کاروان صحافت کا میر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر مجید نظامی

مجھے فخر حاصل ہے کہ میں نوائے وقت کا لکھاری ور قاری بھی ہوں ۔ اس نوائے وقت کا جو امام صحافت مجید نظامی کا اخبار ہے ۔ نوائے وقت محض اخبار نہیں جو صرف خبروں کا مجموعہ ہو بلکہ یہ ایک مکمل دستاویز بھی ہے ۔ ایک ایسا اخبار جسے دستاویز کی اہمیت حاصل ہو در اصل ایک عہد ایک مکمل غیر جانبدار اخبار میں سما جاتا ہے ۔ جبھی تو ایک مکمل اخبار کو ایک عہد کے طور پر لیا جاتا ہے اور ایک غیر جانبدار مدبر اور دانشور صحافی کو بھی عہدساز شخصیت کے طور پر لیا جانا ان کی ذات کے ساتھ عین انصاف ہے ۔

دنیا میں بے شمار عظیم لوگ پیدا ہوئے جو عظیم اور کار ہائے نمایاں ہمارے لئے چھوڑ کر چلے گئے جن پر چل کر ہم ناصرف اعلیٰ مقامات پا سکتے ہیں بلکہ رہتی دنیا تک اپنا روشن نام چھوڑ سکتے ہیں ۔ عظیم ہستیوں کا وجود انسانوں کی بقاء اور اقوام کی ترقی و تعلی کیلئے از حد ضروری ہے ۔ اگر بے حس معاشرے میں عظیم لوگ جو قائدانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں ۔ صیدا جل ہوتے رہے تو معاشرے کے لئے یہ نقصان نا قابل تلافی قرار پاتے ہیں ۔ ایسے میں مشاہیر کی ناگہانی اموات انہیں مشعل راہ سمجھنے والوں کیلئے شدید صدمہ سے کم نہیں ہوتیں یہ اور بات کہ ہر ذی روح نے موت کا کڑوا ذائقہ چکھنا ہے ۔

مجید نظامی بھی ایک عظیم شخصیت تھے جنہوں نے ملک و قوم کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا رکھا تھا ۔ جن عظیم لوگوں کے پیش نظر فلاح قوم و ملت اور وطن کی خدمت جیسا مقصد حیات ہو تو وہ اپنے بعد بھی ایسے نظریات کی بدولت زندہ و جاوید رہتے ہیں جو وہ اپنے غیر متذلل اصولوں کی صورت میں چھوڑ جاتے ہیں ۔ مجید نظامی نے جس نظر یے کو آگے بڑھایا وہ ان کے بھائی حمید نظامی نے نوائے وقت کی صورت میں پیش کیاتھا ۔ اب وہ پودا جو نوائے وقت کی صورت میں بو یا گیا تھا اور خون دل و جگر دے کر جسے سینچا گیا ۔ جوان کیا گیا اور آبپاشی کی گئی تھی اب وہ پودا ایک تناور اور مضبوط درخت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے یہ تناور درخت جو بر گد کے درخت طرح فیاض ہے اور انسانوں کو چلچلاتی اور تپتی دھوپ میں سایہ فراہم کر رہا ہے اور خود دھوپ کی شدت برداشت کرتا رہا ہے دوسری کئی سختیاں مصائب اور آلام برداشت کرتا ہے لیکن دوسروں کو سکون مہیا کرتا ہے یہی تو عظیم لوگوں ( انسانوں ) اور اداروں کا خاصہ ہے ۔

