پاکستان کانظام تعلیم کیسا ہونا چاہیے؟

پاکستان میں اس وقت بنیادی طور پر چار طریقہ ہائے تعلیم رائج ہیں پہلا سرکاری اداروں ،دوسرا پرائیویٹ تعلیمی اداروں ،تیسرا مکمل سیکولر، غیر ملکی اداروں ،چوتھا مدارس دینیہ پر مبنی ہے سرکاری اداروں میں دی جانے والی تعلیم کے نصاب پر اس وقت برا وقت ہے کیونکہ اسلام ،مشاہیر اسلام، بنیادی اسلامی تعلیمات کو درجہ بدرجہ نصاب سے رخصت کیا جارہا ہے اس پر کافی زیادہ کام ہوچکا ہے قومی زبان اردو کو نصاب سے بے دخل کرنے کیلئے انگلش میڈیم کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اپنایا گیا جو بری طرح ناکام ہو گیا ننانوے فیصد طلبہ و طالبات انگلش میڈیم نصاب تعلیم کو سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ انگلش میڈیم پڑھنے والے سٹوڈنٹس کو اس بات کا شعور ہی نہیں ہو پاتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں والدین اور سٹوڈنٹس نے انگلش میدیم نظام تعلیم کو مسترد ہی نہیں بلکہ اس پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کردیا ہے مفت تعلیم تو سرکاری اداروں میں دی جارہی ہے مگر بنیادی مقصد ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا ،دوسرا طریقہ تعلیم وہ پرائیویٹ ادارے ہیں جو ملک کے گلی محلوں میں کھلے ہیں ہر ادارے کااپنانصاب ہے اپنی مرضی کی قیمت اور فیس کے ساتھ اخراجات کا ایک بہت بڑا بوجھ ۔۔۔۔ یہ ادارے بھی گورنمنٹ کی نقالی کرکے پرائیویٹ انگلش میڈیم نصاب لاگو کرچکے ہیں ایک پرائیویٹ ادارے کے استاد نے سرکاری سکولوں جیسی ہی صورت حال بیان کی ۔یعنی اتنے اخراجات کرکے بھی وہی براحال البتہ والدین ان پرائیویٹ سکولوں میں بچوں کو اس لئے داخل کرواتے ہیں کہ متعددنے ناظرہ ،ترجمہ یا حفظ قرآن کا انتظام کر رکھا ہے ہمارے ملک میں حفظ قرآن کے ساتھ دینی تعلیم کے حامل ایک ،دو وسیع نیٹ ورک کا حامل ادارے ہیں جن پر لوگوں نے اعتماد کیا ہے کیونکہ ان کا طریقہ تعلیم سب سے منفرد اور ساتھ ہی اخراجات بھی آسمان سے باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ میرا بچہ ان تعلیمی اداروں میں پڑھے تاکہ عصری ودینی تعلیم حاصل کرے مگر تعلیمی اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ یہاں پر عام،غریب،اکثریت کا بچہ اس کا گیٹ تو دیکھ سکتا ہے مگر یہاں تعلیم حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ یہاں ایک بچہ داخل کروانے کی فیس دس سے بیس ہزار روپے ہیں ۔ تیسری قسم کے ادارے مکمل سیکولر ہیں یہاں کا نصاب تعلیم غیر ملکی ہے اور ان اداروں کے اخراجات سب سے زیادہ ہیں اس لئے کہ یہاں امیر کبیر ،الیٹ کلاس کے لوگوں کے بچے قیمتی گاڑیوں پر آتے جاتے ہیں ان اداروں کے تعلیم یافتہ طلباء ہی ملک کے اہم عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں باقی ماندہ اس سے نیچے ہی رہ پاتے ہیں ان تینوں قسم کے نظام تعلیم کے ساتھ مدا رس دینیہ کا شعبہ ہے جو فی سبیل اﷲ تعلیم دینے میں مصروف ہے ان تعلیمی اداروں میں دنیاوی تعلیم کی اہمیت بہت کم ہے بعض تو اسے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں یہاں اکثریت ان طلباء کی ہے جو تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے انہوں نے دینی تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دے رکھی ہے اس طرح ملک مسٹر اور ملا میں تقسیم ہے۔