قربانی ۔ تاریخ، فضائل اور مسائل

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

قربانی کی تاریخ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام )کو ذبح کررہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے، چنانچہ اﷲ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ جب باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو فرمانبردار بیٹے اسماعیل علیہ السلام کا جواب تھا : ےَآ اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤمَرُ سَتَجِدُنِی اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِےْنَ(سورۂ الصٰفٰت ۱۰۲) ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے، اسے کرڈالئے۔ ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ بیٹے کے اس جواب کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب مکہ مکرمہ سے ذبح کرنے کے لئے لے کر چلے تو شیطان نے منیٰ میں تین جگہوں پر انہیں بہکانے کی کوشش کی، جس پر انہوں نے سات سات کنکریاں اس کو ماریں جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا ۔ آخرکار رضاء الہی کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے ٹکڑے کو منہ کے بل زمین پر لٹادیا، چھری تیز کی، آنکھو ں پر پٹی باندھی اور اُس وقت تک چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا نہ آگئی۔ وَنَادَےْنَاہُ اَن ےَّا اِبْرَاہِےْمُ قَدْ صَدَّقَّتَ الرُّؤےَا اِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِےْنَ (سورۂ الصٰفٰت۱۰۴۔ ۱۰۵) اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا، ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کردیا۔ وَفَدَےْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِےْمٍ (سورۂ الصٰفٰت ۱۰۷) اس واقعہ کے بعد سے اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے جانوروں کی قربانی کرنا خاص عبادت میں شمار ہوگیا۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ کی امت کے لئے بھی ہر سال قربانی نہ صرف مشروع کی گئی، بلکہ اس کو اسلامی شعار بنایا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں حضور اکرم ﷺ کے طریقہ پر جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ کل قیامت تک جاری رہے گاان شاء اﷲ ۔

قربانی کا حکم:
تمام فقہاء وعلماء کرام قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہیں، البتہ قربانی کو واجب یا سنت مؤکدہ کا Titleدینے میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر صاحب حیثیت پر اس کے وجوب کافیصلہ فرمایا ہے۔ حضرت امام مالک ؒ بھی قربانی کے وجوب کے قائل ہیں، حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول بھی قربانی کے وجوب کا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے واجب ہونے کے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ البتہ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت نے بعض دلائل کی روشنی میں قربانی کے سنت مؤکدہ ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے، لیکن عملی اعتبار سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قربانی کا اہتمام کرنا چاہئے اور وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنا غلط ہے خواہ اس کو جو بھی Titleدیا جائے۔ "جواہر الاکلیل شرح مختصر خلیل" میں امام احمد بن حنبلؒ کا موقف تحریر ہے کہ اگر کسی شہر کے سارے لوگ قربانی ترک کردیں تو ان سے قتال کیا جائے گا کیونکہ قربانی اسلامی شعار ہے۔۔۔۔ صحابہ وتابعین عظام سے استفادہ کرنے والے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ (۸۰ھ۔۱۵۰ھ) کی قربانی کے وجوب کی رائے احتیاط پر مبنی ہے۔

