6 ستمبر - یومِ دفاع

تا قیامت قطع ِ استبداد کرو
موج خون او چمن ایجاد کرو
یوم دِفاع کو پاکستان میں قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔یہ دن ان شہداء کی یاد میں منایا جاتا ہے جو ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہوئے۔پاک بھارت جنگ اپریل ۱۹۶۵ء سے ستمبر۶۵ ۱۹ء تک ‘پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی انتہائی شکل تھی۔مسلمانوں کے ہا تھوں بار بار رسوا ہونے کے باوجود ہندو قوم کو ہوش نہیں آیاکہ جس قوم سے وہ ٹکرا رہے ہیں وہ کٹ تو سکتی ہے پر جھک نہیں سکتی۔یہ جنگ Second Kashmir warکے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔جو پاکستان و بھارت نے کشمیر کے متنازعہ علاقے میں لڑی۔پاکستان و بھارت دونوں نے یہ جنگ کشمیر کے لیے لڑی لیکن یہ مسٗلہ پھر بھی حل نہ ہو سکا۔اس ۵ ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ میں دونوں طرف سے ہزاروں لوگ زخمی ہوئے۔آخر کار ۶ ستمبر کو UNکی مدد سے یہ جنگ ختم ہوئی۔

پاکستان میں یہ دن آج بھی منایا جاتا ہے اور پاکستان کے مقامی لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ کس طرح ہمارے فوجیوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے ا پنی جانوں کی قربانیاں دیں۔

۶ ستمبر کا دن پاکستان کے استحکام اور امن کے لیے کی گئی دعاؤں سے شروع ہوتا ہے۔صدر اور وزیراعظم یوم دِفاع کے حوالے سے منعقد کئے گئے پروگراموں میں تقاریر کرتے ہیں۔آرمی افسران جیسے کیپٹن سرور شہید‘میجر طفیل شہید‘میجر راجہ عزیز بھٹی ‘میجر شبیر شریف شہید‘میجر محمد اکرم شہید‘پائلٹ راشد منہاس‘حوالدار لالک جان وغیرہ کو نشان حیدر پیش کیا جاتا ہے۔

نشان حیدر ایک سپیشل بَیچ ہے۔جو پاکستان میں ان شہداء کو دیا جاتا ہے جو بہادری کی قابل تعریف مثالیں چھوڑ گئے۔اس موقع پر پاکستان آرمیLatest Missiles , Army Aviation Helicopters , Tanks , Gunsوغیرہ دکھاتی ہے۔یوم دفاع کے حوالے سے قومی گیت اور شہداء کے حوالے سے تقاریر بھی کی جاتی ہیں۔ پورے ملک میں یوم دفاع کے حوالے سے منعقد کئے گئے پروگرام ایک ایسی فضا‘ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جو لوگوں میں اتحاد اور حب الوطنی کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔حب الوطنی کا باب کتنا روشن اور کتنا کلیدی ہے یہ واضح کرنے کے لیے ادباء اور شعراء نے ایسے ایسے موتی تخلیق کئے ہیں کہ ان کی جگ مگ سے زمانہ چمک دمک رہا ہے۔وطن اور وطنیت کے لیے جو کچھ لکھا گیا اسے مرتب کیا جائے تو کئی جلدیں تیار ہو سکتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ محض ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتی بلکہ جذبوں سے جیتی جاتی ہے۔اور اس وقت یہ جذبے پاکستانی قوم میں بیدار تھے۔

