شعا ئراﷲ(اﷲ کی نشانیاں)

 شعائرــــــــ ’’’شعیرہ‘‘‘ یا’’’ ـــــــشعارۃ‘‘‘ کی جمع ہے۔یعنی ہر وہ چیز جس پر نشان لگایا گیا ہو۔جو بطورِ علامت مقرر کی گئی ہو۔اس سے مراد شریعت کے جملہ اوامرِ و نواہی ہیں۔قرآن پاک میں ارشادِربانی ہے
﴿لا تحلو شعائراﷲ﴾
(القرآن)

قرآن کے جملوں کو آ یات کہا گیا ہے۔آیت کا مطلب ہے نشانی ۔اور نشانی وہ ہوتی ہے جس کے ذریعے کسی کو پہچانا جاتا ہے۔قرآن اﷲ کو پہچاننے اور اﷲ کی معرفت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔اس سلسلے میں قرآن پاک میں ہے کہ
﴿ان فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھاروالفلک الّتی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل اﷲ من السمّاء من مّاء فاحیا بہ الارض بعد موتھا وبثّ فیھا من کل دابۃ وتصریف الرّیح واللسّحاب المسخّر بین السّماء الارض لایت لّقوم یعقلون ﴾
(البقرہ)

چونکہ قرآن پاک نے اﷲ کی قدرت کی نشانیوں اور اس کی نعمتوں میں سے صرف ان کا تذکرہ کیا ہے جس کو شہری اور دیہاتی ‘عربی اور عجمی سب یکساں طور پر سمجھ سکتے ہیں۔اس لیے اس نے ان روحانی نعمتوں کا تذکرہ نہیں کیا جو علماء اور اولیاء اﷲ کے ساتھ مخصوص ہیں۔اسی طرح اس نے ان تمدنی وسائل کا اور عیش و عشرت کے سامانوں کا بھی تذکرہ نہیں کیا جو بادشاہوں اور امیروں کے ساتھ مخصوص تھے۔بلکہ قرآن نے جو موضوعات چنے وہ یہ تھے۔یہ سب اﷲ کی نشانیاں ہیں۔

۱۔زمین و آسمان کی پیدائش
﴿وھو الّذی خلق السّموات والارض فی ستّۃ اےّام ﴾
(القرآن)

۲۔ سورج ‘چاند‘ دن اور رات کا باری باری آنا
﴿والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم ۰ والقمر قدّرنہ منازل حتّی عاد کالعرجون القدیم ۰ لا الشّمس ینبغی لھآ ان تدرک القمر ولا الّیل سابق النّھار وکل فی فلک یّسبحون۰﴾
(القرآن)

۳۔ہواؤں کی گردش
۴۔بادِلوں سے پانی کا برسنا
﴿اﷲ الّذی خلق السّموات والارض وانزل من السّمآء مآءً فاخرج بہ من الثّمرات رزقالّکم﴾
(القرآن)

۵۔بارش سے طرح طرح کے پھلوں اور اناج کا پیدا ہونا وغیرہ۔

جیسے ہم ایک بیچ لگاتے ہیں اور وہ چھ ارب گنا بڑا درخت بن جاتا ہے ۔اور اس بیچ میں بہت ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔ جتنی بھی تصانیف اب تک تاریخ انسانی میں لکھی جا چکی ہیں یا قیامت تک لکھی جائیں گی ایک بیچ کے اندر اتنا ڈیٹاموجود ہے ۔اس سے درخت‘اس کے پتے‘ پتوں کا سائز‘اس کا کلر‘ فروٹ کا کلر‘اس کی dimensions‘پھول کا سائز‘کتنے پھول‘کیا خوشبو‘اس کے پکنے کا ٹائم ‘اس کا ذائقہeach & everything بیچ کے اندر لکھی ہوئی ہے۔کوئی آرٹسٹ اتنا ڈیٹا سٹور نہیں کر سکتا۔

اسی طرح کچھ مقامات پر انسان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لیے اس کی کچھ کمزوریوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔جیسے جب ہمیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو فوراً اﷲ کو پکارتے ہیں اور جب سکون ہوتا ہے تو اﷲ کو بھول جاتے ہیں اس طرح ہم جلدی کرنے والے اور کم شکر ادا کرنے والے ہیں۔

ہماری اپنی جانوں میں اﷲ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ ر حم مادر میں ہماری تخلیق کی جاتی ہے۔
﴿ولقد خلقنا الانسان مّن سللۃ من طین ۰ ثمّ جعلنہ نطفۃ فی قرارمّکین۰ ثّم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فکسونا العظام لحماثمّ انشانہ خلقا اخر فتبرک اﷲ احسن الخالقین ۰﴾
(القرآن)

