اُردو کا مستقبل

محسن نواز

اُردو کا امروز اس کے فردا کی خبر چیخ چیخ کر دے رہا ہے کہ اگر اُردو سے ہونے والی ناانصافیوں پر اربابِ اختیار خاموش تماشائی بنے رہے تو یہ جلد ہی اپنی آخری سانسیں گنتی دکھائی دے گی۔ سازشِ مغرب اور حکومتِ وقت کی غفلتِ مجرمانہ کے تحت اُردو کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش ایک عرصے سے ہو رہی ہے۔ کسی قوم کی تہذیب و ثقافت پر حملہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اُس کی زبان پر وار کیا جاتا ہے۔ اور بے بسی کی بات یہ کہ ہم اس حملے پر کوئی مزاحمت بھی نہیں کرنا چاہتے۔

ہمارا تمام تر تعلیمی نظام مغرب کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ عصرِ حاضر میں تعلیمی پالیسی بناتے وقت اُردو کے فروغ اور بہتر مستقبل پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ اُردو کو سمجھنے کے لیے عربی اور فارسی زبانیں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ چونکہ یہ تینوں زبانیں مسلمانوں سے منسوب ہیں اس لیے اُردو کی طرح عربی اور فارسی کو بھی ہمارے نصابِ تعلیم میں کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ درحقیقت مغرب ہمارے تعلیمی نظام میں مداخلت کرکے ہمارے اخلاق و اقدار، زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کو کھوکھلا کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ مغرب کو ہمارے تعلیمی نظام کو بلند کرنے میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ اور آج یہ عالم ہے کہ پاکستان میں انگریزی کو برہمن اور اُردو کو شودر کی حیثیت حاصل ہے۔ ہمارے بعض پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اکرام کو بچوں سے صرف انگریزی بولنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ طالب علم کو سکول کے روزِ اوّل سے انگریزی ہی سننے کو ملے گی تو اُردو کیوں کر اُن کے ذہنوں پر نقش ہوگی۔
’’معیار ۸‘‘ کے ابتدائیہ میں تحریر ہے:

’’یہ ایک رویہ نہیں بل کہ اس قومی انحطاط کی علامت ہے جہاں قومی زبان کو کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ دنیا کا ہر ملک اس وقت اپنی ثقافتی برتری اور پہچان کے لیے کوشاں ہے لیکن ہماری کوئی ثقافتی و لسانی پالیسی ہی نہیں۔ کہنے کو اُردو آئینی طور پر پاکستان کی قومی زبان ہے لیکن عملاً انگریزی کا راج ہے۔ اُردو بولنے والوں کو کم تر سمجھا جاتا ہے، سرکاری ملازمت کا راستہ بھی انگریزی سے ہو کر جاتا ہے۔ اُردو پڑھنے والوں کے لیے تدریس کا شعبہ ہی باقی رہ گیا تھا وہاں بھی اب گنجائش سے زیادہ تعداد موجود ہے، سو اب اُردو کس لیے پڑھی جائے؟‘‘ ۱؂