یوم ِ دفاع اور قوم کا جذبہَ محبت
سرگودھا ائیر بیس کے کمانڈر کے بقول جنگ کے دنوں میں ائیر بیس کی حفاظت کے لیے اضافی فوج آئی ہوئی تھی ان کے لیے چارپائیوں اور بستروں کی ضرورت تھی سرگودھا کی ایک مسجد میں اعلان کیا گیا کہ فوجیوں کے لئے بستروں اور چارپائیوں کی ضرورت ہے۔میرے ذہن میں تھا کہ کچھ بسترے اور چارپائیاں مل جائیں تو گزارا ہو جائے گا۔لیکن میں نے دیکھا کہ ایک ہی گھنٹے میں پی اے ایف انسانوں اور گاڑیوں سے بھر چکا تھا۔ہر ایک کے پاس بالکل نئے بستر اور چارپائیاں تھیں۔مجھے اس کی توقع بالکل نہیں تھی۔ہم نے ضرورت کے مطابق چارپائیاں اور بستر لے لیے اور باقی لوگو ں سے گھر لے جانے کو کہا۔اور لوگ غصے سے چارپائیاں اور بستر پھینک کر کہنے لگے اگر ہم سے نہیں لینا تو ہم بھی واپس لے کر نہیں جائیں گے۔ ان کا یہ جذبہ اور خلوص دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اور میں سے دل میں کہا کہ اس قوم میں ایسا جذبہ ہے تو کوئی اس قوم کو شکست نہیں دے سکتا۔

اسی جنگ میں جب فوجیوں کے لیے خون کی ضرورت پڑی تو پاکستانیوں نے ایک اور مثال قائم کی۔بلڈ بینک کے سامنے لوگوں کی بڑی بڑی قطاریں لگ گئیں۔جب بلڈ بینک بھر گئے تو لوگوں کے گھروں سے عارضی طور پر فریج منگوا کر خون کی بوتلیں محفوظ کی گئی۔قطار میں لگا ایک نوجوان بڑا پرجوش تھا کہ اسے بھی اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کا موقع ملا۔اپنی باری پر اندر گیا اس کا وزن کیاگیا تو کم تھا ۔کم وزن اور کمزور جسم کی وجہ سے اس کا خون نہ لیا گیا۔تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ باہر نکلا اور سامنے کی دوکان سے دو کلو کا باٹ مانگا۔وجہ بتائی کہ کم وزن کی وجہ سے اس کا خون نہیں لیا گیا۔جب کہ وہ خون دینا چاہتا ہے۔یہ سن کر دوکاندار نے دوسری بات نہیں کی۔اور اسے باٹ دے دیا۔وہ باٹ اپنے کپڑوں میں چھپا کر پھر قطار میں لگ گیا ۔اب وزن پورا نکلا ۔رش کی وجہ سے کسی کو علم نہ ہوا کہ یہ وہ ہی نوجوان ہے۔جوان باہر نکلا اور دوکاندار کو شکریہ کے ساتھ باٹ واپس کر کے چلا گیا۔

یہ واقعات پڑھ کر اور سن کر آج بھی وہ لوگ ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہیں جو اپنے دِلوں میں آج بھی وطن عزیز کے لیے کسک اور احساس رکھتے ہیں۔ورنہ سب کے لیے ایسا نہیں ہے۔آج ہمارے ملک میں درپردہ غیر مسلم کا رواج ہے۔اور ہم مسلمان ہونے کے باوجود خدا کی بجائے اس سہارے پر یقین رکھتے ہیں۔ہمارا دین تو ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ وہ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔لیکن ہم یہ بھولتے جا رہے ہیں۔تو کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟؟؟؟؟

کچھ شہداء کے بارے میں

۱۔کیپٹن راجہ محمد سرور شہید
۱۰ نو مبر ۱۹۱۰ء کو گجر خان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد پاک فوج میں حوالدار تھے۔سرور صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول فیصل آباد سے حاصل کی اور ۱۹۲۵ء میں مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۱۹۲۷ء میں صرف سترہ سال کی عمر میں میڑک کا امتحان پاس کر لیا۔کیپٹن صاحب کو فٹ بال اور کبڈی سے کافی رغبت تھی۔آپ ۱۵ اپریل ۱۹۲۹ کو فوج میں بطور سپاہی شامل ہوئے۔آپ نے ابتدائی فوجی تعلیم Old Baloch Centre Karachiمیں حاصل کی۔دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر شاندار خدمات سر انجام دیں جس کے نتیجے میں حکومت برطا نیہ نے انہیں MAHAZ-E-BARMAکا تمغہ دیا۔پاکستان بننے کے بعد انہیں تمغہ خدمت پاکستان کے اعزاز سے نوازا گیا۔محاذ کشمیر پر خدمت کے لیے انہیں تمغہ Kashmir Operationدیا گیا۔۲۷جولائی ۱۹۴۸ء کو Orhiکے محاذ پر جام شہادت نوش کیا۔پاکستان کا پہلا نشان حیدر آپ کو ملا۔آپکا مدفن Orhi Kashmirمیں ہے۔

