عالم اسلام کی کمزوری یابے ضمیری ؟

اسلام کی تاریخ لاکھوں پیغمبروں ،صحابہ کرام ؓ،ولی اﷲ ،شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے اﷲ تعالیٰ نے جب سے بن انسان کو روح کائنات پر پیداکیااسی دن سے اﷲ تعالیٰ نے اپنے مخلوق کو اپنے بڑائی کیلئے پیداکیااور ہرپیغمبرنے اپنے دورمیں ہی انسانوں کو اﷲ تعالیٰ کی راہ پر چلنے کی ہدایت اور تبلیغ کی جس نے اﷲ تعالیٰ کی راہ اور اس پیغمبرکی راہ پر چلنے کاارادہ کیااور وہ دنیااور آخرت دونوں میں کامیاب اور سرخروہواجس نے اﷲ تعالیٰ اور اسی زمانے کی پیغمبرکی بات نہ مانی وہ دنیااور آخرت دونوں میں خوار اور رسواہوئے اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبرحضرت محمدﷺ کو570،ء میں عرب سرزمین پر پیداکیااورپیارے بنیﷺ کاوصال63،سال کی عمر میں یعنی 632،ء میں ہوئی نبی کریم ﷺ کو اﷲ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلیئے دنیا میں بھیجااور قرآن پاک کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں ان پر نازل ہوئیآپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القابات سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے حضورﷺ نے لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیئے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے لوگ ان کی امت میں شامل ہیں حضورکریم ﷺ نے دین اسلام کوپھیلانے کیلئے مشرکین اور کفارسے کئی جنگیں لڑی جن میں ، 17 رمضان 624کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ھلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہدا کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے اسی طرح 7،شوال 625،میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔(بشکریہ میڈیاورلڈلاین)۔خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔بعدمیں شوال۔ ذی القعدہ 5ھ 627میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے اسی طرح ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (627) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی بعدمیں غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ 627۔ 628میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی مسلمان فتح یاب ہوئے غزوہ خیبر: محرم 7ھ 628میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے جنگِ موتہ 5 جمادی الاول 8ھ 629کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔غزوہ فتح.فتحِ مکہ رمضان 8ھ 630 میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریبا نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔غزوہ حنین: شوال 8ھ (630) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی غزوہ تبوک: رجب 9ھ 630میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔ اﷲ تعالیٰ اور انکے پیارے پیغمبرحضرت محمدﷺ کی تبلیغ دنیا بھرکی بڑے حصے میں پھیل گئی اسی طرح دنیاپراسلام کاراج نافذہوگیاکفاراور مشرکین کو تاریخی شکست نصیب ہوئی-

پیارے قارئین اسلام کی کامیابی کی داستانیں تاریخ کاحصہ بنی ہے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ خطے میں کوئی52ممالک مسلمانوں کی ہے جن میں اکثرممالک مالی لحاظ سے انتہائی مضبوط ،تیل ،معدنیات سے مالامال بھی ہے اور جن میں خاص کرعالم اسلام کامضبوط قلعہ سمجھا جانے والاایٹمی قوت پاکستان بھی شامل ہے لیکن اس کے باوجود آج ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھرمیں مسلمان کتناخواراور بدنام ہوچکے ہیں اسی طرح عالمی غنڈہ اور بدمعاش اسرائیل کاوجوداقوام متحدہ کی توسط اور سازش سے29 نومبر1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا۔ 14 مئی 1948 کو ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے ملک کے قیام کا اعلان کیا۔ 