مندرجہ بالا تقسیم کو اگر مزید تقسیم کیا جائے تو ملک پاکستان میں پینتیس قسم کے نظام تعلیم چل رہے ہیں جسکی وجہ سے ملکی وحدت پارہ پارہ ہو چکی ہے تقسیم در تقسیم کے عمل کی وجہ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس کے علاوہ بڑا مسلۂ جوان اداروں میں دیکھنے میں آیا جس نے تعلیم کے میدان میں ہمارے ملک کو پیچھے دھکیل دیا وہ مخلوط نظام تعلیم ہے اس اقدام کے بعد کامیابی کا کم تناسب ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ یورپ و مغرب میں بھی بہت زیادہ ہے مغربی مفکر،ماہر تعلیم میثل فئیر نے اپنی کتاب (مخلوط تعلیمی ادارے شاہکار گاہیں ) میں اس بات پر زور دیا ہے کہ مرد وزن کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کرکے مطلوبہ تعلیمی حدف حاصل کیا جاسکتا ہے اس کے بعد سویڈن،فن لینڈاور جرمنی میں طالبات کیلئے الگ تعلیمی ادارے بنانے کی تجویز پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے فرانس کیتھولک درس گاہوں ایسا کرنا شروع کردیاہے برطانیہ میں only for girls school کے اشتہارات دیکھے جاسکتے ہیں ماہنامہ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق طالبات کے لئے الگ تعلیمی ادارے امتحانی نتائج میں اضافے کاسبب بنے ہیں 1997میں طلبہ کی کارکردگی86فیصد، الگ طالبات کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی کا تناسب 81فیصد رہا، فیثل فئیر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں الگ درس گاہوں کیلئے قانون سازی کی ناگزیر ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں مخلوط ،سیکولرتعلیم نے اسلام،مسلمانوں اور اداروں کے وقار کو شدید مجروح کیا ہے ایسے حالات میں جب مغرب اسلام کے نظریہ (مردوزن کے الگ الگ نظام تعلیم) کو قبول کرنے پر آمادہ ہورہا ہے انقلاب کے دعویدار طاہر القادری کی طرف سے ملک کو سیکولر نظام تعلیم رائج کرنے کی بات مزید تباہی کا پیغام تو ہو سکتا ہے تعمیر کا نہیں ،طاہر القادی کے اس بیان کے بعد کہ مدارس کی بجائے مغربی نظام تعلیم کے اجراء چاہتے ہیں سے ان کا اصل چہرہ اور عزم کھل کر سامنے آگیا ہے ۔۔۔۔۔ان حالات و واقعات میں پاکستان کا نظام تعلیم کیسا ہونا چاہیے ؟ یقینا قوم چاہتی ہے کہ نصاب تعلیم اسلامی روایات کاحقیقی امین(جس میں قرآن ،بنیادی اسلامی تعلیم،نرسری سے ماسٹر کلاسز تک کا ہونا انتہائی ضروری ہے) ہونے کے ساتھ جدید علوم سے بھی آراستہ ہو لہذا عرض ہے کہ حکومت سب سے پہلے تعلیم کو بیرونی اسلام دشمن ممالک کے فنڈ،چندے سے پاک کرتے ہوئے ایسا نظام تعلیم مرتب کرے جس میں اسلامی ،ملی،تہذیبی،ثقافتی،تمدنی،جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج ہو۔ملک بھر کے تمام سرکاری و نجی اداروں میں یکساں ،قومی زبان اردو کا حامل نصاب تعلیم فورا لاگو ہونا چاہیے تاکہ سٹوڈنٹس کو سمجھنے میں آسانی ہوجو ادارے اس ضابطے کو تسلیم نہ کریں ان کو مکمل سیل کردینے کے احکامات جاری کئے جائیں،طلباء وطالبات کیلئے الگ تعلیمی ادارے ازحد لازم وملزوم ہیں ،تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر دفاع کی طرح آزاد ہونا چاہیے تاکہ ماہرین تعلیم آزادی کے ساتھ تعلیمی پالیسیاں مرتب کرکے ان پر عمل کروا سکیں مزید صوبائی نصاب سازی کا اختیار بھی ختم کرنا ضروری ہے،ان اقدام سے ملک میں جاری علمی افراط وتفریط کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244966 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.