ہم اور وہ(mock-romance)

محبت ، محبت ہے کوئی سائنس یا اخلاقیات نہیں۔اس پر کسی قسم کا کوئی فارمولا فٹ نہیں آتا۔ اس کی کوئی ڈیمانڈ نہیں کہ یہ ہو ،وہ ہو تو پھر ہو۔ اسے سیاست کہا جا سکتا ہے جس کے کئے عمر اور اخلاقیات کی کئی قید نہیں ہوتی، یا اسے ادب سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے جس میں کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے۔ غالبؔ اسے آگ قرار دے چکے ہیں اور آگ کسی بھی چیز کو لگ سکتی ہے یا اس پر اپنے اثرات ڈال سکتی ہے:
عشق پر زور نہیں، یہ ہے وہ آتش غالبؔ
جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

محبت کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں لیکن نوجوانی کی محبت مستحب ہے۔ادھیڑ عمر میں بھی اس شغل سے دل بہلایا جا سکتا ہے۔ اور ضعیف عمری بھی محبت سے مزین ہو سکتی ہے لیکن بہتر ہے کہ ضعیف عمری میں اس سے دور رہا جائے کیونکہ اس عمر میں اکثر سر پر بال یا تو بہت کم رہ جاتے ہیں یا بالکل نہیں رہتے۔
محبت کے لئے غیر شادی شدہ یا کنوارہ ہونا بھی لازمی شرط نہیں۔ شادی شدہ یا شادی زدہ ہو کر بھی اس میدانِ کار زار میں قدم رکھا جا سکتا ہے۔

محبت کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ انسان نے چار پانچ سے زیادہ بچوں کو جنم نہ دیا ہو۔صاحبِ اولاد ہو کر بھی یہ فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔

محبت کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ آدمی شریف اور پانچ وقت کا نمازی نہ ہو جیسا کہ ہم ہیں۔وہ اتنا شریف ہو کر بھی محبت کے جام نوش کر سکتا ہے۔

جیسے یہ سب باتیں محبت کرنے والے کے لئے ضروری نہیں ایسے ہی یہ سب باتیں جس سے محبت ہونی ہے اس کے لئے ضروری نہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ان ساری باتوں کے کرنے کا مقصد اور مطلب کیا ہے۔کہتے ہیں:
جس تن لگے، سئیو جانے
شاید آپ کو اندازہ ہو گیا ۔ ہاں جی آپ کا اندازہ درست ہے کیونکہ:
ولی کو ولی ہی پہنچانتا ہے

میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ بھی ماضی میں عاشقوں کی صف میں شمار ہوتے رہے ہیں نہیں ایسی بات کہنے کی مجھے قطعاً ضرورت نہیں:
دلیلِ آفتاب، آفتاب است

میرا مطلب تو صرف اتنا ہے کہ آپ کی دانائی اور تجربہ کاری آپ کو یہ ساری باتیں سمجھا چکی ہے یا ہو گی۔

میرا اصل مطمعِ نظر یہ ہے کہ آپ کو پتہ چلے کہ ہم آج کل ایک بار پھر محبت کے کھلواڑے میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں۔

اگرچہ ہم متعدد محبتوں کا انجام دیکھ کر اس محبت کے انجام کی پیش گوئی بھی کر سکتے ہیں جو حرف بہ حرف درست ثابت ہو گی لیکن ہم اتنی جلدی اس لطف سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے۔

ہم چار عدد بچوں کے باپ اور ایک عدد بیوی کے شوہرِ نامدار ہیں لیکن یہ سب باتیں محبت کی وسیع شاہراہ پر رکاوٹ نہیں ہیں۔

لطف کی بات یہ کہ جس سے محبت ہوئی وہ بھی بڑی حد تک ہماری عمر کی ہے۔ ہم اپنی عمرِ عزیز کا چالیسواں کر چکے ہیں۔ اور اب پچاسواں کرنے کے قریب قریب پھٹک رہے ہیں۔ وہ بھی ایسی ہی ہے۔ بالکل ہماری طرح وہ بھی چار عدد بچوں کی ماں ہے لیکن یہ بات بھی محبت کی گلی میں چلتی ہے۔