قربانی کے وجوب کے دلائل: قرآن وسنت میں قربانی کے واجب ہونے کے متعدد دلائل ہیں،یہاں اختصار کی وجہ سے چند دلائل ذکر کئے جارہے ہیں۔
۱) اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(سورۂ الکوثر ۲) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے قربانی کرنے کاحکم ( امر) دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔ وَانْحَرْ کے متعدد مفہوم مراد لئے گئے ہیں مگر سب سے زیادہ راجح قول قربانی کرنے کا ہی ہے۔ اردو زبان میں تحریر کردہ تراجم وتفاسیر میں قربانی کی ہی معنی تحریر کئے گئے ہیں۔ جس طرح فَصَلِّ لِرَبِّکَ سے نماز عید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح وَانْحَرْ سے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (اعلاء السنن)
۲) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ کَانَ لَہ سَعَۃٌ وَلَمْ ےُضَحِّ فَلا ےَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا۔۔ جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۳۲۱/۲، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۳۸۹/۲) عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے قربانی کی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر سخت وعید کا اعلان کیا ہے اور اس طرح کی وعید عموماً ترک واجب پر ہی ہوتی ہے۔
۳) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاۃِ فَلْےَذْبَحْ شَاۃ مَکَانَہَا، وَمَنْ کَانَ لَمْ ےَذْبَحْ حَتَّی صَلَّےْنَا فَلْےَذْبَحْ عَلَی اِسْمِ اللّٰہِ۔۔ جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی تو اسے اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی ہوگی۔ قربانی نماز عید الاضحی کے بعد بسم اﷲ پڑھ کر کرنی چاہئے۔ (بخاری۔کتاب الاضاحی۔باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد، مسلم۔کتاب الاضاحی۔باب وقتہا) اگر قربانی واجب نہیں ہوتی تو حضور اکرم ﷺنماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کرنے کی صورت میں دوسری قربانی کرنے کا حکم نہیں دیتے، باوجودیکہ اُس زمانہ میں عام حضرات کے پاس مال کی فراوانی نہیں تھی۔
۴) نبی ا کرم ﷺ نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر فرمایا : ےَا اَےُّہَا النَّاسُ! اِنَّ عَلَی اَہْلِ کُلِّ بَےْتٍ اُضْحِےَۃٌ فِیْ کُلِّ عَامٍ۔۔۔ اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ (مسند احمد ۲۱۵/۴، ابوداؤد ۔باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی، ترمذی۔ باب الاضاحی واجبۃ ہی ام لا)
۵) حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی ۱۸۲/۱) مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اﷲ ﷺ سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا، اس کے برخلاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران آپ ﷺ نے ہر سال قربانی کی، جیساکہ مذکورہ حدیث میں وارد ہے۔
۶) حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ (محلیٰ بالآثارج ۶ ص ۳۷، کتاب الاضاحی) معلوم ہوا کہ مقیم پر قربانی واجب ہے۔

قرآنِ کریم میں قربانی کا ذکر:
٭ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(سورۂ الکوثر ۲) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔
٭ وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّےَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِےْمَۃِ الْاَنْعَامِ (سورۂ الحج ۳۴) قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ، پہلی امتوں کے بھی ذمہ قربانی کی عبادت لگائی گئی تھی۔۔۔ ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے تاکہ ان چوپائے جانوروں پر اﷲ کا نام لیں جو اﷲ نے انہیں دے رکھے ہیں۔۔۔ نسک کے مختلف معنی ہیں، مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے اس سے مراد قربانی لی ہے۔
٭ وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً ہُمْ نَاسِکُوْہُ (سورۂ الحج ۶۲) ہم نے ہر امت کے لئے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے۔
٭ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْےَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِےْنَ (سورۂ الانعام ۱۶۲) آپ فرمادیجئے کہ یقینا میری نماز، میری قربانی اور میرا جینا و مرنا سب خالص اﷲ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے۔
٭ لَن ےَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِن ےَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (سورۂ الحج ۳۷) اﷲ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اُن کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔
﴿وضاحت﴾: قربانی میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا ہے بلکہ جتنے اخلاص اور اﷲ سے محبت کے ساتھ قربانی کی جائے گی اتنا ہی اجروثواب اﷲ تبارک وتعالیٰ عطا فرمائے گا اور یہ اصول صرف قربانی کے لئے نہیں بلکہ نماز، روزہ،زکاۃ،حج یعنی ہر عمل کے لئے ہے لہذا ہمیں ریا، شہرت، دکھاوے سے بچ کر خلوص کے ساتھ اﷲ کی رضا کیلئے اعمال صالحہ کرنے چاہئیں۔
﴿وضاحت﴾: ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر زمانے اور ہر امت میں اﷲ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جانوروں کی قربانی مشروع رہی ہے، اور یہ ایک اہم عبادت ہے اس کی مشروعیت، تاکید، اہمیت اور اس کے اسلامی شعار ہونے پر عصر حاضر کے بھی تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔

قربانی کرنے کی فضیلت:
٭ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰ تاریخ کو کوئی نیک عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا۔ (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) ۔ نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک شرف ِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو ۔ ( ترمذی ۱۸۰/۱،،،، ابن ماجہ)
٭ حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام نے رسول اﷲ ﷺ سے سوال کیا کہ یہ قربانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابۂ کرام نے رسول اﷲ ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارے لئے اس میں کیا اجروثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد۔۔۔۔۔ الترغیب والترھیب)
٭ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۳۲۱/۲، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۳۸۹/۲)
٭ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی ۱۸۲/۱)
٭ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے فاطمہ! جاؤ۔ اپنی قربانی پر حاضری دو، کیونکہ اس کے خون سے جونہی پہلا قطرہ گرے گاتمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ نیز وہ جانور (قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا۔ اور پھر اسے ستر گنا (بھاری کرکے)تمہارے میزان میں رکھا جائے گا۔ حضرت ابوسعید الخدری ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! کیا یہ (فضیلت) آل محمد ﷺ کے ساتھ خاص ہے یا آل محمد ﷺ اور تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ فضیلت آل محمد کے لئے تو بطور خاص ہے اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی عام ہے۔ (یعنی ہر مسلمان کو بھی قربانی کرنے کے بعد یہ فضیلت حاصل ہوگی) (الترغیب والترہیب)
﴿وضاحت﴾: قربانی کے فضائل میں متعدد احادیث کتب احادیث میں مذکور ہیں، بعض احادیث کی سند میں ضعف بھی ہے مگر قربانی کا حکم قرآن کریم واحادیث صحیحہ سے ثابت ہے، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، لہذا اصول حدیث کے مطابق فضائل قربانی میں احادیث ضعیفہ معتبر ہوں گی۔

ان مبارک ایام میں خون بہانے کی فضیلت:
حضور اکرم ﷺ بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم ﷺ کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کے ان احباب کی طرف سے بھی قربانی کرتے تھے جو قربانی نہیں کرسکتے تھے۔ (بخاری ومسلم، ترمذی، ابن ماجہ ، نسائی، ابوداؤد ، مسند احمد وغیرہ) حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر انہیں قربانی کے ایام میں ۱۰۰ اونٹوں کی قربانی دی، ان میں سے ۶۳ اونٹ نبی اکرم ﷺ نے بذات ِخود نحر (ذبح) کئے اور باقی ۳۷ اونٹ حضرت علیؓ نے نحر (ذبح) کئے۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عید الاضحی کے دن سینگوں والے ،دھبے دار خصی دو مینڈھے ذبح کئے۔ (ابوداؤد۔باب مایستحب من الضحایا) غرضیکہ ان ایام میں خون بہانا ایک اہم عبادت ہے۔

قربانی نہ کرنے پر وعید:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ کَانَ لَہ سَعَۃٌ وَلَمْ ےُضَحِّ فَلا ےَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا۔۔ جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۳۲۱/۲، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۳۸۹/۲) عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

قربانی کا وقت:
قربانی کا وقت نماز عید الاضحی سے شروع ہوتا ہے اور ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ نماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کی صورت میں رسول اﷲ ﷺ نے دوسری قربانی کرنے کا حکم دیا ہے جیساکہ حدیث میں گزرا، اس سے قربانی کا ابتدا ئی وقت معلوم ہوا۔قربانی کے آخری وقت کی تحدید میں فقہاء وعلماء کے درمیان زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ (ایک روایت) نے ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک تحریر کیا ہے جبکہ بعض علماء نے ۱۳ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک وقت تحریر کیا ہے۔ پہلا قول احتیاط پر مبنی ہونے کے ساتھ دلائل کے اعتبار سے بھی قوی ہے کیونکہ کسی بھی حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نبی اکرم ﷺ یا کسی صحابی نے ۱۳ ذی الحجہ کو قربانی کی ہو، البتہ بعض احادیث وآثار کے مفہوم سے دوسرے قول کی تایےد ضروری ہوتی ہے مگر اُن احادیث وآثار کے دوسرے معنی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں مثلاً رسول اﷲ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : کل فجاج مکہ منحر وکل ایام التشریق ذبح (طبرانی وبیہقی)۔ اولاً اس حدیث کی سندمیں ضعف ہے،احادیث ضعیفہ فضائل کے حق میں تو معتبر ہیں، لیکن ان سے حکم ـثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ثانیاًبعض کتب حدیث میں یہ حدیث "وکل ایام التشریق ذبح" کے الفاظ کے بغیر مروی ہے۔

