سیدشعیب احمد بخاری ، سابق وزیر حکومت سندھ سے ایک مکالمہ

(سابق صوبائی وزیر سے یہ انٹر ویو ۲۰۰۸ء میں گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد کے مجلہ ’رایت ‘‘ کے لیے لیا گیا جو مجلہ روایت ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا۔ اس ملاقات میں کالج کے ایک استاد عبد الرشید بھی شریک تھے)

کالج میگزین روایت کے گولڈن جوبلی نمبر میں ان شخصیات کے تاثرات شامل کرنے کی حکمت عملی بنائی گئی تھی جنہوں نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں تعلیم حاصل کی اور معاشرہ میں نمایاں مقام حاصل کیا ۔ جناب شعیب احمد بخاری صاحب کے تاثرات حاصل کرنا ہماری ترجیحات میں شامل تھا ۔ اس کی متعدد وجوہات تھیں ایک یہ کہ آپ اس کالج کے سابق طالب علم ہیں، دوم یہ کہ آپ لیاقت آباد ٹاؤن میں برسہا برس سے رہائش پذیر ہیں کالج بھی اسی ٹاؤن میں واقع ہے، سوم یہ کہ آپ سیاست کے میدان میں نامی گرامی شخصیت ہیں، ۱۹۹۰ء میں اورنگی ٹاؤن ،۱۹۹۳ء میں لیاقت آباد ،۱۹۹۷ء اونگی ٹاؤن،۲۰۰۲ء لیاقت آباد اور ۲۰۰۸ء لیاقت آباد سے انتخابات میں مسلسل رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں، چہارم یہ کہ آپ ۱۹۹۷ء میں وزارت محنت کے صوبائی وزیر رہے، ۲۰۰۲ء میں وزیر منصوبہ بندی رہے اور اب بھی صوبائی وزیر ہیں، سب سے اہم بات یہ کہ محترم شعیب بخاری صاحب کالج کے تمام معاملات میں خصوصاً کالج کی عمارت کی دوبارہ تعمیر میں کلیدی کردار کے حامل ہیں۔کالج میں منعقد ہونے والے متعدد پروگراموں میں آپ بطور خاص شرکت کرتے رہے ہیں۔ کالج کے پرنسپل پروفیسر سید خورشید حیدر زیدی صاحب نے آپ کو جب بھی کالج آنے کی دعوت دی آپ فوراً چلے آئے، اس کالج سے آپ کی محبت اور عقیدت قابل تعریف ہے۔

کئی ماہ قبل آپ سے درخواست کی تھی کہ کالج میگزین کے لیے آپ کے تاثرات قلم بند کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی بے پناہ مصروفیات اور ملک کے سیاسی حالات نے موقع نہیں دیا۔ بلاآخر وہ وقت آہی گیا ، ۲۸ مئی ۲۰۰۸ء کو آپ نے ہمیں اس مقصد کے لیے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی ، ہم نے موقع غنیمت جانا اور وقت مقرر ہ پر وزیر موصوف کے دفتر پہنچ گئے۔ تپاک سے ملے ، وقت ضائع کیے بغیر ہم نے سوالات کا آغاز کیا ۔ پیدائش ، ابتدائی تعلیم اور خاندان کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا :
میرا تعلق ہندوستا ن کے شہر الہٰ آباد سے ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد ہم نے ۱۹۵۷ء میں ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنا یا، یہاں لیاقت آباد میں رہائش اختیار کی اور آج بھی اسی جگہ رہ رہے ہیں۔ میں نے میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول ناظم آباد سے کیا ، اس وقت تاج الدین صاحب اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے ۔ میٹرک کرنے کے بعد ۱۹۶۰ء میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں داخلہ لیا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ میری رہائش لیا قت آباد میں تھی ، غربت تھی، اسکول اور کالج پید؂ل ہی آتے جاتے تھے۔ ڈی جے کالج ہمارے گھر سے بہت دور تھا ، بسیں بھی بہت کم چلا کرتی تھیں۔ گورنمنٹ کالج کا تعلیمی معیار بہت اچھا تھا۔ مرکزی حکومت کے تحت کالج کو قائم ہوئے بہت عرصہ نہیں ہوا تھا۔ میرے خیال میں اس وقت تدریس کا معیار بہت بلند تھا۔ باطن صاحب پرنسپل تھے احسن صاحب انگریزی کے استاد تھے ۔ سید احمد علی ( سید حسن علی کے بھائی ) ان کے پاس اس وقت ٹرمپ موٹر سائیکل تھی، نفیس صدیقی، منور حسن، اظہر الدین، سعید جعفری عقیل دانش(بی بی سی)، علاء الدین غوری (ایڈیٹر ڈان )، انور مقصود، شکیل احمد (اداکار)، شبیہہ فاروقی، مرزا عادل مصطفےٰ بیگ (اسلم بیگ کے بھتیجے) اور شہنشاہ حسین میرے کلاس فیلو تھے۔