عائشہ مسعود نوائے وقت کی کالم نگار ہیں جنہوں نے مجید نظامی پر ایک کتاب ’’ جب تک میں زندہ ہوں ‘‘ لکھی ۔ اس میں وہ لکھتی ہیں کہ ’’ مجید نظامی سمجھتے ہیں کہ جب تک جا گیردار ی نظام کا خاتمہ نہیں ہوتا ۔ اس وقت تک ملک سے ڈکٹیٹر شپ نہیں جا سکتی ‘‘ ۔ یہی وہ سچ ہے جس کے نفاذ کیلئے ڈاکٹر مجید نظامی نے مخلصانہ جدو جہد کی تھی ۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نوائے وقت میں شائع شدہ اپنے کالم میں مجید نظامی سے متعلق رائے قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ مجید نظامی صحافت عظمت اور جرات کا قطبی ستارہ تھے ۔ اسد اﷲ غالب نے نوائے وقت میں لکھا کہ ’’ ڈاکٹر مجید نظامی سے کوئی کلمہ حق کہنے کا سلیقہ سیکھنے اور اپنے مقصد حیات کی تکمیل کیلئے جینے کا ولولہ بھی سیکھے ‘‘ ۔ اثر چوہان نے پیشوائے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کو علامہ اقبال ؒ اور مادر ملت کے افکار و نظریات کے مفسر کے طور پر لیا ۔ شمیم اصغر راؤ لکھتے ہیں کہ ’’ ان ( مجید نظامی )کی وفات سے محسوس ہوتا ہے جیسے ذہن کی کتاب بند ہو گئی ہے ۔ ’’ خالد بہزاد ہاشمی نے اپنے مضمون ’’ نوائے وقت کا ما ہ تاباں غروب ہو گیا ‘‘ میں مجید نظامی سے متعلق لکھا کہ ’’ یہاں ہم مجید نظامی کی مثال اساطیر ی کہانیوں کے اس پا رس پتھرسے دے سکتے ہیں جس کو چھونے والی ہر شے سونا بن جایا کرتی ہے ۔ وہ خام مال کو کندن بنانے کا ہنر جانتے تھے ‘‘ یقینا مجید نظامی ایک ایسی ہستی تھے جنہیں درس گاہ ِ صحافت قرار دینا مناسب ترین عمل ہے ۔ عبد القادر حسن نے اعتراف کیا کہ ’’ میری صحافت کا ہر لفظ ان کے نام سے شروع ہوتا ہے اور ان کی نیاز مندی اور شکریہ پر ختم ہوتا ہے۔ سعید آسی رقم طراز ہیں کہ وہ ( ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم)فی الواقع امام صحافت تھے ۔ قول کے پکے اور ملک و ملت کے خالص اور سچے تھے۔‘‘ فضل حسین اعوان نے مجید نظامی سے متعلق کچھ یوں تحریر فر مایا کہ ’’ ان کے پائے کا بیدار مغز صحافی ، دانشور اور دیدہ ور صدیوں میں پیدا ہوتا ہے ‘‘ اسی لئے تو علامہ اقبال ؒ نے چمن میں دیدہ ور پیدا ہونے کے انتہا ئی مشکل مراحل کا ذکر کیا تھا ۔ محمد آصف بھلی نے اپنے کالم ’’ چوتھا ستون ‘‘ کے تحت’’ شہید پاکستان ‘‘ میں لکھا کہ ’’ نا سمجھ لوگ مجید نظامی کی موت کو اختتام زندگی قرار دیں گے لیکن مجید نظامی کی ’’ شام زندگی ‘‘ دراصل صبح دوام زندگی ہے ‘‘ اسی طرح محمد شریف کیانی لکھتے ہیں کہ ’’ ان کی دوستی اور دشمنی کا محور پاکستا ن ہے ۔ محمد سلیمان بلوچ نے اظہار عقیدت کرتے ہوئے ڈاکٹر مجید نظامی کو نظریاتی صحافت کا علمبر دار قرار دیا ۔

نازیہ مصطفی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے رائے قائم کی کہ ’’ انہوں نے ہر دور آمریت میں اپنے بے نیام قلم سے جھوٹ اور جبر کاسر قلم کیا ‘‘ اسلم خان ’’ چوپال‘‘ میں جس انداز میں مجید نظامی کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا ملاحظہ ہو ‘‘ پاکستان کا عاشق زار چلا گیا ۔ ایک عہد تمام ہوا ۔ صحافت کا با نکپن رخصت ہوا ‘‘ ڈاکٹر انور سدید نے ڈاکٹر مجید نظامی مر حوم کے روزنامہ نوائے وقت پر اعتماد کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ لیکن میری سیاسی معلومات کا مستند ماخذ روزنامہ نوائے وقت تھا جس کے ادار یے زبان و بیان سنوارنے میں بھی مدد کرتے تھے ۔ مختصر یہ کہ بے شمار قلم کار ہیں جو امام و پیشوائے صحافت ڈاکٹر مجید نظام مرحوم سے متعلق تحقیقی ، تاریخی اور منطقی سطح پر قلم کاری کر رہے ہیں ۔آپ پر لکھنے کیلئے زندگیاں چاہئیں ۔
تیرا شعور صحافت نصاب حرف و قلم
کہ تو جبین صحافت کا ایک جھومر ہے
تجھے مجید نظامی بھلا نہیں سکتے
نوائے وقت کا پیغام آج گھر گھر ہے

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 46830 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.