پرنسپل پروفیسر میاں عبدالرشید ،ایم ایس ڈاکٹر مشتاق اور میڈیکل کالجز

حضرت شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ پہلے وقتوں کی بات ہے کہ ایک شخص بڑا نفیس طبیعت اور دانا تھا وہ کسی کام کے سلسلے میں بازار گیا وہاں کسی پاگل نے اسے پکڑ لیا اور اسے تھپڑ مارنے لگا وہ شریف شخص خاموش رہا اور نا تو اسے روکا او رنہ ہی اس کی حرکت کا جواب دیا ۔لوگوں نے اسے چھڑایا اور ایک آدمی اسے کہنے لگا کہ یہ تم نے کیا حماقت کی کے مار کھاتے رہے تم اتنے بزدل ہو تمہیں اسے جواب دینا چاہیے تھا اور دو چار ہاتھ لگانے چاہیے تھے وہ شریف شخص کہنے لگا بات بزدلی کی نہیں حکمت کی ہے بہتری یہی ہے کہ ظلم سہ لیا جائے شرفاء کا یہی خاصہ رہا ہے کہ وہ ظلم تو برداشت کر لیتے مگر خود ظلم نہ کرتے تھے بلکہ زیادتی کرنے والے کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے ۔

قارئین ہم نے گزشتہ دو کالمز میں آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز اور طبی تعلیم پر چند گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں آج اس سیریز کی تیسری قسط آپ کے سامنے موجود ہے آزادکشمیر کے تینوں سرکاری میڈیکل کالجز اور ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں اس وقت ڈیڑھ ہزار کے قریب طلباء و طالبا ت طبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان میڈیکل کالجز میں کام کرنے والی فیکلٹی و دیگر ملازمین کی تعداد بھی ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے اگر ہم ان میڈیکل کالجز کے ساتھ منسلک ٹیچنگ ہاسپٹلز میں کام کرنے والے ڈاکٹر ز ،نرسز ،پیرا میڈیکل سٹاف اور دیگر تمام عملے کو بھی شامل کر لیں تو اس کی تعداد بھی تین ہزار سے زائد ہے گویا چھ ہزار سے زائد خاندانوں کا براہ راست تعلق اور انحصار ان میڈیکل کالجز اور تدریسی ہسپتالوں کے مستقبل پر ہے ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اعداد و شمار کی روشنی میں آپ کے سامنے دیانتداری کے ساتھ درست تصویر پیش کریں گے اور مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کی طرف بھی واضح اشارے اور گائیڈ لائنز اپنی ناقص عقل اور ماہرین کی ہمدردانہ و ماہرانہ رائے کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کریں گے اور فیصلہ ساز قوتوں کو بھرپور مدد فراہم کریں گے کہ کس طریقے سے وہ ایسے فیصلے کریں کہ جن کے نتائج ان میڈیکل کالجز ،ٹیچنگ ہاسپٹلز ،ہزاروں میڈیکل سٹوڈنٹس اور آزادکشمیر کے رہنے والے 45لاکھ کے قریب باشندوں کے لیے بہتر ہوں آج اس حوالے سے سب سے پہلے ہم کچھ باتیں آزادکشمیر کے پہلے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مشتاق چوہدری کی بے لاگ رائے کی شکل میں آپ کے سامنے رکھے دیتے ہیں یہ ہسپتال محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور سے وابستہ ٹیچنگ ہسپتال بھی ہے ۔

میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور آزادکشمیر ڈاکٹر مشتاق احمد چوہدری نے راقم سے آزادکشمیر کے پہلے لائیو ویب ٹی وی میں دیئے گئے خصوصی انٹر ویو میں بتایا کہ وزیر صحت آزادکشمیر سردار قمر الزمان کی طرح میں بھی ایک واضح موقف رکھتا ہوں کہ آزادکشمیر کے تمام سرکاری ہسپتالوں اور میڈیکل یونٹس میں علاج معالجہ کی غرض سے آنے والے لاکھوں مریض انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور فیسوں میں کیا جانا والا اضافہ ان غریب لوگوں پر ایک نا مناسب اور ناروا بوجھ ہے اس وقت میرپور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے ہر ماہ بیس لاکھ کے قریب رقم ان فیسوں کی مد میں اکٹھی ہوتی ہے اور حکومتی خزانے میں چلی جاتی ہے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ یہ لاکھوں روپے جس بھی ہسپتال سے اکٹھے ہوں غریب مریضوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے یہ رقم اسی ہسپتال کو دے دی جائے تا کہ انتہائی غریب لوگوں کی حقیقی مدد ہو سکے ۔