ہمارے اعلا تعلیمی اداروں کا یہ عالم ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی شعبہ اُردو میں داخلہ کے لیے (GAT/NTS) طرز کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے جس میں انگریزی اور ریاضی وغیرہ کے سوالات ہوتے ہیں اور اکثر اُردو کے طالب علم اس وجہ سے داخلہ نہیں لے پاتے کہ وہ اس امتحان میں پچاس فیصد نمبر حاصل نہیں کرسکتے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اُردو میں داخلہ کے لیے انگریزی کیوں ضروری ہے؟ جب قائداعظم کے نام لیوا پہلی جماعت سے ذریعۂ تعلیم انگریزی کی بات کرتے ہیں وہاں اُردو کا مستقبل کیا ہوگا۔ جو خطرات اُردو کو ہندوستان میں لاحق تھے وہی آج منظرنامہ پاکستان میں ہے۔ زبان کی اشاعت میں جرائد اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اُردو کے جرائد بھی ناروا سلوک کا شکار ہیں۔
’’معیار ۶‘‘ کے اداریہ میں تحریر ہے:
اُردو کے تقریباً سبھی جرائد اس وقت کیٹگری ’زیڈ‘ میں ہیں۔ اس کی وجہ اُردو میں انڈیکسیشن کا نظام نہ ہونا ہے۔ اس کے لیے مقتدرہ قومی زبان ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور یہ اس کے فرائض میں بھی شامل ہے۔ قومی سطح کا پروفیسر بننے کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ شخص کے مضامین کیٹگری ’وائی‘ اور ’ایکس‘ میں چھپے ہوں لیکن اُردو کا کوئی جریدہ ان دونوں کیٹگریز میں نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُردو کا کوئی سکالر قومی سطح کا پروفیسر نہیں بن سکتا۔ یہ اُردو زبان کے ساتھ ایک ناروا اور معاندانہ سلوک ہے۔‘‘ ۲؂
ہندوستان کی قومی زبان اُردو نہیں لیکن پھر بھی وہاں کئی ادارے ہیں جہاں ذریعۂ تعلیم اُردو ہے اور وہ اُردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
’’اس وقت اُردو بحیثیت زبان ملک (ہندوستان) کی بائیس یونی ورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہے جن میں بعض جامعات گریجوایشن کراتی ہیں اور چند ایک پوسٹ گریجوایشن بھی کراتی ہیں۔ بھیم راؤ امبیڈکر اوپن یونی ورسٹی حیدر آباد، کرناٹک اسٹیٹ اوپن یونی ورسٹی، جامعہ عثمانیہ حیدر آباد، بہار یونی ورسٹی مظفرپور، للت نرائن متھلا یونی ورسٹی دربھنگہ، برکت اﷲ یونی ورسٹی بھوپال اور مولانا آزاد نیشنل اُردو یونی ورسٹی وغیرہ سرفہرست ہیں جو اُردو میں ایم اے کراتی ہیں۔ اُردو بحیثیت ذریعہ تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اوپن یونی ورسٹی حیدر آباد اور مولانا آزاد نیشنل اُردو یونی ورسٹی میں مستعمل ہے۔‘‘ ۳؂

پاکستان کے بعض ادارے بھی اُردو کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن وہاں طلبہ کی گنجائش بہت کم رکھی جاتی ہے۔ اُردو کی ادبی محافل بھی اکثر منعقد ہوتی ہیں لیکن اِن اداروں اور ادبی محافل تک تمام اُردو بولنے والوں کی رسائی نہیں ہو پاتی اور وہ اس سے فیض یاب نہیں ہو پاتے۔ جس طرح ہر اُردو بولنے والے کی رسائی فورٹ ولیم کالج تک نہ ہو پاتی تھی جس کی وجہ سے باہر کا ماحول کالج کے اندر کے ماحول سے مختلف تھا۔

ڈاکٹر محمد ہارون قادر اپنے مضمون ’’فورٹ ولیم کالج: تاریخ کے آئینے میں‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’فورٹ ولیم کالج سے باہر کی اُردو نثر، اسلوب کی ان تبدیلیوں کا اظہار کرنے سے قاصر رہی کہ جو تبدیلیاں فورٹ ولیم کالج کی حدود کے اندر ہو رہی تھیں چنانچہ مسئلہ یہ بنا کہ کالج سے باہر کی دُنیا میں تبدیلی کا عمل کیوں شروع نہ ہوسکا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج سے شائع ہونے والی کتابیں کالج کے اندر ہی رہیں۔ ان گراں قدر قیمت کتابوں کی خرید ہندوستانی معاشرے کی قوت سے بہت بلند تھی اور پھر کتب فروشی کے جدید نظام کی عدم موجودگی میں ان کتب کی اشاعت اور پھیلاؤ کا سلسلہ بھی محدود رہا۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر کالج سے باہر کی اُردو نثر مدت تک کالج کے تجربات سے مناسب طور پر آشنا نہ ہوسکی چونکہ فورٹ ولیم کالج کے اسلوب کا تجربہ اجتماعی تجربے کا حصہ نہ بن سکا۔‘‘ ۴؂

اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں اُردو میں جو اصلاحات کی جاتی ہیں وہ عام آدمی تک نہیں پہنچ سکتیں اور جس وجہ سے تلفظ اور املا کی غلطیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اکثر غلط الفاظ بچوں نے استاد سے سُنے ہوتے ہیں یا کتب سے پڑھے ہوتے ہیں اور وہ اُن کے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اشرف کمال لکھتے ہیں:
’’املا ایک سادہ سا لفظ ہے مگر اس کا تعلق براہ راست زبان اور قواعد سے ہے۔ اگر کسی زبان میں لکھی گئی کتب یا تحریروں میں الفاظ و تراکیب اور حروف کا املا درست نہ ہو گا تو اس سے زبان میں بگاڑ پیدا ہونے کا احتمال ہے۔‘‘ ۵؂

