معذور ڈاکٹرز اور میڈیکل کالجز

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں نے کچھ اونٹ خریدے اور ان کو بیت المال کی چراگاہ میں چھوڑ آیا جب وہ خوب موٹے ہو گئے تو میں انہیں ( بیچنے کے لیے بازار ) لے آیا اتنے میں حضرت عمر ؓ بھی بازار تشریف لے آئے اور انہیں موٹے موٹے اونٹ نظر آئے تو انہوں نے پوچھا یہ اونٹ کس کے ہیں لوگوں نے انہیں بتایا کہ یہ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کے ہیں تو فرمانے لگے اے عبداﷲ بن عمر ؓ وا ہ واہ !امیر المومنین کے بیٹے کے کیا کہنے ! میں ڈورتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا اے امیر المومنین کیا بات ہے ؟آپ نے فرمایا یہ اونٹ کیسے ہیں ؟میں نے عرض کیا میں نے یہ اونٹ خریدے تھے اور بیت المال کی چراگاہ میں چرنے کے لیے بھیجے تھے ( اب میں ان کو بازار لے آیا ہوں ) تا کہ میں دوسرے مسلمانو ں کی طرح انہیں بیچ کر نفع حاصل کرو ۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہاں بیت المال کی چراگاہ میں لوگ ایک دوسرے کو کہتے ہونگے امیر المومنین کے بیٹے کے اونٹوں کو چراؤاور امیر المومنین کے بیٹے کے اونٹوں کو پانی پلاؤ( میرا بیٹا ہونے کی وجہ سے تمہارے اونٹوں کی زیادہ رعایت کی ہو گی اس لیے ) اے عبداﷲ بن عمر ؓ ان اونٹوں کو بیچو اور تم نے جتنی رقم میں خریدتے تھے وہ تم لے لو اور باقی زائد رقم مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کرا دو ۔

قارئین انتہائی حساس موزوں پر آج آپ کے سامنے کچھ گزارشات درد دل کے ساتھ پیش کرنا چاہتے ہیں ہم نے آج سے کچھ عرصہ قبل میڈیکل کالجز کے ایشو پر ایک بہت بڑی قلمی و ذہنی جنگ لڑی تھی او ر اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس میں کامیابی بھی نصیب ہوئی تھی آج اسی موضوع پر چند نئے پہلو اجاگر کرنا مقصود ہیں اور آج کی گفتگو کا بھی ماضی کی طرح کسی بھی قسم کی ذاتی منفعت کا حصول ہر گز مطمع نظر نہیں ہے آزادکشمیر میں اس وقت میرپور ،راولاکوٹ اور مظفرآباد میں تین میڈیکل کالجز کام کر رہے ہیں جو سرکاری شعبے کے میڈیکل کالجز کہلاتے ہیں جبکہ میرپور میں محی الدین میڈیکل کالج کے نام سے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج بھی کا م کر رہا ہے یہ چار میڈیکل کالجز آنے والے وقت میں آزادکشمیر کو دنیا کے طبی و تعلیمی نقشے پر نمایاں کرنے میں اہم ترین کردا ر ادا کریں گے ۔اپنے پڑھنے والوں کی دلچسپی کیلئے ہم بتاتے چلیں کہ کسی بھی میڈیکل کالج کے دو نصابی حصے ہوتے ہیں ایک نصابی حصہ کتابوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور دوسرے نصابی حصے کا تعلق پریکٹیکل یعنی عملی سبق کے ساتھ ہوتا ہے کتابی تعلیم کے لیے پہلے دو سالوں کے دوران طلباء و طالبات کو انسانی جسم کے متعلق اہم ترین معلومات فراہم کی جاتی ہیں جبکہ اگلے دو سالوں کے دوران زندہ انسانوں یعنی مریضوں پر عملی مثالوں کی مدد سے پروفیسر ز و دیگر اساتذہ میڈیکل سٹوڈنٹس کو عملی تعلیم مہیا کرتے ہیں یہ دونوں نصابی و پریکٹیکل حصے جب تک مکمل نہیں ہوتے تب تک ایک مکمل ڈاکٹر تیار نہیں ہو سکتا کسی بھی میڈیکل کالج میں کتابی تعلیم بھی انتہائی اہم ہے اور عملی تعلیم بھی بدرجہ ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں قائم میڈیکل کالجز میں جو میڈیکل فیکلٹی منتخب کی جاتی ہے وہ ایک طرف تو لیکچر ہالز