﴿فانّا خلقنکم مّن تر اب ثمّ من نّطفۃ ثمّ من علقۃ ثمّ من مّضغۃ مّخلّقۃ وّ غیر مخلّقۃ لّنبیّن لکم و نقرّ فی الارحام ما نشآء
الیٰ اجل مّسمّی ثمّ نخرجکم طفلا ثمّ لتبلغوٓ اشدّ کم و منکم مّن یّتوفّٰی ومنکم مّن یاّرد الیٰ ارذل العمر لکیلا یعلم من بعد علم شیئا﴾
(الحج)

اس کے علاوہ دورانِ خون کا نظام ‘یاد رکھنے کی صلاحیت‘دماغ کا کام کرنے کا سسٹم‘ہاتھ پاؤں کا سسٹم ‘دل کا کام کرنے کا سسٹم کہ دل پمپ کرتا ہے تو پورے جسم کو خون مہیا کرتا ہے ‘گردے کا کام کرنا۔زیادہ تفصیل میں جائے بغیر اس بات کو تھوڑا سا واضح کروں گی کہ گردے چوبیس گھنٹوں میں اڑتالِیس بار ہمارے خون کو چھانتے ہیں۔ ایک ایک گردے میں دس لاکھ نیفرانز ہیں جو خون کو چھانتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ گردے جب کام کرنا بند کر دیتے ہیں توڈائلسز کروا نے پڑتے ہیں۔ایک وقت کے ڈائلسز پر دو ہزار لگتے ہیں۔آٹھ بار مہینے میں کروائیں تو سولہ ہزار اور سال بھر میں دو لاکھ اور گردے یہ دو لاکھ کا کام ہر انسان کے لیے کرتے ہیں۔

وہ جانور جن کے ذکر پر قرآن میں زور دیا گیا ہے۔
۱۔مکھی
۲۔شہد کی مکھی
۳۔اونٹ

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا کہ یہ تما م جانور اپنے اپنے خدوخال میں اپنے مالک کی لا محدود طاقت اور علم کی عکاسی کرتے ہیں۔اور اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو بھی وہ تخلیق کرتا ہے وہ ایک نشانی ہے ایک علامت ہے۔

۱۔النحل
﴿واوحی ربّک الی النّحل ان اتّخذی من الجبال بیوتا وّمن الشّجر وممّا یعرشون۰ ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فا سلکی سبل ربّک ذللا یخرج من بطونھا شراب مّختلف الوانہ فیہ شفاء للناس انّ فی ذلک لایۃ لقّوم ےّتفکّرون﴾
(النحل)

یہ بات کم و بیش ہر انسان کے علم میں ہے کہ شہد ہر انسانی جسم کے لیے بنیادی خوراک کی حیثیت رکھتا ہے۔اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شہد کی مکھی کی خوراک کا ذریعہ پھولوں کا رس ہے۔جو موسم سرما میں نہیں ملتا۔اسی لیے وہ موسم گرما کے دوران حاصل کردہ رس میں اپنے جسم کی خاص رطوبتیں ملا لیتی ہے۔اور پھر ایک نئی صحت بخش شے بناتی ہے جسے شہد کہتے ہیں۔اوراسے آنے والے موسم سرما کے مہینوں کے لیے ذخیرہ کر لیتی ہے۔

یہ بات قا بلِ ذکر ہے کہ یہ شہد کی جو مقدار ذخیرہ کر تیں ہیں وہ ان کی اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ اتنی زائد پیداوار چھوڑ کیوں نہیں دیتیں جو اِن کے لیے وقت اور محنت کا زیاں ہے۔اس کا جواب آیت میں موجود لفظ وحی میں موجود ہے۔جو وحی اس پر کی گئی ہے۔

شہد کی مکھیاں شہد صرف اپنے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے بھی پیدا کرتی ہیں۔اور انہیں بھی اﷲ نے انسانوں کی خدمت کی لیے پیدا کیا ہے۔

شہد کے فوائد
۱۔زودِہضم ہے۔
۲۔اس میں حراروں کی سطح کم ہوتی ہے۔
۳۔یہ خون کے اندر تیزی سے حل ہو جاتاہے۔
۴۔یہ خون بنانے میں مدد دیتاہے۔
۵۔یہ بیکٹریا کو جگہ نہیں دیتا۔
۶۔شاہی موم (رائل جیلی)