رشید حسن خاں اپنی کتاب ’’اُردو املا‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’اُردو میں قواعدِ زبان کے جن اہم مسائل کی طرف کم توجہ کی گئی ہے، اُن میں املا کے مسائل کو فہرست میں سب سے اُوپر رکھا جاسکتا ہے۔‘‘ ۶؂

اُردو زبانی طور پر تو قومی زبان ہے لیکن عملی طور پر آج بھی اپنا مقام حاصل کرنے کی منتظر ہے۔ قرارداروں میں اُردو کو ملک کی قومی زبان قرار دے کر اس کی ترویج کے منصوبے تشکیل دیئے گئے لیکن عملی طور پر کارکردگی صفر رہی۔ حکومتی اور سرکاری دعوے اور وعدے ’’سرمد شہید‘‘ کے اس شعر کی عملی تفسیر ہیں:
؂ اعتبارِ وعدہ ہائے مردمِ دُنیا غلط
ہاں غلط، آرے غلط، امشب غلط، فردا غلط

اُردو کے ساتھ جو سلوک ہم نے روا رکھا ہے کسی بھی ملک نے اپنی قومی زبان سے ایسا سلوک نہ کیا ہوگا۔ ہمارے حکمران بین الاقوامی کانفرنس میں بیٹھ کر انگریزی بولنے کو صد افتخار سمجھتے ہیں۔ وہاں عام آدمی کو اُردو بولنے میں شرمندگی کیوں نہ ہو۔ حکمران مغربی ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ جہاں ویسٹرن انٹرسٹ والے لوگ مجاورینِ پاکستان بنے بیٹھے ہوں وہاں اُردو کیسے زندہ رہ سکتی ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنّفین پاکستان، کراچی کے زیر اہتمام ۲۳ دسمبر ۲۰۰۶ء کو ارتقا آفس میں ایک مشاورتی اجلاس ہوا۔ ۷؂ جس میں مختلف ادباء نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ ڈاکٹر سلیمان نے وہاں کہا:
’’ہمیں سندھی، سرائیکی، بلوچی و پنجابی زبان پر، اُردو کے قبضے کا نہیں۔ بل کہ خود اُردو کے خاتمے کا ڈر ہے۔‘‘ ۸؂
حوالہ جات
۱۔ ابتدائیہ، مشمولہ: معیار ۸، اسلام آباد: بین الاقوامی یونی ورسٹی، جولائی-دسمبر ۲۰۱۲ء، ص: ۷
۲۔ اداریہ، مشمولہ: معیار ۶، جولائی-دسمبر ۲۰۱۱ء، ص: ۷، محولہ بالا
۳۔ زبیر شاداب، فاصلاتی نظامِ تعلیم، مشمولہ: اُردو دُنیا، شمارہ: ۱۲، نئی دلی: قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، دسمبر ۲۰۱۳ء، ص: ۳۵
۴۔ محمد ہارون قادر، ڈاکٹر، فورٹ ولیم کالج: تاریخ کے آئینے میں، مشمولہ: تخلیقی ادب، شمارہ: ۸، اسلام آباد: نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز‘ ‘ ص: ۱۴۸
۵۔ محمد اشرف کمال، ڈاکٹر، زبان میں املا اور تلفظ کی اہمیت، مشمولہ: معیار ۷، جنوری-جون ۲۰۱۲ء، ص: ۴۵۱، محولہ بالا
۶۔ رشید حسن خاں، اُردو املا، لاہور: مجلس ترقی ادب کلب روڈ، ۲۰۰۷ء، ص: ۱۰
۷۔ عہد حاضر میں انجمن ترقی پسند مصنّفین پاکستان کی ضرورت، افادیت اور تنظیم نو کے لیے لائحہ عمل مشاورتی اجلاس کی روئیداد، مشمولہ: ترقی پسند تنقید…… پون صدی کا قصہ، مرتبہ: حمیرا اشفاق، لاہور: سانجھ پبلی کیشنز مزنگ روڈ، ۲۰۱۲ء، ص: ۴۱
۸۔ ایضاً ص: ۵۲۵
……٭……

Urdu ka Mustaqbil - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Urdu ka Mustaqbil and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Urdu ka Mustaqbil.