میرپور ہسپتال میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج کے پروفیسر ز ،ایسوسی ایٹ پروفیسرز ،اسسٹنٹ پروفیسر ز اور دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ فیکلٹی کو اپنی خدمات فراہم کرنی چاہیں سر دست یہ لوگ میرپور نیوسٹی ہسپتال میں صرف او پی ڈی چلا رہے ہیں اور صبح نو بجے سے لے کر دوپہر دو بجے تک مریض دیکھتے ہیں کیونکہ وہاں پر پیرامیڈیکل سٹاف اور دیگر انفراسٹرکچر کی کمی ہے ۔ ڈاکٹر مشتاق چوہدری نے کہا کہ حاجی محمد سلیم بانی ادارہ امراض قلب کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی نے کروڑوں روپے اپنی ذاتی گرہ سے خرچ کر کے دل کے علاج کے لیے بہت بڑی بلڈنگ بنا کر دی ان کا یہ احسان ناقابل فراموش ہے اسی طرح ڈی ایچ کیو ہسپتال میں قائم انجمن فلاح وبہبود انسانیت نور فاؤنڈیشن برطانیہ کے زیر انتظام چلنے والا کڈنی ڈائلاسز سنٹر ہر سال کروڑوں روپے کے ڈائلاسز مفت کرتا ہے ڈاکٹر طاہر محمود ڈینٹل سرجن اور ان کی ٹیم انتہائی محنت اور دیانتداری سے یہ انتظامات کرتے ہیں اور اسی طرح تھیلا سیمیا سنٹر میں ایک سو پچاس سے زائد خون کے مرض میں مبتلا بچے بھی مستفید ہو رہے ہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کام کرنے والے یہ تینوں پراجیکٹس ہمارے لیے اثاثہ ہیں ڈائریکٹر الشفاء آئی ٹرسٹ راولپنڈی حاجی محمد صابر مغل ممبر برٹش ایمپائر چیئرمین آگرہ گروپ کا تعلق بھی میرے علاقے سے ہے اور انہوں نے الشفاء آئی ٹرسٹ کو جنرل جہانداد مرحوم کے دور میں جوائن کیا اور کروڑوں روپے کی امداد دی میں امید کرتا ہوں کہ حاجی محمد صابر مغل اور ان جیسی دیگر اہل دل شخصیات میرپور کے غریب عوام کی مدد کے لیے حاجی محمد سلیم کی طرح آگے آئیں گے تا کہ غریبوں کی مدد کی جا سکے ۔ڈاکٹر مشتاق چوہدری نے کہا کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور میں ہر روز ایک ہزار کے قریب مریض آتے ہیں محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج میرپور کا ٹیچنگ ہاسپٹل ہونے کی حیثیت سے اس ادارے میں ٹرشری لیول کی سہولیات ہونی چاہئیں اور میڈیکل فیکلٹی کو اس ادارے میں پورے پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح مروجہ ایس او پی کے تحت کام کرنا چاہیے انہوں نے کہاکہ انسانیت کی خدمت کے لیے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور کام کر رہا ہے ہمارے ہسپتال میں میڈیکل ،سرجری ،گائنی ،پیڈز ،کارڈ یالوجی ،ڈینٹل سرجری سمیت دیگر شعبے کام کر رہے ہیں جبکہ حال ہی میں آئی سرجری ،نیوسرجری ،آرتھوپیڈک سرجری کے شعبے میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے او ر یہ شعبے اب بہت اچھے طریقے سے منظم ہو چکے ہیں ہم اپنا کام دیانتداری سے جاری رکھیں گے ۔

قارئین یہاں پر بقول چچا غالب ہمیں یہ کہتے ہوئے کوئی جھجک نہیں ہے کہ
میں چمن میں کیا گیا گو یاد بستان کھل گیا
بلبلیں سن کر مر ے نالے غزل خواں ہو گئیں
جو مری کوتاہی قسمت سے مژگاں ہو گئیں
بس کہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیہ ءِ چاکِ گریباں ہو گئیں
