اعظم گڑھ کے قرب وجوارمیں ’’تعلیم وترقی ‘‘ کی مہم

اعظم گڑھ ایک مردم خیزخطہ ہے۔وہاں کے باشندے بڑی تعداد میں ممالک غیر میں کسب معاش میں مشغول ہیں مگروطن سے دورہونے کے باوجود اپنے وطن کے لئے فکرمند رہتے ہیں۔ان کی یہ خوشحالی، اپنے حقوق سے متعلق باخبری اوراس کے لئے جدوجہد بعض عناصر کو ناگوار بھی گزرتی ہے مگراہل اعظم گڑھ اور اس کے گردونواح باشندے حوصلہ نہیں ہارتے۔ اہل فضل و کمال کے اس خطے کو ایک سازش کے تحت ’آتنک گڑھ ‘ کا نام دیکر بدنام کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اہل نظر نے محسوس کیا ہے کہ اکثر گھروں میں خوشحالی کے باوجودعلاقے میں تعلیم و ترقی کے شعبوں میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔اس ضرورت کے پیش نظر کل ہندسطح پرکئی سال سے جاری فروغ تعلیم کی تحریک ’ ’آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ‘‘ سے وابستہ اعظم گڑھ کے دو اہم شخصیات جناب ابراراحمد اصلاحی (مکہ مکرمہ) اور جناب طارق اعظم انجنئر (ملائیشیا) نے اس مردم خیز خطہ میں فروغ تعلیم و ترقی کے لئے ایک ولوہ انگیز پہل کی ہے۔ذیل میں اس منصوبہ کا خاکہ مختصراً پیش ہے جس پر انشاء اﷲ عمل کے لئے پہلا قدم 12اکتوبر سے اٹھایا جارہا ہے ۔یہ اس منصوبے کے ابتدائی خدوخال ہیں۔ اس بات کی ضرورت بھی ہے اور گنجائش بھی کہ اہل فکرونظر اس میں شریک ہوں۔ اپنے مفید مشوروں سے نوازیں اور اسی کے طرز پر اپنے اپنے علاقوں میں بھی کام کریں اور اس مہم سے رشتہ استوارکریں۔

اس تحریک کے روح رواں جناب ابراراحمداصلاحی نے ایک مکتوب میں بتایا ہے کہ اس مہم کا آغاز 12اکتوبر کوجونپور سے کیا جائیگا۔ پہلے مرحلے کی اس تعارفی مہم کا نام انہوں نے ’’ کاروانِ تعلیم و ترقی 2014‘‘ رکھا ہے اور کہا ہے کہ یہ ملت کے حال میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کوشش اسی صورت میں کامیاب ہوگی جب مقامی طور پر سرگرم سماجی کارکن اور ذی شعورافراد تعاون کریں گے۔
اس تحریک کے پیش نظر ایک متعین نصب العین یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کو ’خیرامت‘ کے بنیادی قرآنی تصور سے ہم آہنگ کیا جائے ۔’خیرامت‘ سے مراد یہ ہے کہ ہم ایسا گروہ بنیں جو تمام بندگان خدا کا خیرخواہ ہو۔ خود بھی بھلائی کی راہ پر چلے اور دوسروں کو بھی خیر کی راہ پر چلانے کے لئے کوشاں ہو۔ اس پیغام کو ہرخاص وعام تک پہنچانے کے لئے حکمت عملی یہ طے پائی کہ چند لوگ مل کر ایک کارواں کی صورت میں بستی بستی قریہ قریہ جائیں ،لوگوں کے دلوں پر دستک دیں اور اس نصب العین پرجم جانے کے لئے راغب کریں ۔ ان میں جذبہ خیر کوابھارنے کے ساتھ بحسن خوبی پوری لگن اور اخلاص کے ساتھ خیرامت کے اس فریضہ کو انجام دینے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اس فریضہ کو اﷲ نے ہماری ذمہ داری قراردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کارخیر میں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی شامل ہے۔

ملت میں خیرامت کے جذبہ کو بیدار کرنے اور اس میں اس کی ادائیگی کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے پہلی ضرورت یہ ہے کہ اس کوایسی تعلیم سے آراستہ کیا جائے جس کی بدولت وہ دنیا میں اپنی اصل حیثیت کو پہچاننے لگے اوراس کے مطابق اقدام کی فکر کرنے لگے ۔ناخواندگی ، کم علمی اوربعض دیگروجوہ سے معاشرے میں پھیلی ہوئی ان خرابیوں کو دور کیا جائے جنہوں نے معاشرے کوجکڑ رکھا ہے۔ ان کی معاشی حالت کوبھی بہتر کیا جائے اوران میں ایسا سماجی وسیاسی شعور بیدار کیا جائے جس سے وہ قومی زندگی میں اپنا بہترین کردارادا کرسکیں۔

اس کے لئے بچوں کی اعلا درجہ کی تعلیم کا بندوبست سرفہرست ہے۔ ان کا تعلیمی نصاب ایسا ہونا چاہئے جس میں دینی اور عصری دونوں طرح کے علوم کا بہترین امتزاج ہو۔ وہ دین وایمان کے پاسبان بھی بنیں اور عالم اسباب میں بھی خالی ہاتھ نہ رہیں بلکہ دنیا کی نبض کو پہچانتے ہوں اوردیگراقوام کے شانہ بشانہ جدید علوم میں ایک مقام اور مرتبہ رکھتے ہوں۔