یہ ایک ایسی رطوبت ہے جو چھتے کی کارکن مکھیوں کے حلق سے خارج ہوتی ہے۔اس قوت بخش مادے میں شکر‘لحمیات‘چربی اور بہت سی حیاتین شامل ہوتی ہے۔جسم دبلا پتلا ہو تو اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے لیے یہ بہت کارآمد ہوتا ہے۔

﴿اس (مکھی) کے پیٹ میں سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے۔جس میں شفاء ہے لوگوں کے لیے﴾
(القرآن)

۲۔اونٹ
﴿تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے﴾
(الغاثیہ)

اونٹ کی کوہان چربیوں سے بنتی ہے۔یہ اس کو خوراک کی کمی کے دوران غذا فراہم کرتی اور بھوک سے مر جانے سے بچاتی ہے۔اس قدرتی نظام کے ساتھ یہ تین ہفتوں تک پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔

اس کی پلکوں میں ایک باہم قفل بندی کا نظام پایا جاتا ہے۔خطرے کی حالت میں یہ خود بخود بند ہو جاتی ہیں۔یہ باہم قفل بندی کا نظام اس کی آنکھوں کو ریت اور مٹی کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔اس کی ناک اور کان لمبے بالوں سے ڈھکے ہوتے ہیں۔جو ریت اور مٹی سے بچاؤ کے کام آتے ہیں۔

تپش سے محفوظ رکھنے والی اون ہوتی ہے۔اور پاؤں جو ہر قسم کی زمین کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔

۳۔مکھی
﴿وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے﴾
(الحج)

اس کی آنکھیں چھ ضلعی عدسوں سے بنتی ہیں۔ایک عام عدسے کی نسبت ان سے زیادہ وسیع و عریض علاقے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ان میں سے کچھ میں ان عدسوں کی تعداد کچھ وقتوں میں ۵۰۰۰سے زیادہ بھی ہوجاتی ہے۔اس کی آنکھ کی گولائی میں بنی ہوئی ساخت اسے اپنے پیچھے دیکھ لینے میں مدد دیتی ہے۔یہ آنکھ یوں اسے فوقیت دیتی ہے۔

اس کی ایک اور خاصیت یہ کہ یہ خوراک کو مختلف طریقے سے ہضم کرتی ہے۔بہت سے دوسرے جانداروں کے بر عکس یہ خوراک کو اپنے منہ کے اندرہضم نہیں کرتیں۔بلکہ اپنے جسموں کے باہر کرتی ہیں۔اﷲ کے سوا کون ایسی تخلیق کر سکتا ہے؟؟؟؟؟

اس کے علاوہ قرآن میں بیان کردہ مقامات جو کو شعائر اﷲ کہا گیا ہے ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔حج کے موقع پر کی جانے والی قربانی شعائر اﷲ میں سے ایک ہے۔
﴿والبدنَ جعلنھا لکم مّن شعائر اﷲ لکم فیھا خیر﴾
(الحج)
۲۔مقام ابراھیم ؑ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہے۔
﴿فیہ ا یۃبینۃ مقام ابراھیم ﴾
(القرآن)
۳۔صفا و مروہ اﷲ کی نشانیاں ہیں اور ان کی سعی کرنا حج کا ضروری رکن ہے۔
﴿ان الصفا المروۃ من شعائر اﷲ﴾
(القرآن)
۴۔شعائر اﷲ کی تعظیم کرنے والوں کے لیے کہا گیا ہے کہ
﴿ذلک ومن ےّعظّم شعا ئر اﷲ فا نّھا من تقوی القلوب﴾
(الحج)
یعنی شعائر اﷲ کی تعظیم کرنے والے لوگ وہ ہیں جو کے دِلوں کو تقوی کے لیے چن لیا گیا ہے۔پھر فرمایا
﴿کلّ من علیھا فان۰ ویبقی وجہ ربّک ذوالجلال والاکرام﴾
(الرحمٰن)
جہان فکرو نظر لا الہ الا اﷲ
متاِع اہل خبر لا الہ الا اﷲ
یہ ذکر حق کی متاع عزیز کیا شئے ہے
نہیں کسی کو خبر لا الہ الا اﷲ
زہے نصیب یہ دولت اگر مجھے مل جائے
ہو لب پہ شام و سحر لا الہ الا اﷲ
نجوم و شمس و قمر فریب دے نہ سکے
خلیل کی ہے نظر لا الہ الا اﷲ
تمت بالخیر۔۔
از قلم
زنیرہ یوسف
(ایم اے علوم الاسلامیہ پنجاب یونیورسٹی)
Zonaira Yousaf
About the Author: Zonaira Yousaf Read More Articles by Zonaira Yousaf: 4 Articles with 7188 views I hold a degree in uloom-al-islamia from punjab university... View More