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب؟
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں
جاں فزا ہے باد ہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہو گئیں
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

قارئین ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور جو کہ محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج میرپور کا ٹیچنگ ہسپتال بھی ہے اس کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مشتاق چوہدری کی نتہائی محتاط گفتگو تو ہم نے آپ کے سامنے پیش کر دی اب آئیے چلتے ہیں پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کی جانب جو اس میڈیکل کالج کے بانی پرنسپل ہیں پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید فورنسک میڈیسن کے پروفیسر ہیں یہ شعبہ یوں سمجھ لیجئے کہ پوسٹ مارٹم یعنی مردہ انسانوں سے تعلق رکھتا ہے اس شعبے میں پروفیسر ڈاکٹرمیاں عبدالرشید نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک نمایاں مقام اور حیثیت رکھتے ہیں پروفیسر میاں عبدالرشید کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان اور آزادکشمیر بھی متعدد میڈیکل کالجز نہ صرف خود منظور کروائے بلکہ کامیابی سے چلائے بھی اور آج بھی وہ ادارے قائم و دائم ہیں ہم نے پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید سے جب ان کا موقف لینے کی کوشش کی تو ہمیں یہ سمجھ آیا کہ وہ کسی بھی شخصیت پر کسی بھی قسم کا الزام لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن میڈیکل کالجز کے حوالے سے نہ صرف خود گہری تشویش میں مبتلا ہیں بلکہ عوامی جذبا ت کا بھی ادراک رکھتے ہیں ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید ایم ایس ڈاکٹر مشتاق چوہدری یا کسی اور شخصیت پر کسی بھی قسم کا الزام لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں البتہ باتوں باتوں میں ہم نے ان سے جو نتائج اخذ کیے وہ آپ کے سامنے رکھے دیتے ہیں پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید ہمارے اندازے کے مطابق یہ خیال کرتے ہیں کہ میڈیکل کالج میں کام کرنے والے پروفیسرز کو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور میں کام کرنے کے لیے مناسب اور با عزت ماحول فراہم کرنے میں رکاوٹ پیش ہیں نہ تو ان کے لیے وہاں پر چیمبرز اور آفسز موجود ہیں اور نہ ہی ان کو وہ عزت فراہم کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے جس سے پاکستان بھر کے پروفیسرز مستفید ہوتے ہیں ہم نے پروفیسر عبدالرشید میاں کی گفتگو سے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ اپنے چند پروفیسرز کی باتوں سے بھی نا خوش ہیں اور اس وقت صرف اور صرف ایک مقصد کے لیے اس تمام ناگوار صورتحال کو برداشت کر رہے ہیں کہ کسی طریقے سے پی ایم ڈی سی کی ہدایات کے مطابق نہ صرف میڈیکل کالج کی فیکلٹی کو پورا کر لیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تدریسی ہسپتال میں میڈیکل سٹوڈنٹس کی تربیت کے لیے پیدا ہونے والی ڈیڈ لاک کا بھی خاتمہ کیا جائے پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید اس ایک پل صرا ط سے گزر رہے ہیں عملی طور پر پوری کشمیری قوم کی حالت یہ ہے کہ ٹرشری لیول کی سہولیات اس وقت آزادکشمیر کی ایک بھی تدریسی ہسپتال سمیت کسی بھی ادارے میں موجود نہیں ہیں ہارٹ اٹیک سے لے کر دیگر پیچیدہ بیماریوں کے علاج کے لیے ہر روز سینکڑوں کشمیری