اس تحریک کا پہلا ہدف یہ قرارپایاہے کہ مسلم خواندگی کی شرح، جو ملک میں تمام قوموں کے مقابلہ کم ہے ، بڑھ کر صدفیصد ہو ۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ہر بچہ اسکول جائے۔ دوسرا ہدف یہ ہوگا کہ بچے چند جماعتیں پڑھ کر اسکول نہ چھوڑ دیں۔ اس کے لئے تعلیم کے طریقہء کار میں ایسی اصلاحات لانی ہونگیں کہ بچہ ذوق و شوق سے اسکول جائے اور ٹیچرس کو ایسی تربیت دینی ہوگی کہ وہ اپنے موضوع میں بچوں کے لئے دلچسپی پیدا کریں۔ پڑھنا ان کے لئے بوجھ نہ بن جائے۔استاد اپنا علم بچوں کے ذہنوں میں انڈیلنے کے بجائے ، ان کے اندرخود جاننے اورسمجھنے کا شوق پیدا کریں۔

اس سلسلے میں کرنے کا تیسرا اہم کام یہ ہے کہ کوئی محنتی اور ذہین بچہ مالی یا کسی دیگر دشواری کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے پر مجبور نہ ہو جائے۔ ان بچوں کے لئے خصوصی سرپرستی اور نگرانی کا بندوبست نہایت اہم ہے۔

ایک ایسا نظام بھی ضروری ہے کہ طلباء اور اسکولوں کے لئے سرکاری امدادی اسکیموں اور وظائف سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کے لئے ان تمام اسکیموں اور سہولتوں پر نظررکھنی ہوگی، بروقت ان سے مستحقین کو باخبرکرنا ہوگا اور ان کی رہنمائی کرنی ہوگی تا کہ وہ ضروری کاروائی مکمل کرکے ان سے فائدہ اٹھاسکیں۔

اسی کے ساتھ ایک کام یہ کرنا ہوگا کہ ان طلباء کو تعلیم میں بہت آگے نہیں جاسکتے ، ایسی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے اور ان کو ایسے ہنرسکھائے جائیں جن کی اندرون ملک اوربیرون ملک مانگ ہے تاکہ وہ معاشی طور پر خوشحال ہوسکیں۔

تحریک کے اہم شریک کار جناب طارق اعظم کا نظریہ کے مطابق کرنے کا ایک بڑا کام یہ ہے کہ کثرت سے ایسے اعلا تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں تاکہ ہمارا میدان کار ایک تعلیمی صنعت گاہ کا منظر پیش کرنے لگے اور جس طرح آج دنیا بھر سے طلباء امریکا، فرانس، آسٹریلیا، سویڈن وغیرہ کا رخ کرتے ہیں،ملک اور بیرون ملک سے طلباء ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں آئیں۔ کوئی وجہ نہیں مشرقی یوپی میں بنگلور جیسے نمونے پیش نہیں کئے جاسکتے ۔یہ ایک بڑا معاشی منصوبہ ہے جس پر اہل ثروت کو متوجہ کیا جائے گا۔

اس ولولہ انگیزمشن اور نصب العین کے پیش نظر ’’کاروان تعلیم و ترقی ‘‘ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق اس کا آغاز انشا اﷲ 12 اکتوبر کو جونپور سے ہوگا۔ شہر میں اجتماعی ملاقاتوں کے علاوہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے افراد سے خصوصی ملاقاتیں کی جائیں گیں۔14؍اکتوبر کو مؤ میں ملاقاتیں ہونگیں۔ 16؍اکتوبر کو سنجرپور میں، 17؍کو سرائے میر میں، 18؍کو محمدپور میں ، 19؍کو اعظم گڑھ میں، 20؍کو لاہی دیپ پازار میں، 21؍کو پھولپور میں اور 22؍اکتوبر کو شاہ گنج میں اجتماعی و انفرادی ملاقاتیں ہونگیں۔ امید ہے کہ رابطوں کے نتیجہ میں مشن کے دوسرے مرحلے کے لئے کوئی جامع حکمت عملی بن سکے گی۔

ایک کوشش یہ ہوگی کہ کارواں کے دائرے میں آنے والے علاقے کے ہر گاؤں ، قصبہ اور شہری وارڈکی بنیاد پرایسے افراد کو منظم کیا جائے جو درج ذیل صلاحیتوں کے حامل ہیں:
- ملی اور سماجی کاموں سے دلچسپی.
- دینی مصروفیت جیسے امام، خطیب، مفتی، ناظم، مہتمم، عالم وغیرہ.
- تعلیمی مشغلہ جیسے اسکول یا کالج منیجر، کمیٹی ممبر، ہیڈماسٹر ، ٹیچر وغیرہ.
- مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد جیسے منیجر، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، پردھان، تاجر وغیرہ.

منصوبہ یہ ہے کہ 15تا 25 افراد پر مشتمل یہ ٹیمیں اپنے علاقے میں کام کریں گی، اپنے علاقوں کی نمائندگی کریں گی اور ملت کی تعلیمی وہمہ جہت ترقی کے لئے جدوجہد کریں گی۔
ان تاثرات کے اظہار کے ساتھ اس تحریک کے سرخیل جناب ابراراحمد اصلاحی اور جناب طارق اعظم انجنیر نے اس کالم نویس سے گفتگو کے دوران خواہش یہ ظاہر کی ہے ادھرادھر بھٹکنے کے بجائے وقت آگیا ہے کہ سب مل کرملک وملت کی تعلیم و ترقی کے لئے کام کریں۔اسی لئے سب سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے اور یہ دعا بھی کہ اﷲ تعالیٰ اس کوشش میں اخلاص اور برکت دے اور ہمیں دوجہاں کی کامیابی و کامرانی سے سرفراز فرمائے۔

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.