15 مئی 1948 کو یعنی اعلان آزادی کے اگلے روز کئی ہمسائیہ ممالک نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ بعد کے برسوں میں بھی کئی بار اسرائیل کے ہمسائیہ ممالک اس پر حملہ کر چکے ہیں بعدمیں کہانی ختم ہوگئی جوکہ آج تک ختم ہوچکی ہے اور عالمی غنڈہ اسرائیل عالمی بدمعاش امریکہ کے تعاون سے آئے روزبے گناہ اور نہتے فلسطینوں پر مختلف بہانوں سے ظلم کے پہاڑتھوڑڈالے ہیں اور آخری باراسرائیل نے عالمی قونین برائے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے 8جولائی بروزمنگل کو دوپہرسے غزوہ کے عوام پر وحشانہ بمباری کاآغازکرکے ماہ ایصام میں فلسطینی عوام کواپنے پیاروں کے غم میں ڈوبادیئے جوکہ تاحال اسرائیلی جارحیت کاسلسلہ جاری ہے اوردنیا بھرکے کئی ممالک بشموراقوام متحدہ نے 12جولائی بروزہفتہ کو اسرائیلی وزیراعظم سے فوری غزہ پر جنگ بندی کاکہاجس کے جواب میں اسرائیلی بدمعاش قاتل وزیراعظم نے عالمی ممالک کے اس گزارش کو مستردکرتے ہوئے کہاکہ فلسطینوں کیخلاف کاروائی جاری رہینگی اور ابتک اسرائیلی جارحیت سے 170سے زائد بے گناہ فلسطینی شہیدہوچکے ہیں اور غزہ شہرپرابتک سینکڑوں فضائی حملے کئے جس سے غزہ کاشہر کھنڈررات میں تبدیل اور غزہ شہرکی ہسپتالیں زخمیوں سے بھرگئے پیارے قارئین آج کفارکی سازش سے دنیابھرمیں کئی بھی مسلمان محفوظ نہیں ہے آپ افغانستان،کشمیر،برما،عراق،شام ،پاکستان میں مسلمانوں کے حالت دیکھ کر فیصلہ کریں کہ اس میں سب سے بڑی کمزوری کس کاہے وہ بھی زمانہ تھاکہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعدادصرف اور صرف313جبکہ کفارکی تعداد1300تھی اور ان کو اتنی کم تعدادمیں شکست نصیب ہوئی لیکن آج ہم دنیابھرمیں52ممالک پر مشتمل اور اربوں کی تعدادمیں ہے لیکن ہم اتنے بے بس اور کمزورہوچکے ہیں کہ دنیامیں کسی بھی مسلمان کی مددنہیں کرسکتے ہیں اور اسی طرح اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے تو بے ضمیری کے وہ انتہاکی ہے کہ جس کی مثال دنیابھرکی تاریخ میں کئی اور آپ کونہیں ملتی ہونگی بہرحال مسلم ممالک میں سب سے پہلے پھربھی پاکستانی وزیراعظم نے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی شدیدالفاظ میں مذمت کی اوراسرائیل کی اس عمل کو غیرانسانی قراردیا لیکن بات صرف مذمت تک کافی نہیں ہے بلکہ دنیابھرکے اسلامی ممالک سمیت پاکستانی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اقوام متحدہ پرزور ڈالتے اور ہنگامی بنیادوں پر جنرل اسمبلی کااجلاس طلب کرتے اوراسرائیل کیخلاف عالمی عدالت میں دہشتگردی ،ہزاروں بے گناہ فلسطینوں کے قتل عام اور وحشات کامقدمہ درج کرتے اور اسرائیل سے ہرقسم کیسفارتی اورتجارتی تعلقات کوختم کردیتے اسی طرح 12جولائی بروزہفتہ کو پاکستان میں مقیم فلسطین کے سفیرولیدنے بھی سب سے پہلے پاکستانی حکومت کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ اسرائیلی جارحیت کی سب سے پہلے پاکستان نے ہی مذمت کی لہذا بات صرف مذمت تک نہیں رہناچاہیے بلکہ مذیداقدامات کی بھی ضرورت ہیلیکن اسلامی ممالک اور پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے اس طرح کے نہ کرنے سے آپ خود سوچیں کہ عالم اسلام کے مسلمان کمزورہوچکے ہیں یا بے ضمیرجس کافیصلہ تو آپ نے ہی کرناہوگااگرآج ہی اسلامی ممالک کے حکمران ،علماء کرام ،سیاسی ومذہبی رہنما،سائنسدان، یکجہاہوجائے تومیں گارنٹی سے کہتاہوں کہ کئی بھی مسلمان کو کسی قسم کی مشکلات اور تکلیف نہیں ہونگی اور جوکچھ بھی آج مسلمانوں اور اسلام کیخلاف ہورہے ہیں جس میں عالم اسلام کے حکمران برابرکے ملوث اورشریک ہے لہذامسلم حکمرانوں کوچاہئے کہ وہ بے ضمیری کی زندگی کو چھوڑکراﷲ اورانکے پیارے نبیﷺ کے احکامات پر پوراپورااتریں اوردنیااور آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کریں ورنہ کفرکے موجودہ سازشوں،ظلم وستم سے مذیدبھی بتراوربربادہوجائینگے -
Muhammad Aslam Achakzai
About the Author: Muhammad Aslam Achakzai Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.