نا اہل یا انتہائی درجے کا بددیانت

سپریم کورٹ میں عدلیہ کے خلاف ریڈ زون میں بینر لگانے کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ناصر الملک نے پولیس کی جمع کرائی گئی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا اور پولیس کے حکام کو دس روز میں دوبارہ بہتر انداز میں رپورٹ جمع کرانے کا آخری موقع دیا ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کو اس سے پہلے بار بار موقع دینے کے باوجود پولیس ابھی تک ملزموں تک نہیں پہنچ سکی۔ تفتیشی افسر سوائے کاغذوں کی الٹ پلٹ کے کچھ نہیں کر رہا۔ تفتیشی افسر یا تو نا اہل ہے یا انتہائی درجے کا بددیانت۔ مشتبہ افراد کا نام آنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ چالان جمع کرانے کے بعد پولیس کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ا تنے حساس علاقے میں اس طرح کے بینرز نہیں لگنے چاہئیں۔
جناب چیف جسٹس کی یہ برہمی اور ناراضگی بڑی جائز ہے۔ جج کسی بھی معاشرے میں توازن رکھنے کے لئے انصاف کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ مظلوم کو ظالم سے اور معصوم کو جابر سے بچانا ان کا کام ہے۔ معاشرتی برائیوں کی روک تھام ان کے انصاف ہی سے ممکن ہے۔ وہ لوگ جو دوسروں کو تحفظ دے رہے ہیں ان کے جائز حقوق کے محافظ ہیں ان کا حق ہے کہ معاشرے کے لوگ ان کا احترام کریں۔ ریاست اور عوام دونوں ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔ ان کی عزت اور وقار کے منافی کوئی بات نہ کریں۔ ایک اچھے اور مہذب معاشرے میں جج کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

جناب چیف جسٹس ایک اچھے اور مہذب معاشرے میں جہاں ججوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے وہاں اچھے اور مہذب معاشرے کی تشکیل میں ججوں کا اپنا بھی بہت اہم رول ہوتا ہے۔ انسان اپنا وقار خود بناتا ہے۔ عدلیہ کی اپنی ایک تاریخ ہے جہاں بہت سے جج انصاف کے حوالے سے آج بھی مینارہ نور ہیں وہاں کچھ نہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں کہ جن کے فیصلے یا جن کا طرزِ عمل کسی حد تک متنازعہ رہا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ حال ہی کی سیاسی کشمکش میں لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کے کچھ فیصلے ان کی شخصیت کو متنازعہ بنا گئے ہیں۔ اعتزاز احسن جیسے لوگوں نے بھی کھل کر یہ کہا ہے کہ انہیں ایسے فیصلے نہیں دینے چاہئے تھے۔ ان فیصلوں سے تعصب کی بو آتی ہے۔ ان ججوں کے بارے میں سپریم کورٹ کو سوچنا چاہئے کہ کیوں ایسے فیصلے دئیے جاتے ہیں کہ جن سے عدلیہ کے وقار پر حرف آئے۔

جہاں ججوں کے حقوق ہیں وہاں یقینا ججوں کے کچھ فرائض بھی ہیں۔ متعصب شخص کو جج رہنے کا کوئی حق نہیں۔ سپریم کورٹ کے تمام جج انتہائی با وقار اور انصاف پرور ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ صرف ایک جج ہی کیوں ایسا ہے کہ روز اس کے بارے کوئی نہ کوئی داستان زبان زد عام ہوتی ہے۔ آخر لوگ باقیوں کے بارے کوئی بات کیوں نہیں کرتے؟ ایک ہی کے خلاف بینر کیوں لگتے ہیں؟ دوسروں کے بارے لوگ کیوں کچھ نہیں کہتے؟ جناب چیف جسٹس یہ سوچنے کی بات ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ جج انصاف کی مسند پر بیٹھ کر انصاف سے کھیل رہے ہیں۔ جب باتیں نکلتی ہیں تو ان کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہوتا ضرور ہے۔ جاتے جاتے میں بھی آپ کو ایک داستان سناتا جاؤں جو آج ہر زبان پر ہے۔

پاکستان کے ایک مشہور صنعت کار کا اپنے ایک بھائی اور بہن سے جائیداد کا جھگڑا ہے۔ اس کی بہن کی بیٹی ایک مشہور میڈیا گروپ کے مالکان کی بہو ہے۔ میڈیا گروپ کے چیئرمین کی بہن ایک جج کی بھابی ہے۔ صنعت کار کے بھائی کی بیوی بھی جج صاحب کی بھتیجی یا بھانجی ہے۔ جائداد کے تنازعے میں صنعت کار کو سبق سکھانے کے لئے ایک مشہور کیس میں اسے ملوث کیا گیا۔ بتایا گیا کہ ایک آفیسر اور صنعت کار نے مل کر 36 ارب کا غبن کیا ہے۔ سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ خود ہی کہتے ہیں کہ رقم صنعت کار کو نہیں دی گئی اس لئے یہ ریکوری ہو گئی۔ بزرگ صحافی جناؓب مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ میں نے خیالی پلاؤ تو بہت سنا تھا مگر خیالی کرپشن پہلی دفعہ سنی ہے۔ صنعت کار پاکستان سے باہر ہے اور الزام لگاتا ہے کہ یہ کیس بنایا گیا ہے اور کھلم کھلا محترم جج صاحب کا نام لیتا ہے۔ ہائی کورٹ نے بہت دفعہ اس کے حق میں فیصلہ دیا۔مگر سپریم کورٹ میں وہ فیصلہ ہر دفعہ بدل جاتا ہے۔آخر کیوں؟ جناب چیف جسٹس! مقدمے کی ساری فائلیں سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔ دیکھ کر فیصلہ آپ خود کریں۔ آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے۔

جناب چیف جسٹس اس ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے ایک کڑے احتساب کی ضرورت ہے ماتحت عدالتوں کی صورتحال بھی آپ کو پتہ ہے۔ چنانچہ اس کڑے احتساب کی ابتدا عدلیہ اور تفتیشی اداروں سے ہونی چاہئے۔ کیونکہ اگر یہ ادارے ٹھیک ہوں تو پورے ملک میں انقلاب آ سکتا ہے۔ وہ شخص جو اس کڑے احتساب کے لئے اقدامات کرے گا پاکستان کی تاریخ میں اس کا نام ایک چمکتے دمکتے روشن تارے کی طرح زندہ رہے گا۔ وہ شخص کوئی دوسرا کیوں ہو، آپ کیوں نہیں؟ میری درخواست ہے ابتدا کیجئے۔ چند دنوں میں پاکستانیوں کی تمام مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443122 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More