حق ہمسائیگی

صدیوں سے روایت ہے کہ شاہ کے اردگرد جو لوگ ہوتے ہیں بڑی موج کرتے ہیں۔ بہت فیض اٹھاتے ہیں۔ معاشرے میں شاہ سے زیادہ پھن پھیلا کر جیتے ہیں۔ اگر کبھی زیر عتاب آ جائیں تو بھی کمال آتے ہیں۔ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ فنکار ہوتے ہیں۔ جھکنا جانتے ہیں۔ اختلاف کرنا نہیں جانتے۔ ہاں میں ہاں ملانا ان کا وصف ہوتا ہے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کسی غلطی کی صورت میں زمین پر ٹھکانہ ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ شاہ لوگ مخالف بات سننے کے عادی نہیں ہوتیاس لئے شاہ کے مصاحب بڑے محتاط ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب باتیں مصاحبوں کی ہیں۔ ویزروں کی ہیں۔ مشیروں کی ہیں۔ ان سب کی ہیں جو ہر وقت اور ہر جگہ شاہ کو گھیرے رہتے ہیں۔

شاہ سے ذرا ہٹ کر شاہ کے محل کے اردگرد بھی ایک مخلوق رہتی ہے جسے عوام کہتے ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کی طرح کی یہ مخلوق وہ ہے کہ جسے شاہ کی نوازشات سے کوئی غرض ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اس سے فیضیاب ہوتے ہیں مگر شاہ کے محل کا قرب انہیں مسلسل زیرِ عتاب رکھتا ہے۔ ہٹو بچو کی آوازیں سننا ان کا مقدر ہوتا ہے اور محل کے قریب رہنے کی سزا وہ ہر روز پاتے ہیں۔

رائے ونڈ روڈ کا بھی ایک حصہ ایسا ہے کہ جہاں شاہی سواریاں سارا دن محو پرواز رہتی ہیں۔ ان کی حفاظت اور اہمیت کے پیش نظر دن میں کئی بار روٹ لگتا ہے اور پھر پولیس کی کچھ گاڑیاں بمعہ ایک ایمبولینس گزرتی ہیں۔ یہ روٹ شاہی خاندان کے افراد کی آسانی کے لئے لگایا جاتا ہے۔ شاہی خاندان کو جتنی آسانی دی جاتی ہے عوام کو اسی قدر زحمت میں مبتلا کیا جاتا ہے اس سہولت اور زحمت کا عجیب تعلق ہے۔ ایک کم ہو تو دوسری بڑھتی ہے دوسری کم ہو تو پہلی بڑھتی ہے۔

اتفاق سے میں بھی رائے ونڈ روڈ کے اسی حصہ کا رہائشی ہوں جہاں روز کئی بار روٹ لگتا ہے۔ روٹ لگتا ہے تو گھروں سے باہر آنے یا گھروں کی طرف جانے والے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ پولیس کا کوئی سب انسپکٹر یا اسسٹنٹ سب انسپکٹر دندناتا پھرتا ہے کہ روٹ لگا ہے۔ کچھ نہیں ہو سکتا۔ نہ کوئی حرکت۔ نہ کوئی کاروبار۔ کوئی مریض اور کوئی بیمار کسی ڈاکٹرکے پاس یا ہسپتال نہیں جا سکتا۔ پولیس والے کھلم کھلا کہتے ہیں کہ احمق کو بیمار ہونے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا کہ یہ روٹ کا وقت تو نہیں۔

ہر روٹ جو لگتا ہے اس کا اپنا وقت اور اپنا انداز ہوتا ہے اور ہر انداز اتنا دلچسپ ہوتا ہے کہ عقل و دانش کے پیکر پولیس والوں پر بعض اوقات ہنسی آتی ہے۔ گھر سے نکلو۔ رائے ونڈ روڈ پر چڑھنے سے روک لیتے ہیں کہ دو منٹ انتظار کریں۔ روٹ لگا ہے۔

بھائی کس نے گزرنا ہے؟

ابھی بات آپ کے منہ میں ہوتی ہے کہ دو تین گاڑیاں گزر جاتی ہیں۔ سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ دو تین منٹ کا روٹ اس بچے کے لئے ہے جو دو تین ماہ پہلے پیدا ہوا تھا اور اس کے لئے روٹ لگانا اس کا استحقاق ہے کیونکہ اس کے شہزادہ یا شہزادی ہونے کا لوگوں کو روٹ نہ لگنے کی صورت میں پتہ ہی نہیں چلے گا۔
اگلے دن روکا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں بس پانچ سات منٹ کے لئے روٹ لگا ہے۔ یہ وقت پولیس کے سپاہی سے تکرار کرتے آسانی سے کٹ جائے گا۔ اتنے میں چار پانچ گاڑیاں تیزی سے گزر جاتی ہیں۔ محل کے سکول جانے والے بچے کہیں جا رہے تھے اور روٹ لگائے بغیر ان کا گزرنا تو اچھی بات نہ تھی۔ ان کے کارکن اور جانثار کیا سوچیں گے۔