کالج کے تمام اساتذہ بہت محنت سے پڑھایا کرتے تھے، طلبہ اساتذہ کا بے حد احترام کرتے، کالج میں بہت ہی اچھا ماحول تھا، ساتھ ہی طلبہ سرگرمیاں ، طلبہ میں اختلافات بھی تھے، اس دور میں این یس ایف ایک تنظیم ہوا کرتی تھی، ہم شہنشاہ حسین کے مخالف گروپ میں تھے، تمام تر اختلافات کے باوجود کالج میں درس و تدریس کا عمل متاثر نہیں ہوتا تھا، سر گرمیاں بھی جاری رہتیں اور تعلیم بھی۔اگر کبھی کوئی بات طلبہ کے درمیان ہوجاتی اور نوبت پولیس تک پہنچ جاتی تو اس وقت پرنسپل کا اس قدر رعب اور دبدبہ تھا کہ پرنسپل کی مرضی کے بغیر پولیس کالج کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتی تھی ، ایک دفعہ ہنگامہ اس قدر شدید ہوا کہ کالج کے کئی طلبہ کو پولس نے پکڑلیا، اور حوالات میں بند کردیا ، میں پہلی بار حوالات میں بند ہوا، اس وقت کالج کے پرنسپل نے ہی رہائی دلوائی۔میں ہاکی اور ہائی جمپ میں زیادہ دلچسپی لیا کرتا تھا۔اپنے کالج کی نمائندگی انہی کھیلوں میں کی۔میری خواہش تھی کہ انجینئر بنتا، این ای ڈی میں داخلہ مالی وسائل محدود ہونے کے باعث نہیں لے سکا۔

اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے جناب شعیب بخاری صاحب نے بتا یا کہ کیمسٹری کے ایک استاد نسیم اﷲ اور ریاضی کے نور اﷲ صاحب میرے آئیڈیل اساتذہ میں سے تھے۔لیکن سب ہی استاد اچھے تھے۔میں نے ۱۹۶۲ء میں انٹر اس کالج سے کیا اور بی اے نیشنل سے کالج ۱۹۶۶ء میں کیا ، ایل ایل بی ۱۹۶۸ء میں کیا ، معاشیات میں ایم اے ۱۹۸۱ء میں کیااسی سال سے وکالت کے پیشے کو اختیار کیا۔

رکن صوبائی اسمبلی اور وزیر کی حیثیت سے اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے جناب شعیب بخاری صاحب نے بتا یا کہ سابقہ دور حکومت میں جب کہ میں منصوبہ بندی کا وزیر تھا کراچی کے بے شمار کالجوں کی عمارتوں کی ازسر نو تعمیر کرائی، چھ نئے کالج تعمیرہوئے، ۱۹ سیکنڈری اسکولوں کی عمارت کو refurnished کرایا گیا، کراچی میں ریاض گرلز گورنمنٹ کالج وہ واحد کالج ہے جس کی عمارت نہ صرف نئے سر ے سے تعمیر ہوئی بلکہ اس میں لفٹ بھی نصب کرائی گئی ہے۔

آپ نے ملک میں تعلیم کی پستی کا ذمہ دار پورے معاشرے کو ٹھرایا، آپ کا کہنا تھا کہ اس میں والدین اور اساتذہ بھی برابر کے ذمے دار ہیں۔ہمارا طالب علم تعلیم برائے ملازمت حاصل کرتا ہے جب کہ تعلیم برائے علم ہونی چاہیے۔ ترقی کے لیے تعلیم کا عام ہونا بہت ضروری ہے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280875 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More