میں میڈیکل سٹوڈنٹس کو کتابوں کی مدد سے بنیادی تعلیم دیتی ہے تو دوسری طرف وہ ہسپتال جہاں مریض موجود ہوتے ہیں وہاں پر ان میڈیکل سٹوڈنٹس کو عملی تعلیم مہیا کرتی ہے پاکستان کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک اعلیٰ ترین مشینری اور دیگر طبی سہولیات سے لیس تربیتی ہسپتال جنہیں ٹیچنگ ہاسپٹلز کا نام دیا جاتا ہے کسی بھی میڈیکل کالج کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتے ان میڈیکل کالجز میں ایک اچھا ڈاکٹر تیار نہیں ہوسکتا بد قسمتی سے ماضی قریب میں وفاق میں بیٹھے کچھ ’’تاجر صفت لالچی لوگوں ‘‘ نے میڈیکل تعلیم پر بہت بڑا ظلم کیا جس طرح ایک وفاقی وزیر با تدبیر کا نام ’’ سی این جی اسٹیشنز سکینڈل‘‘ میں جلی حروف میں درج ہے اسی طرح پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ایک انتہائی بارسوخ صاحب جو آصف علی زرداری سابق صدر پاکستان کے قریبی ترین دوستوں میں شامل ہیں کا نام ان ’’ محسنوں ‘‘ میں شامل ہو چکا ہے کہ جنہوں نے انڈر ہینڈ لیتے ہوئے پاکستان میں درجنوں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کو رجسٹرکیا اور ایسے ’’ معذور ڈاکٹر ز ‘‘ پیدا کرنے کا گناہ کیا کہ جس کی سزا پاکستان اور آزادکشمیر کی آنے والی نسلیں بھگت سکتی ہیں دنیا کا ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے کہ جو طبی تعلیم کے ساتھ وہ سلوک کرتا ہو جو ان وزیر با تدبیر نے پیسے کے لالچ میں آکر کر ڈالا ۔یہ صورتحال اتنی گھمبیر اور خطرناک ہے کہ جس طرح پاکستان میں پولیو کے آؤٹ آف کنٹرول ہونے کی وجہ سے آج دنیا کے تمام مہذب ممالک پاکستان کے کسی بھی شہری یا پاکستان آنے والے کسی بھی مسافر کو پولیو ویکسین پلائے بغیر اپنے ملک میں آنے کی اجازت نہیں دیتے ۔اب یہ خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ پاکستان سے طبی تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹرز کی ڈگری کو بھی مشکوک سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ زندہ انسانی جسم سے کھیلنے کی اجازت کسی بھی ’’ اناڑی یا معذور ڈاکٹر ‘‘ کو نہیں دی جا سکتی ۔اگرچہ پاکستان اور آزادکشمیر میں طبی قوانین بھی موجود ہیں ،ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ز بھی کام کر رہے ہیں ،ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر ز بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود آج بھی پاکستان اور آزادکشمیر میں ’’ نیم حکیم اور نیم ڈاکٹر ز‘‘ کھلے عام ہر گلی ،چوک اور چوراہے میں ’’ ظاہری اور خفیہ بیماریوں ‘‘ کا علاج کر رہے ہیں اور کوئی بھی قانون اس ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے حرکت میں نہیں آرہا ۔اس وقت پاکستان اور آزادکشمیر میں ہیپا ٹائٹس بی اور سی انتہائی تیزی سے پھیل رہے ہیں اور ہیپاٹائٹس پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ ’’وہ ڈینٹل ڈاکٹرز‘‘ ہیں جن کے پاس بی ڈی ایس کی ڈگری تو نہیں لیکن ہیپا ٹائٹس پھیلانے کے لیے دانت نکالنے والے جراثیموں سے بھرے ہوئے ’’ جمور او رپلاس ‘‘ سمیت ہر طرح کے اوزار بھی موجود ہیں اور وہ انسانوں کو غیر معیاری غیر محفوظ سرنجوں کے ذریعے جانور وں کو لگانے والے درد کش انجکشنز لگا کر ’’ انسانیت کی بھرپو ر خدمت ‘‘ کر رہے ہیں خیر یہ تو وہ چند باتیں ہیں جن کا تعلق قانون کی عمل داری کے ساتھ ہے آج ہم آزادکشمیر کے تین سرکاری میڈیکل کالجز اور ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں خدا نخواستہ پڑھائے جانے والے ان میڈیکل سٹوڈنٹس کے مستقبل کے متعلق بات کر رہے ہیں جو اس وقت شدید خطرے سے دوچار ہے ۔