۲۔میجر طفیل
آپ۴ ۱۹۱ء میں ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔تعلیم مکمل کر کے پاکستان آرمی کو جوائن کیا۔۱۹۵۸میں ماہ اگست کے اوائل میں انہیں کہا گیاکہ وہ بھارتی فوج کی نفری سے لکشمی پور کا علاقہ خالی کروائیں۔آپ نے۷ اگست کو راتوں رات صحیح پیش رفت کرتے ہوئے پو پھوٹنے سے پہلے بھارتی فوجوں کا محاصرہ کر لیا۔اور اپنے دستے کی قیادت کرتے ہوہے آگے بڑھے۔دست بدست لڑائی میں میجر طفیل کافی زخمی ہوئے ۔انہیں تین گولیاں لگی۔اس کے باوجود آپ دشمن سے مقابلہ کرتے رہے ۔اور اپنے ملک کے استحکام کے لیے دستی بم گرا کر دشمن کی مشین گن کو خاموش کر دیا۔جب تک مورچہ بھارتی سپاہ سے مکمل طور پر خالی نہیں ہو گیا وہ اپنے دستے کی قیادت کرتے ر ہے۔بھارتی فوجیں اس مقام پر اپنے پیچھے ۴ لاشیں اور ۳ قیدی چھوڑ گئے۔میجر صاحب زخموں کی تاب نہ لا سکے اور وفات پا گئے۔

۳۔میجر راجہ عزیز بھٹی
آپ ۱۹۲۸ میں ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے۔پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تعلیم و تر بیت کی تکمیل پر انہیں دو اعلیٰ امتیاز ’’شمشیر اعزاز‘‘ اور ’’نارمن گولڈ میڈل‘‘ دئے گئے ۶ ستمبر ۱۹۶۵ کو میجر بھٹی لاہور میں بر کی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔اس معرکہ میں وہ نہ صرف دشمن کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار تھے بلکہ بہادری و حوصلہ سے اس کے حملوں کا منہ توڑ جواب بھی دے رہے تھے۔اس معرکہ میں دشمن کہ ایک ٹینک کا گولہ براہِ راست ان کے بائیں شانے پر آ لگا اور اس کی براہَ راست ضرب سے وہ شہید ہو گئے۔

۴۔لانس نائیک محمد محفوظ شہید
آپ۲۵اکتوبر ۱۹۴۴ کو راولپنڈی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔اور ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۲ کو برّی فوج میں شمولیت اختیار کی۔جب ۱۹۷۱ کی جنگ شروع ہوئی۔اس وقت یہ ۱۵ رجمنٹ کی اے کمپنی سے و ابستہ تھے۔دشمن سے جنگ کے دوران گن ہاتھ سے چھوٹھ گئی لیکن حوصلہ نہیں چھوٹا۔وہ ایک بھارتی سپاہی کو پکڑے اس کا گلہ گھو نٹ رہے تھے۔کہ ایک دوسرے بھارتی سپاہی نے انہیں سنگین مار کر شہید کر دیا۔
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
تمت بالخیر۔۔
از قلم
زنیرہ یوسف
(ایم اے علوم الاسلامیہ پنجاب یو نیورسٹی)
 
Zonaira Yousaf
About the Author: Zonaira Yousaf Read More Articles by Zonaira Yousaf: 4 Articles with 7189 views I hold a degree in uloom-al-islamia from punjab university... View More