کل چمن تھا آج ایک صحراہوا

کشمیر کے حسن و جمال، قدرتی مناظر اور دلکش ذخائر کی مثال دنیا کے کسی گوشے میں نہیں ملتی- یہاں کے اونچے اونچے پہاڑ، وسیع ترین میدان، ہر چہار سمت دریاوں کی روانی، پیڑ پودوں کی فراوانی اپنی مثال آپ ہے-وادی ٔ کشمیر ،جنت بے نظیر،یہاں کے آبشار، شالیمار، نشاط، شہد کی بہتی ندیاں آسماں چھوتے بنگلے کیا کچھ نہ تھاڈل جھیل جو کہ کشمیر کی خوبصورتی کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے کشمیر کی خوبصورتی کو دیکھ کر امیر خسرو دہلوی نے کیا خوب کہا ہے:
اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

لیکن وقت نے کروٹ بدلی اور گھر گھر ڈل بنا دیاسیلابی قہر نے آن کی آن میں وادی ٔ کشمیر کے اس خوبصورت چمن کو ایک ہی پل میں ویران کر دیالاکھوں کی تعداد میں گھر اُجڑگئے اربوں کا نقصان ہوا معصوم جانیں سیلابی قہر کی نذر ہوگئیں اپنوں سے اپنے بچھڑ گئے کچھ اپنے لخت ِ جگروں کے غم میں نڈھال اور کچھ اپنے والدین کی جدائی میں غم زدہ،چاروں اطراف آہیں، سسکیاں، چیخ و پکار آنسوؤں کی برسات،پچھڑنے کا غم، آرزوئیں غرق آب، معصوم بچوں کی چیخیں انسانی دلوں کو پاش پاش کرتی ہیں بھوک و پیاس سے بے ہوش بچوں کی آہیں دلوں کے تار توڑ دیتی ہیں ، جہلم کی بے وفائی نے مار ڈالا، کل جہاں وادی کے لا تعداد نظارے وادی کو دلہن کی طرح سجائے ہوئے تھے آج قہر انگیز سیلاب نے اس کی تمام خوبصورتی کو مسخ کر دیا وادی ٔ کشمیر جہاں کبھی خزاں کا گذر بھی نہ ہوا آج اس جنت نما کشمیر میں خزاں نے اس طرح سے اپنا ڈھیرا جمایا کہ سالہا سال تک یہاں بہار کے آمد کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی ۔ اس قہر انگیز سیلاب میں اور کتنی انسانی جانیں تلف ہوئی ہونگی اس کا کوئی اندازہ نہیں ۔ہر آنکھ اشکبار ،ہر دل سو گواربچے، نوجوان، بزرگ سب کے سب اس قدرتی آفت کے شکار،کوئی بیمار تھا توکوئی لاچار لیکن قد رتی آفت کے سامنے ہر کوئی بے یار ومدد گاراس قہر انگیز سیلاب میں مبتلا جان بچانے کی مدد مانگ رہا تھا لیکن جسے اﷲ رکھے اُسے کون چکھے جن کو حیات رہنا تھا وہ موت کے منہ سے بچ نکلے اور جن کو اس جہان ِ فانی سے کوچ کرنی تھی وہ مدد کے باوجود بھی بچ نہ سکے یہ اٹل ہے کہ قدرت کے سامنے کسی بھی نہیں چلے گی یہاں نہ عمر سرکار کچھ کر سکتی ہے نہ ہی مفتی کاسرکاراﷲ تعالیٰ کی طرف سے لائی ہوئی اس سیلابی مصیبت کی زور دار لہروں کے سامنے مودی لہر کچھ بھی نہیں بجائے اس مصیبت کی گھڑی میں اس قدرتی آفت پہ ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے کے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد میں آگے آنے کی ضرورت ہے اس اُجڑے چمن کو پھر سے آباد کرنے کے لئے ہمیں اپنی مالی امداد دینی ہو گی نہ کہ زبان خرچی کر کے ایک دوسرے پہ الزام عائد کر کے وقت کو ضائع کرنا ہے ۔