وہ اکثر اپنے سب سے چھوٹے بچے کو اپنے بازو میں اٹھا کر گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں اور ہم بھی اپنے سب سے چھوٹے بچے کو بازو میں اٹھا کر گلی میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح کسی کو کسی قسم کا شک بھی نہیں گذرتا ہو تقاضاء محبت بھی پورا ہو جاتا ہے۔

محبت کے لئے کسی خاص انداز کی ضرورت تو نہیں ہوتی لیکن جب محبت ہو جائے سارے انداز ہی خاص ہو جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک دو زیادہ ہی خاص ہو جاتے ہیں:
وہ ہنس کے اگر مانگیں تو ہم جان بھی دے دیں

یہاں ہنسنا ایک خاص انداز کی شکل اختیار کر گیا ہے، ورنہ ہنستا تو ہر کوئی ہے لیکن اس کی طرح تو نہیں۔
اسی طرح:
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنہء مژگاں کئے ہوئے

یہاں سرمہ ایک خاص انداز اختیار کر گیا ہے اگرچہ کاجل تو ہر حسین آنکھ کا پیدائشی حق ہے۔

آپ بھی ہم سے پوچھ سکتے ہیں کہ ان کا وہ کون سا خاص انداز ہے کو ہمارے ہوش و حواس پر طلسماتی اثر کر جاتا ہے۔ ہم نے آپ کا سوال آنے سے پہلے اس کا جواب سوچ کے رکھا ہوا ہے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ آپ کس قسم کے سوالات کر سکتے ہیں ۔ تو لو سنیں اس کی چال کا انداز ایسا قاتلانہ ہے کہ بس اگر آپ بھی غور سے دیکھ لیں تو ہماری کوئی ضمانت نہیں کہ کیا کریں گے اور کیا نہیں کریں گے۔ چلتے ہوئے اس کی ٹانگین اوپر سے نیچے کو گھٹنے کے قریب ایسی جنبش دیتی ہیں کہ ہمارا دل لرز جاتا ہے، جب دل لرزتا ہے تو تمام حواس کی لوڈ شیدنگ ہو جاتی ہے، جب لود شیڈنگ ہوتی ہے تو ہم اپنے آپ کو ایک تاریک غار میں محسوس کرتے ہیں۔ اس تاریک غار میں اسی جنبش کا ایک بار پھر چمکارہ پڑتا ہے اور ہم اس غار سے باہر آجاتے ہیں۔ اس بات سے زیادہ لوگ واقف نہیں۔ ویسے بھی مردانِ جہاں ٹانگوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہی آئے ہیں اور ٹیکتے ہی جائیں گے۔ ہم خلاف ورزی مرتکب کیوں ہوں ۔

ہم دونوں کے بالوں میں بہت چاندی آچکی ہے۔ میں بھی کبھی کبھی عمرِ رفتہ کو آواز دیتا ہوں اور وہ بھی کبھی کبھی مہندی لگا کر جوانی کو پکارا کرتے ہیں۔ لیکن سفید بالوں کے ساتھ محبت کرنا کوئی فاؤل کھینا تو نہیں ہے ناں۔ سفید بال تو زیادہ باوقار اور با اعتبار بناتے ہیں۔ اور آج کل تو سفید بال بچوں اور نوجوانوں میں بھی کثرت سے آ چکے ہیں تو کیا یہ نوجواں محبت کے لئے نا اہل قرار دئے جائیں گے۔ قطعاً نہیں۔ محبت سفید بالوں کا بھی اتنا ہی استحقاق ہے جتنا کہ کالے بالوں کا یہ بات پھر سے کہی جا سکتی ہے کہ کالے بالوں کے ساتھ محبت کرنا مستحب ہے اور سفید بالوں کے ساتھ جائز۔

کہا جاتا ہے کہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کر کھاتی ہے، لیکن محبت کے لئے یہ بھی ضروری نہیں۔ اکثر ہمسایوں سے ہی محبت ہوتی ہے۔ ہمارا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس میں ہمسائیگی کے حقوق کا خیال بھی رکھا جا سکتا ہے اور محبت کے معاملات بھی نبٹائے جا سکتے ہیں یعنی ایک تیر سے دو نشانے۔