ہمارے پڑھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے ان چاروں میڈیکل کالجز کو میڈیکل فیکلٹی اور ان میڈیکل کالجز سے وابستہ ٹیچنگ ہاسپٹلز میں معیاری ترین تربیتی سہولیات مہیا کرنے کے لیے گائیڈ لائنز بھی مہیا کی تھی اور کچھ عرصہ قبل مخصوص وجوہات کی بناء پر تین میڈیکل کالجز پر داخلے دینے پر پابندی بھی عائد کر دی تھی آج پی ایم ڈی سی کی نئی انسپکشن کے بعد اگرچہ ان میڈیکل کالجز میں داخلے کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن پی ایم ڈی سی نے میڈیکل کالجز کے سربراہان کو تمام ضروریات پوری کرنے کا حکم بھی جاری کیا ہے جن میں سرفہرست میڈیکل فیکلٹی کی تکمیل اور تربیتی ہسپتالوں کا معیاری ترین ہونا شامل ہے اس وقت ہم اگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کی بات کرتے ہیں تو اس ادارے میں اس وقت پندرہ کے قریب پروفیسرز موجود ہیں جبکہ پی ایم ڈی سی کی ہدایات کے مطابق 23پروفیسر زکا ہونا ضروری ہے اس میڈیکل کالج کے ساتھ ڈویژن ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور تربیتی ہسپتال کے طور پر منسلک ہے اور حیران کن ترین امر یہ ہے کہ میڈیکل کالج میں کام کرنے والی فیکلٹی ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور میں کسی بھی قسم کی سروسز مہیا نہیں کر رہی ایک پروفیسر کو عوامی بجٹ سے چار لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے ایسو سی ایٹ پروفیسر کو تین لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے اور اسی طریقے سے اسسٹنٹ پروفیسر اور دیگر عہدوں پر موجود لوگوں کو بھاری تنخواہیں تو دی جا رہی ہیں لیکن ان لوگوں سے یا تو وہ کام نہیں لیا جا رہا جس کا معاوضہ یہ لوگ حاصل کر رہے ہیں یا پھر انہیں وہ کام نہیں کرنے دیا جا رہا جس کی انہیں تنخواہ دی جاتی ہے ۔ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مشتاق چوہدری ہیں جبکہ ایم بی بی ایس میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر میاں عبدالرشید ہیں اس وقت میڈیکل کالج کے فیکلٹی ممبران کی غالب اکثریت نیو سٹی میرپور میں قائم ’’ ایک ڈسپنسری مارکہ ٹیچنگ ہسپتال ‘‘ میں صبح نو سے لے کر دو بجے تک خدمات انجام دیتی ہے اور اس کے بعد اس ’’ عجوبہ روزگار تربیتی ہسپتال ‘‘ کو تالے لگادیئے جاتے ہیں اور کسی بھی میڈیکل سٹوڈنٹ کو یہاں کسی بھی قسم کی عملی تربیتی سہولت فراہم نہیں کی جارہی جبکہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور جو تین سو سے زائد بستروں پر مشتمل ایک مکمل فنکشنل ہسپتال ہے وہاں پر میڈیکل کالج کی فیکلٹی یا تو آ نہیں رہی ہے یا پھر اسے آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہم نے اس حوالے سے جب ریسرچ شروع کی تو ایسے انکشافات ہونا شروع ہوئے کہ ہم حیران رہ گئے ان انکشافات کے متعلق ہم آنے والے کالمز کی سیریز میں انتہائی خوفناک سچائیاں اپنے پڑھنے والوں تک پڑھائیں گے صرف اس نیت کے تحت کہ کسی طریقے سے اصلاح احوال ہو سکے اور میرپو ر کے میڈیکل کالج سمیت آزادکشمیر کے تمام میڈیکل کالجز میں ’’ معذور اور اپاہج ڈاکٹرز‘‘ پیدا کرنے کے جرم کو روکا جائے اور ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹرز کو پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان ڈگریوں کو کاغذ کا ایک ردی ٹکڑا قرار نہ دیا جائے یہاں بقول چچا غالب ہم کہتے چلیں