اگر آج کے اس اہم وقت میں بھی ہم سیاست کرتے رہے تو سمجھ لینا وقت کے بے رحم ہاتھوں ہم سب مٹ جائیں گے آج کی مدد کل ہماری مدد بن سکتی ہے اس لئے ہر درد ِ ل رکھنے والے انسان کو مدد کے لئے آگے آنا ہو گا یہ درد صرف وادی ٔ کشمیر کا درد نہیں یہ درد اُن کا بھی ہے جن کے بچے وادیٔ کشمیر میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے تھے اور آج بھی لا پتہ ہیں، یہ درد اُن کا بھی جو بیرون ریاست سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لئے وادی آئے تھے لیکن واپس نہیں لوٹے اُن کے اہل ِ خانہ اُن کے آنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ معصوم بچے جو اپنے والدین کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ آئیں گے اور ہمارے لئے ڈیڑھ ساری چیزیں لائیں گے کیا ہوا اُن کے ارمانوں کا ، اُن کی آرزوؤں، اُن کی تمناؤں کاکہ وہ کب تک انتظار میں رہیں گے وادی ٔ کشمیر کا خوبصورت چمن کیا اُجڑا کہ ہر گھر کا چمن اُجڑ گیا ہرطرف بہتی لاشوں کا طوفان اُمنڈ آیا، مجھے تو وہ لاشیں نظر آتی ہیں جن کے مردہ ہونٹوں ہزار ہا سوالات تھے؟،اُن بزرگوں کی دہائی نے ہر درد دل بے کل کر رکھا ہے جس کی ساری عمر کی جمع پونجی نذرِ آب ہوئی، آنکھیں اشکبار ہیں اس باپ کی آہ وبکاسن کرجس کا واحد سہارا جوان پانی میں بہہ گیااورننھی منی نسل نوبھی۔دل میں ایک ہوک سے اٹھتی جگر کے پارے پارے ہو جاتے ہیں اوربے چین کر رہی ہے وہ ماں جواپنے معصوم اور اکلوتے بیٹے کی تلاش میں سیلاب میں ادھر سے اُدھر روتے بلکتے اپنے بالوں کو نوچتی تھی اور یہ فریاد کر رہی تھی کوئی میرے جگر کے ٹکڑے کو سیلاب کے قہر سے باہر نکال لاؤ لیکن کوئی نہیں تھا جو اس ماں کی فریاد کو سنتا ہر طرف اداسیوں اور مایوسیوں کا پہرا تھا آج ہر انسان کو زندگی کے امتحان نے ایسے موڑ پہ لا کھڑا کر دیا تھا جہاں زندگی نہیں موت منہ پھاڑے کھڑی اُن کا انتظار کر رہ تھی ۔در بے شمار لیکن لکھنے کے لئے الفاظ نہیں۔

یہ بجاکہ حکمران سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔لیڈران کی کاوشیں بجا مگر قوم کو سیلابوں کا سامنا تو پہلے سے ہی ہے۔چھوٹے موٹے سیلابوں کو چھوڑئیے ،اب تک03 ایسے بڑے سیلاب آ چکے ہیں جن کی تباہ کاریوں کی داستانیں اب بھی زباں زدِعام ہیں۔کیا اس سے قبل اس سب پہ کبھی غور و خوص کیا گیا ہر گز نہیں جبکہ اس کے برعکس وادی میں فلموں کی شوٹنگ کروا کر وادی کے قدرتی حسن سے فائدہ اُٹھا کر ہر ایک نے اپنی اپنی تجوری بھرنے کا کام جاری رکھاآج جب یہ جنت نما کشمیر سیلاب کی نذر ہو گیا تو سب نے منہ موڑ لیا اور یہاں کی عوام بس اب یہی کہہ رہی ہے کہ………………
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا
سلوک ہم سے جو دنیا نے کیا ہے
MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 30021 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More