محبت کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ دو طرفہ ہو اگرچہ غالبؔ دو طرفہ محبت کو ترجیح دیتے ہیں:
الفت کا تب مزا ہے کہ ہوں وہ بھی بے قرار
دونوں طرف سے آگ ہو برابر لگی ہوئی
لیکن یک طرفی محبت کا بھی اپنا ہی سواد ہے۔
مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
یہ یک طرفہ محبت کا ہی انداز ہے۔ مذید دیکھیں:
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

یہ بھی یک طرفہ تماشا ہے ورنہ دونوں اکٹھے ہی جلتے۔ ہم آپ کو کیسے یقین دلائیں کہ ہماری محبت بڑی حد تک تو یک طرفہ ہے لیکن کچھ حد تک دو طرفہ بھی ہے۔ ہم ایک دن سکی کام چھت پے گئے وہ اپنے صحن میں تشریف فرما تھے۔ ان کی کمر ہماری طرف تھی اور منہ دوسری طرف۔ ہم نے آپنے سے انداز سے آواز نکالی کہ وہ اپنا پردہ وغیرہ کر لیں لیکن کچھ دیر بعد ہم نے جب دوبارہ اچانک ان کے صحن میں کن اکھیوں سے دیکھا تو وہ ویسے کے ویسے ہی براجمان تھے اگر ان کو محبت نہ ہوتی تو ضرور اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے۔

آپ کے خیال میں یہ محبت کے دو طرفہ ہونے کا ٹھوس ثبوت نہیں ہے؟ تو نا سہی ہم نے اپنی محبت کرنی ہے نا کہ آپ کو ثبوت فراہم کرنے ہیں۔ اس کا فائدہ ہی کیا ہے۔

ان کا بڑا بیٹا اتنا بڑا ہے کہ موٹر بائیک چلا سکتا ہے۔اور جب وہ اس کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرتے ہیں تو ہمارا دل چاہتا ہے کہ اسے دھکا دے کر اگلی سیٹ پر خود بیٹھ جاؤں گو ہمیں موٹر بائک بھی چلانی نہیں آتی ہم اتنے شریف واقع ہوئے ہیں۔

ہم پیشے کے لحاظ سے ٹیچر ہیں اور وہ وہ درزن۔ اس کا شعبہ بھی عوامی ڈیلنگ ہمارا بھی۔ اس کی طرف اکثر عورتیں آتی رہتی ہیں اور کبھی کبھی آدمی بھی آ جاتے ہیں جنہیں وہ اندر سے ہی ڈیل کرتے ہیں لیکن ان کی سریلی آواز جب باہر آتی ہے تو ہماری سماعت کی تسکین ہوتی ہے۔

ایک دن شدید گرمی کے بعد ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ، ہم اچانک گھر سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ زہے نصیب وہ بے نقاب چلے آرہے ہیں اور پھر شومیء قسمت کہ انہوں نے فوراً نقاب کر لیا۔ کیا یہ بات بھی دو طرفہ محبت کے زمرے میں نہیں آتی۔ نہیں آتی تو نہ سہی۔ ہمیں تو محبت ہے ناں کسی ہو یا نہ ہو۔

ایک اور واقعہ سنیں: ہم ایک شام مقامی فارمیسی پے گئے کچھ میڈیسن لینی تھی۔ وہ فارمیسی کے اندر سے نکلے اور میرے پاس سے یوں گزرے جیسے بہار کی ہوا کسی صحرا سے گزرتی ہے۔میڈیسن لے کے ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ اس شام ہم نے اپنا راستہ بدلا تھا۔ اتفاق دیکھیں وہ بھی اسی گلی میں داخل ہوئی جس گلی میں ہم نے بھی داخل ہونا تھا۔ انہیں ہماری پیروی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس لئے ان کی چال میں کچھ کچھ تیزی دیکھنے میں آرہی تھی۔ ہم بھی مستند شریف آدمی ہیں ہم نے اپنی رفتار برقرار رکھی لیکن ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ہم اپنے گھر کے قریب پہنچے اور وہ اپنے دروازے پر تو ہماری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ انہوں نے مڑ کر دیکھا جیسے یہ دیکھ رہے ہوں کہ میں ان سے کتنے قدم پیچھے رہ گیا ہوں۔تو کیا یہ بھی دو طرفہ محبت کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ بس جس نے نہیں ماننا اس نے نہیں ماننا۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284447 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More