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر ،سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہوئے پر ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب وتواں بال وپر میں خاک نہیں
بھلا اسے نہ سہی ،کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسد
کھلا ،کہ فائدہ ،عرضِ ہنر میں خاک نہیں

قارئین بعض مخبروں کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت ’’ دو بڑے ‘‘ انا کی جنگ میں مبتلا ہیں ،بعض مخبروں کی یہ خبر ہے کہ میڈیکل کالج میں کام کرنے والے لوگ پیسے تو خوب لے رہے ہیں لیکن کام کرنے کو تیار نہیں اور بعض انفارمر ز کا یہ کہنا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے میڈیکل کالجز کے بظاہر بڑے بڑے نام اس تجربے سے محروم ہیں جو کسی بھی ٹیچنگ ہسپتال کو چلانے کو درکار ہوتا ہے اس سلسلہ میں اصل خبر کیا ہے یہ بہت جلد ریسرچ کے بعد ہم آنے والے کالمز میں آپ کے سامنے پیش کریں گے ۔ہمارے جنون صرف او ر صرف یہ ہے کہ آزادکشمیر کے تمام میڈیکل کالجز میں معیاری ترین طبی تعلیم ملنی چاہیے اور شخصیات اہم نہیں ہیں بلکہ ادارے اہمیت کے حامل ہیں اور اداروں کا مضبوط بنیادوں پر استوار ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ماضی میں ہم نے پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو بحال کروانے کے لیے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر صرف اس نیت سے کام کیا کہ کہیں اس وجہ سے آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز پر پی ایم ڈی سی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پابندی عائد نہ کر دے اور آج بھی ہم یہی نیت لے کر سر پر کفن باندھ ہاتھ میں قلم لے کر سامنے آئے ہیں کہ آزادکشمیر کے ان تمام میڈیکل کالجز میں ’’ معذور ڈاکٹر ز ‘‘ پیدا کرنے کی بجائے اہل ترین ڈاکٹر ز پیدا کیے جائیں جو ملک و قوم کے لیے باعث فخر ہوں اس سلسلہ میں ’’ آئی اوپنر ‘‘ کے طور پر آج کا پہلا کالم ہم اس موضوع پر آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں جلد ہی کچھ تحقیقی مواد کے ساتھ دوبارہ آپ کے سامنے حاضر ہونگے اﷲ ہمیں نیک نیتی کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے آمین ۔آخر میں لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک فلم کے سردار ڈائریکٹر نے ہیرو سے کہا
’’ تم نے سو فٹ بلندی سے سویمنگ پول میں چھلانگ لگانی ہے ‘‘
ہیرو نے گھبراکر کہا
’’ سردار جی مجھے تیرنا نہیں آتا ‘‘
سردار جی نے بے نیازی سے کہا
’’ او کاکا فکر نہ کر سویمنگ پول خالی ہے ‘‘

قارئین ہمیں خطرہ یہ ہے کہ میڈیکل کالجز میں کہیں ایسے ڈاکٹرز پیدا نہ کیے جائیں کہ جنہیں کچھ بھی سکھائے بغیر زندہ بیمار انسانوں پر تجربے کرنے کے لیے ’’ موت تقسیم کرنے کا لائسنس ‘‘ دے دیا جائے اگر ایسا ہوا تو اس کا ذمہ دار پورا معاشرہ ،پوری حکومت اور پوری مملکت ہو گی -
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336228 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More