میں غلامی و تقلیدکی خوپیداہوجاتی ہے۔ وہ اپنی راہ آپ طے کرنے کے قائل تھے انہوں نے دامنِ شاعری کوفنی و فکری جوہر پاروں سے مالامال کر دیا۔ غالبؔ کے بعداقبالؔ ہی وہ شاعر ہے جس نے غزل کے دامن کو دقیق اور رنگارنگ فلسفی اور مذہبی افکار سے بھر دیا۔انہوں نے نیا اندازاور سوز و سازکو وجود بخشا کیوں کہ وہ اپنے تئیں دوسروں کی تقلید کو حرام تصور کر تے تھے
بلکہ اوروں کو بھی ایک الگ راہ وروش اپنانے کی تلقین کر تے رہے ؂
تراش از تیشۂ خود جادۂ خویش براہِ دیگراں رفتن حرام است

ہیئت کے اعتبارسے اقبا ل کسی نئی صنف ِ سخن کے موجد تونہیں بنے ،البتہ مو ضوع کے حوالے سے انہوں نے جدت و ندرت سے ضرور کام لیا ۔ گویا ظاہری تبدیلی کے بجائے اسکے جو ہر کو بدل ڈالا اور یوں شاعری کے جسد ِقدیم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اقبال کے یہاں بھی غزل ونظم کا وہی روایتی قا لب ہمیں نظر آتامگر اس میں جو فکر و خیال کا مواد ڈھلا ہوا ہے وہ یقینا اچھوتا اورغیر روایتی ہے ۔ذوق و شوق ،نیا شوالہ ،مسجدِقرطبہ ،ساقی نامہ ، ابلیس کی مجلس شوری،خضرِراہ،شکوہ،جوابِ شکوہ،شمع اور شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں،امامت ،وغیرہ جیسی نظموں میں حیات و کائنات ،موت ،ملی زبوں حالی ،عصری شعور،جیسے مسائل کو فنی مہارت کے ساتھ سمو دیا۔اس پر مستزاد یہ کہ نازک پیکرغزل کو بھی کچھ اس انداز سے فکروفلسفہ کے بھاری بھرکم موضوعات سے مالا مال کر دیا کہ اس کی نازک مزاجی بوجھل نہ ہوئی ـ؂
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں
حوروفرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں

وہی غزل جو اب تک محض قلبی واردات کے اظہار کا خوبصورت ذریعہ تھی اقبال کے ذہنِ رسا کی جولان گاہ بن گئی۔اور اس میں الٰہیات، قضاوقدر،نظریہ خودی ،موت و حیات کے تعلق سے مختلف اسرارمنکشف ہوے ؂
اگر کج رو ہے انجم آسمان تیرا ہے یا میرا مجھے فکرِجہاں کیوں جہاں تیرا ہے یا میرا
اسی کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
اسے صبحِ ازل انکار کی جرأ ت ہوئی کیوں کر کیا معلوم وہ رازداں تیرا ہے یا میرا

نئی تراکیب کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال نے اردو شاعری میں سالہا سال سے مستعمل ناگزیرتراکیب و اصطلاحا ت کابھی استعمال کیا۔ لیکن انہوں نے ان کی معنوی تاثیر ہی بدل دی۔ مثال کے طور پر لفظ "عشق"کو ہی لیجئے۔ اکثر شعراء کے یہاں عشق کی نوعیت مجازی دکھائی دیتی ہے۔ مگر اقبال کے یہاں یہ لفظ حقیقی معنوں میں نہ صرف جمالی بلکہ جلالی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ

عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام
عشق دم جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ ؐ

عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
اقبال نے کسی خیالی معشوق کے فراق میں آنسو نہیں بہائے بلکہ شاعرانہ سوز و گداز کی توسط سے دلِ مسلم میں حرارت و حرکت پیدا کرنے کی پیہم سعی کی۔ اورشاعری کو خواب و خیال کی دنیا سے نکال کر جہانِ حقیقی سے روشناس کرانے میں ایک اہم رول نبھایا۔ اُن کی شاعرانہ خطابت کا مدعا "عنقا" نہیں، جو دام ِو ہم و گماں میں بھی نہ آسکے،اُنہوں نے اپنے خیال کی بلند پروازی کے دوران ہمیں ایک مانوس وجود یعنی شاہین خوددارسے متعارف کرایا۔ علامہ چاہتے تو فکر و خیال کا ایک ایسا جہاں آباد کرتے جو سراسر حقیقی دنیا سے مختلف ہوتا۔لیکن ان کی ہمدردانہ اور مصلحانہ سوچ نے انہیں حقیقت کی دنیا میں رہ رہے انسان سے قطع تعلق کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی۔ یہی وجہ ہے وہ انسان کے بارے میں ہمیشہ متفکر رہے کہ کیسے اُسے کھوئی ہوئی عظمت پھر سے ہاتھ آجائے۔ اور یہ "ٹوٹاہوا تارہ ماہِ کامل" بن جائے۔ اقبال عارفوں کے عالم باطن کی معرفت بھی رکھتے تھے۔ اور خارجی اور سیاسی حالت سے بھی باخبر تھے۔ ہمیشہ اسی کوشش میں لگے رہے کہ عالم باطن اور عالم ظاہر کے مابین پیداشدہ خلیج کو کم کیا جائے۔ وہ ایک زاہد کی "ذکروفکرِ صبح گاہی" کی مخموری کیفیت کو ابلیس کی تیار کردہ "شراب طہور"کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔ اگر یہ زاہد اپنے عصری حالات سے نابلد ہو۔
مست رکھو ذکروفکر صبحگاہی میں اسے
پختہ ترکردو مزاجِ خانقاہی میں اسے

اقبال ظاہرپرست انسان کی نارسائی پر بھی نالاں ہے کہ اُس نے عالمِ بیرون کو ہی اپنا قبلہ و کعبہ بنا دیا۔ اور درون ِ خانہ ہنگاموں سے بے خبررہا۔ نتیجتاًروز نت نئے ستاروں پرکمندڈالنے کے باوجود اپنے باطنی عالم اکبر کو دریافت کرنے میں ناکام رہا ؂
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا

مابعد الطبیاتی نظریات کو تسلیم کرنے والا اقبال ہرگز عالم حقیقی کو سنوارنے کے عمل سے دست کش نہیں ہوتے۔ اور بحثیت شاعر رات اُسے اُسکی بے قراری کا سبب پوچھتی ہے۔

خاموش ہوگیا ہے تاررباب ہستی

ہے میرے آئینے مین تصویر خواب ہستی
بستی زمین کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے

یوں سوگئی ہے جیسے آباد نہیں ہے
شاعر کا دل لیکن ناآشناسکوں سے

آزاد رہ گیا تو کیونکر میرے فسوں سے

اور شاعر راتوں کو چھپ چھپ رونے کا سبب یوں بیاں کرتا ہے۔

میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں
مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سناؤں کس کو

تپش شوقِ نظارہ دکھاؤں کس کو
ضبطِ پیغامِ محبت سے جو گھبراتا ہوں

تیرے تابندہ ستاروں کو سناجاتاہوں

الغرض اقبال کی شاعری اصل میں عالمگیر مشینری ہے جسمیں اسلام کا پیغام ِحرارت و حرکت مضمر ہے۔ یہ درماندہ کارواں کے لئے صدائے جرس ہے۔
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 54491 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.