پندرہ بیس منٹ کا روٹ اور چھ سات گاڑیاں اس بات کی علامت ہیں کہ شاہی خاندان کا کوئی بالغ مرد یا عورت وہاں سے گزر رہے ہیں۔ میرے علاقے کے لوگ اس قدر روٹ کے عادی ہیں کہ روٹ کا وقت اور گاڑیوں کی تعداد دیکھ کر شاہی خاندان کے افراد کی حیثیت کا پتہ لگا لیتے ہیں۔

میاں شہباز شریف اور میاں حمزہ شہباز شریف کے گزرنے کا اپنا ہی ایک اچھوتا انداز ہے۔ اس دن لگنے والے روٹ کا اپنا ہی ایک خاص طرز ہے۔ اس دن دکانداروں کے گاہکوں کو ہی نہیں بلکہ دکانداروں کو بھی دکانوں سے بھگا دیا جاتا ہے۔ سی این جی سٹیشن بند کر دئیے جاتے ہیں۔ بینک بھی وقتی طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ سڑک پر یا تو پولیس کی گاڑیاں بولتی یا الو۔ لوگ آدھ گھنٹہ اپنے گھروں کے قریب راستوں میں بند رہ کر حق ہمسائیگی ادا کرتے ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی جاتی عمرہ میں شاندار ملاقات ہوئی۔ رنگ برنگے کھانوں اور دلچسپ باتوں کے بعد زرداری صاحب رخصت ہوئے تو میاں نواز شریف بھی عازم اسلام آباد ہوئے۔ ان کے اسلام آباد جانے کی خبر کے ساتھ ہی رائے ونڈ روڈ پر روٹ لگ گیا۔ یہ شاندار روٹ کیسا ہو گا اس کا اندازہ ہر بندہ کر سکتا ہے کہ جب شاہی خاندان کے افراد جن کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ان کا کرو فر دیدنی ہوتا ہے تو پھر جب شاہ نے خود گزرنا ہو اس وقت اس علاقے کی صورتحال کا اندازہ کریں۔
میں گھر سے نکلا مگر رائے ونڈ روڈ پر چڑھنے سے روک دیا گیا۔ بہت پولیس ہر طرف موجود تھی۔ آج جناب نواز شریف نے گزرنا تھا۔ آدھ گھنٹہ علاقے کے مکیں پوری طرح مبحوس رہے۔ سڑک پر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔ سب کو انتظار تھا کہ ابھی شاہی سواری بیسیوں پولیس کی گاڑیوں، ایمبولینس اور بہت سی بڑی بڑی سرکاری کاروں سمیت یہاں سے گزرے گی تو اطمینان کا سانس لیں گے۔ آدھ گھنٹے بعد ایک سب انسپکٹر نے اشارہ کیا اور ٹریفک کھل گئی۔ میں نے گاڑی آگے بڑھائی اور اس سب انسپکٹر سے پوچھا
بھائی! کیا میاں صاحب آج نہیں جا رہے؟
چلے گئے اسی لئے تو آپ کو راستہ دیا ہے۔ جواب ملا۔
مگر گاڑیاں تو نہیں گزریں۔ میں نے پوچھا۔
میاں صاحب نے آج ہیلی کاپٹر پر جانا تھا۔ گاڑیاں کیوں گزرتیں۔
یہ یکایک گاڑی سے ہیلی کاپٹر کا پروگرام بن گیا اور آپ کو خبر بھی نہ ہوئی۔

پولیس والا ہنس کر کہنے لگا جناب یہ پروگرام تو دو دن سے طے تھا ہمیں سب پتہ تھا کہ انہوں نے ہیلی کاپٹر سے جانا ہے۔

مگر یہ خلق خدا کو آدھ گھنٹہ آپ نے حبسِ بے جا میں کیوں رکھا؟ میں نے پھر سوال کیا۔

اس نے گھور کر مجھے دیکھا۔ وزیراعظم نے جانا ہو تو روٹ لگانا ہمارا فرض ہے۔ جو ہم نے ہر صورت پورا کرنا ہے۔ آپ کو ایسی باتیں سمجھ نہیں آئیں گی۔ ہیلی کاپٹر وقت پر خراب ہو جائے یا وزیراعظم کا موڈ بدل جائے اور وہ ہیلی کاپٹر کی بجائے سڑک کے راستے کو ترجیح دیں تو ہم کیا کریں گے؟ اس لئے روٹ ضروری ہے۔

مجھے واقعی اس کی بات صحیح لگی۔یہ بھی سمجھ آیا کہ پولیس پوری طرح شاہ پرست ہے اور جانتی ہے کہ بادشاہ اگر انڈہ یا بچہ کچھ بھی دینے پر قادر ہے تو مزاج بدلنے میں کب دیر کر سکتا ہے۔ رہے ہم محل کے قرب و جوار کے مکین کیڑے مکوڑے ،تو ہمیں ہر حال میں حقِ ہمسائیگی نبھانا ہے اور نبھا رہے ہیں۔ دیکھیں کتنے دن اور۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443107 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More