قربانی کا وقت ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے، اس کے چند دلائل پیش ہیں۔
٭ نبی اکرم ﷺ نے ابتدائی سالوں میں صحابۂ کرام کے اقتصادی حالات کے پیش نظر قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے سے منع فرمادیا تھا، بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی۔ اگر چوتھے دن قربانی کی جاسکتی ہے تو پھر تین دن سے زیادہ قربانی کا ذخیرہ کرنے سے منع کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ (کتب حدیث میں یہ حدیثیں موجود ہیں)
٭ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایام معلومات‘ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) اور اسکے بعد دو دن (۱۱ و ۱۲ ذی الحجہ) ہیں۔ (احکام القرآن للجصاص ۔ باب الایام المعلومات / تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج ۶ ص ۲۶۱)
٭ مشہور ومعروف تابعی حضرت قتادہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : الذِّبْحُ بَعْدَ النَّحرِ یَوْمَان۔ قربانی دسویں ذی الحجہ کے بعد صرف دو دن ہے۔ (سنن کبری للبیہقی ۔ باب من قال الاضحی یوم النحر) حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ اور حضرت انس ؓ کے علاوہ حضرت علیؓ، حضرت عبداﷲ بن عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت سعید بن الجبیر ؓ اور سعید بن المسیبؒ کے اقوال بھی کتب حدیث میں مذکور ہیں جسمیں وضاحت کے ساتھ تحریر ہے کہ قربانی صرف تین دن ہے۔

﴿وضاحت﴾: امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد فوری طور پر قربانی کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے،بلکہ کچھ کھائے بغیر نماز عیدالاضحی کے لئے جانا اور سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھانا عیدالاضحی کی سنن میں سے ہے۔ نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کا یہی معمول تھا۔ اس وجہ سے ہمیں پہلے ہی دن قربانی کرنی چاہئے، اگر کسی وجہ سے پہلے دن قربانی نہ کرسکتے یا چند قربانیاں کرنی ہیں تو ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ضرور فارغ ہوجا نا چاہئے کیونکہ جن بعض علماء نے ۱۳ ذی الحجہ کو قربانی کی اجازت دی ہے انہوں نے بھی یہی تحریر کیا ہے کہ ۱۲ ذی الحجہ سے قبل ہی بلکہ ۱۰ ذی الحجہ کو ہی قربانی کرلینی چاہئے۔

قربانی کے جانور کی عمر:
بکرا، بکری، بھیڑ ایک سال کی ہو، بھیڑ اوردنبہ جو ہو تو چھ ماہ کا لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہو اور گائے ، بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو ان سب جانوروں پر قربانی کرنا جائز ہے۔

قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد:
حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ قربانی میں بکرا (بکری، مینڈھا، دنبہ) ایک شخص کی طرف سے ہے۔ (اعلاء السنن ۔ باب ان البدنہ عن سبعۃ)
حضر ت جابر ؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھکر نکلے اور آپ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی) شریک ہوجائیں۔ (مسلم ۔ باب جواز الاشتراک)
حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے ۔ (مسلم۔ باب جواز الاشتراک فی الہدی)

قربانی کے جانور کا عیوب سے پاک ہونا:
عیب دار جانور (جس کے ایک یا دو سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں، اندھا جانور، ایسا کانا جانور جس کا کاناپن واضح ہو، اس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو ، وغیرہ وغیرہ) کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔

بھینس کی قربانی کا حکم:
جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ گائے واونٹ کی طرح بھینس پر بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ گائے واونٹ کی طرح بھینس کی قربانی میں بھی سات حضرات شریک ہوسکتے ہیں۔

خود قربانی کرنا افضل ہے:
نبی اکرم ﷺ اپنی قربانی خود کیا کرتے تھے، اس وجہ سے قربانی کرنے والے کا خود ذبح کرنا یا کم از کم قربانی میں ساتھ لگنا بہتر ہے، جیساکہ حدیث میں گزرا کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنہا کو قربانی پر حاضررہنے کو فرمایا۔

قربانی کا گوشت:
قربانی کے گوشت کو آپ خود بھی کھاسکتے ہیں، رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں اور غرباء ومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔ علماء کرام نے بعض آثار کی وجہ سے تحریر کیا ہے کہ اگر گوشت کے تین حصے کرلئے جائیں تو بہتر ہے۔ ایک حصہ اپنے لئے، دوسرا حصہ رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا حصہ غرباء ومساکین کے لئے، لیکن اس طرح تین حصے کرنے ضروری نہیں ہیں۔

میت کی جانب سے قربانی:
جمہور علماء امت نے تحریر کیا ہے کہ میت کی جانب سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے، اس قربانی کو آپ ﷺ زندہ افراد کے لئے خاص نہیں کیا کرتے تھے۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ حضرت علیؓ نے دو قربانیاں کی اور فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور اسی لئے میں آپ ﷺکی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداؤد، ترمذی)
قربانی کرنے والے کے لئے مستحب عمل:
٭ حضرت ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے، اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ ( مسلم) اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں‘ قربانی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔

ایک شبہ کا ازالہ:
مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر بعض حضرات نے ایک نیا فتنہ شروع کردیا ہے کہ جانوروں کے خون بہانے کے بجائے صدقہ وخیرات کرکے لوگوں کی مدد کی جائے ۔ اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اسلام نے زکوۃ کے علاوہ صدقہ وخیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی بہت ترغیب دی ہے مگر قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عظیم الشان کارنامہ کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹادیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بلا چوں وچرا حکم الہی کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لئے اپنی گردن پیش کردی تھی ۔مگر اﷲ تعالی نے اپنا فضل فرماکر جنت سے دنبہ بھیج دیا، اِس عظیم الشان کارنامہ پر عمل قربانی کرکے ہی ہو سکتا ہے محض صدقہ وخیرات سے اِس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔ نیز ۱۴۰۰ سال قبل نبی اکرم ﷺ نے اس امر کو واضح کردیا :
حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لئے پیسے خرچ کرنا اﷲ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی، دار قطنی)
قربانی کا مقصد محض غریبوں کی مدد کرنا نہیں ہے جو صدقہ وخیرات سے پورا ہوجائے بلکہ قربانی میں مقصود جانورکا خون بہانا ہے ، یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ وخیرات کرنے سے یہ عبادت ادا نہ ہوگی۔ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے دور میں غربت دورحاضر کی نسبت بہت زیادہ تھی، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ جانور ذبح کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کرتے مگر تاریخ میں ایسا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا ۔

قربانی سے کیا سبق حاصل کریں؟
(۱) جانور کی قربانی کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کو یاد کریں کہ دونوں اﷲ کے حکم پر سب سے محبوب چیز کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگئے، لہذا ہم بھی احکام الہی پر عمل کرنے کے لئے اپنی جان ومال ووقت کی قربانی دیں ۔
(۲) قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اﷲ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے ۔ لہذا ہمیں من چاہی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزارنی چاہئے۔
(۳) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں بلکہ انہوں نے پوری زندگی اﷲ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں
گزاری ،جو حکم بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ملا فوراً اس پر عمل کیا۔ جان ،مال ،ماں باپ، وطن اور لخت جگر غرض سب کچھ اﷲ کی رضا میں قربان کردیا، ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اﷲ تعالی کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم خوش وخرم عمل کریں ۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 154298 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.