ایک کالم والدین کے لیے

ہمارابچہ بڑا ہوکر کیا بنے گا؟اس سوالیہ فقرے میں موجود تین حرفی لفظ” کیا“ کے پیچھے اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں تقریباً تمام والدین کی ہزاروں امیدیں چھپی ہوتی ہیں۔ انہی امیدوں میں شامل والدین کی ایک خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتا دیکھیں اور اپنے بچے کو زندگی کی تمام کامیابیاں سمیٹتا دیکھیں۔

وقت کی گردش جب ان نوخیز کلیوں کی زندگی سے بچپن کی بہار لے کر رخصت ہونے لگتی ہے تو وہیں ان کیلئے عمر کے ایک ایسے دورکا دربھی وا کرتی جاتی ہے جہاں ایک رنگین اور نئی دنیا ان کو خوش آمدید کہہ رہی ہوتی ہے اور ان کے اندر کائنات کو تسخیر کرنے کاجذبہ بھی پروان چڑھ رہاہوتاہے۔

عمر کے اس نازک دور میں والدین اپنے بچوں سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بچے ان کی توقعات پر ہر صورت میںپورا اتریں لیکن درحقیقت اسی دور میں انہی توقعات کے سبب والدین اوربچوں کے درمیان فاصلے بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بعض والدین اپنی کم علمی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے(ویسے ہم نے تو اچھے خاصے پڑھے لکھے والدین کو بھی ایسا کرتے دیکھا ہے کہ) اپنے فیصلے بچوں پر تھوپتے ہیںکہ فلاں کا بچہ ڈاکٹر بن رہاہے تو تمہیں بھی ڈاکٹر بننا ہے اور اگر تم ڈاکٹر نہیں بنوگے تو دوست احباب کیا کہیں گے۔ یعنی ان کے نزدیک بچے کی شخصی آزادی ، ا س کی اپنی مرضی، اس کی اپنی رائے، اس کی اپنی پسنداور ناپسند کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔اگر اہمیت ہوتی ہے تو صرف اورصرف رشتے داروں اوردوستوں کی کہ وہ کیا کہیں گے، وہ کیا سوچیں گے؟

اس موڑ پروالدین کو ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جب آپ اپنے بچے کا موازنہ کسی دوسرے شخص کے بچے کے ساتھ کریں گے تو آپ اپنے بچے کی صلاحیتوں کو ختم کرنے یا انہیں نظر انداز کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے۔ یہ کائنات کی اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان کبھی بھی مکمل نہیں ہوتا اور آپ ایک فرد کو اس کے مد مقابل جیسا کبھی بھی نہیں بناسکتے ہیں۔

اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویوں کا محاسبہ کریں اور اپنی اصلاح کریں نیز اپنے بچے کی انفرادیت کو سمجھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اس کے ذہنی رجحان کے مطابق اور اس کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اسے وہ کچھ بننے کے مواقع فراہم کریں جو وہ چاہتاہے ۔ اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے اس کی دلچسپیوں کو پالش کریں اور انہیں نکھاریں اور آپ کا یہ عمل آپ کے اور آپ کے بچے کے درمیان فاصلے کم کرنے میں بے حد مدد گار ثابت ہوگا۔

جب بچوں اوروالدین کے درمیان فاصلے کم ہوں گے تو اعتماد کی فضا قائم ہوگی اوراس سے آپ کا بچہ یقیناً ایک توانا اور پر عزم انسان بن کر ابھرے گا اور پھر ظاہر سی بات ہے کہ ایسا پر اعتماد بچہ کسی بھی شعبے میں چلا جائے ، وہ اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار اداکرے گا اوریوں آپ کا نام روشن ہوگا۔

Aneeqa Zafar
About the Author: Aneeqa Zafar Read More Articles by Aneeqa Zafar: 2 Articles with 1389 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.