اسلام آباد راولپنڈی اور لاہور سمیت دیگر بڑے شہروں میں نا صرف دھکے کھاتے ہیں بلکہ انتہائی مشکل معاشی حالات سے دوچار ہوتے ہوئے مسائل سے نبرد آزما رہتے ہیں اگر یہی ٹرشری لیول کی سہولیات ان میڈیکل کالجز سے منسلک تدریسی ہسپتالوں میں میسر آجائیں تو پوری کشمیری قوم کے لیے آسانی پیدا ہو سکتی ہے یہاں آپ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے ہم بتاتے چلیں کہ آزادکشمیر کے ہیلتھ بجٹ کے تین ارب روپے میں سے دو ارب دس کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں صرف کیے جاتے ہیں جبکہ صرف پندرہ کروڑ کے قریب رقم ادویات کی فراہمی کی مد میں خرچ کی جاتی ہے اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ کشمیری قوم کے علاج معالجہ کے لیے ہماری تمام سیاسی قیادت بشمول حکومت و اپوزیشن کس قدر مخلص ہیں غریب کے گھر میں تو یہ حالت ہے کہ بیماری اور فاقہ ایک ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہیں اور اکثر اوقات کسی نہ کسی جان کا نذرانہ لے کر ہی ٹلتے ہیں دوسری جانب سابق وزرائے اعظم و صدور سمیت مختلف وزیروں کے ناموں کی ایک لسٹ ہمارے پاس موجود ہے جس میں ایک سے بڑھ کر ایک زکواۃ کھانے والا غریب لیڈر قوم کے کروڑوں روپے اپنے علاج کے لیے خرچ کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتا مخلوق خدا حکمرانوں کا کنبہ ہوتی ہے اور ان کی رعایا کہلاتی ہے یہاں سمجھ نہیں آتا کہ کنبے کا سربراہ اپنی رعایا کے حقوق کے متعلق اﷲ کے حضور کیا جواب دے گا آج کے کالم کو ہم اس امید پر مکمل کر رہے ہیں کہ ہماری ان تمام گزارشات کو سیاسی اختلافات کے لیے ’’ تیلی ‘‘ لگانے کی کوششوں سے ہٹ کر دیکھا جائے گا اور پنتالیس لاکھ کے قریب غریب کشمیریوں کے حال پر رحم کرتے ہوئے میڈیکل کالجز اور تدریسی ہسپتالوں کی مدد کرتے ہوئے ڈیڈ لاک کا خاتمہ کیا جائے گا تا کہ یہ ادارے غریب عوام کو صحت کی معیاری ترین سہولیات کشمیر ہی میں فراہم کر سکیں ہمار ے کالم کا مداح اور مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے امید ہے کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید میرپو رمیڈیکل کالج اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور کی انتظامیہ میں موجود فاصلوں کو ختم کروانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے تا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل دوبارہ آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز پر کسی بھی قسم کی پابندی لگانے سے گریز کریں یہ وقت کی آواز اور ضرورت ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ان میڈیکل کالجز کے ساتھ حد سے زیادہ قلبی اور جذباتی وابستگی رکھتے ہیں ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک پاگل نے دوسرے پاگل کو فون کر کے کہا
’’ یار کل اخبار میں میرے مرنے کی خبر آئی تھی تم کیوں نہیں آئے ‘‘
دوسرے پاگل نے سنجیدگی سے جواب دیا
’’ در اصل کل میری برسی تھی اس لیے نہیں آسکا ‘‘

قارئین یوں لگتا ہے کہ ’’ آوے ای آوے ‘‘ اور ’’جاوے ای جاوے‘‘ کے سیاسی ماحول نے ہمارے رویوں کو وہ رخ دے دیا ہے کہ ہم ذرا سا بھی اختلاف رائے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے او ر رائے کے مختلف ہونے کو دشمنی سے تعبیر کر لیتے ہیں یہ منفی رویے ہیں آئیے کوشش کریں کہ مثبت انداز فکر اپنائیں ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336226 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More