پروفیسر سید کمال الدین سابق ڈائریکٹر کالجز سے مکالمہ

(پروفیسر سید کمال الدین ڈائریکٹر آف کالجز و پرنسپل گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آبادبھی رہے یہ انٹر ویو گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد کے مجلہ ’رایت ‘‘ کے لیے لیا گیا جو مجلہ روایت ۲۰۰۸ء میں شائع ہوچکا ہے۔ اس ملاقات میں کالج کے لیکچرر محمد عاصم اور عبد الرشید بھی شریک تھے)

پروفیسر سید کمال الدین طویل تعلیمی اور انتظامی تجر بہ رکھتے ہیں ،آپ نے اکتوبر ۱۹۸۹ء سے مارچ ۱۹۹۳ء تک گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے پرنسپل کے فرائض انجام دیے ۔آپ نے کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے مختلف شہروں میر پور خاص، حیدر آباد ، دادو،ہالہ ، خیر پور میں بھی تدریس کے فرائض انجام دئے۔ کراچی میں آپ نے گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے علاوہ گورنمنٹ سائنس کالج لیاری، گورنمنٹ کالج (حامد بدایونی گورنمنٹ کالج )اورنگی ٹاؤن کے پرنسپل اور ڈائریکٹر کالجز کے فرائض بھی انجام دئے۔آپ کی تعلیمی خدمات ۴۵ سالوں پر محیط ہیں۔ ۱۹۵۵ء میں ڈیمانسٹریٹر کی حیثیت سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا،۱۹۹۴ء میں مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہوئے۔ آپ ایک باوقار اور پر کشش شخصیت کے مالک ہیں، گفتگو میں دھیما پن لیکن پر جوش طرز تکلم ، عمدہ اسلوب بیان ، طرز فکر غیر روائیتی، مذہب کا عنصر غالب، خوبصورت الفاظ کے ساتھ پرکشش جملوں کا استعمال،اردو اور انگریزی پر مکمل عبور ،جوش و جذبے کے ساتھ ساتھ بے باکی اور حوصلہ نظر آیا۔آپ کی گفتگو سے عمومی تعلیمی صورت حال، کالج کی ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات، اور مختلف امور میں آپ کے نقطہ نظر کو جاننے کا موقع ملا۔ پروفیسر کمال کے ساتھ ہونے والی گفتگو قارئین کے لیے معلوماتی اور دلچسپی کا باعث ہوگی۔

سو ا ل : کچھ اپنی زندگی کے بارے میں بتائیں کب اور کہا ں پیدا ہوئے ، آپ کا بچپن کیسا گزرا ؟
جواب : میری پیدائش ہندوستان کی سرزمین راجستھا ن کی ریاست جیپور میں ۱۹۳۴ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم جے پور میں حاصل کی ۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے ہم حیدر آباد آگئے اور میٹرک سٹی ہائی اسکول حیدر آباد سے ۱۹۴۷ء میں دہلی بورڈ کے تحت کیا، ۱۹۴۸ء میں گورنمنٹ کالج حیدر آباد سے گریجویشن کیا بعد ازاں سندھ یونیورسٹی سے فزکس میں ایم ایس سی کیا۔ تعلیمی سفر کے دورا ن یونین کا صدر منتخب ہوا ۔

سوال : تعلیم کے بعد اپنے پیشہ ورانہ سفر کے بارے میں بتائیں۔
جواب : ۱۹۵۵ء میں ڈیمانسٹریٹر کی حیثیت سے ملازمت کاآغاز کیا دو سال بعد ۱۹۵۷ء میں لیکچرر ہو گیا۔ پہلے میرپور خاص میں تعیناتی ہوئی ، وہا ں سے دادو اور پھر گورنمنٹ کالج حیدر آباد میں تبادلہ ہوا۔ یہاں سے پھر ہالہ ، سپیرئیر سائنس کالج خیرپورکے بعد سپیرئیر سائنس کالج ڈرگ کالونی کراچی میں تبادلہ ہوگیا ۔ پہلی بار عبد الحامد بدایونی گورنمنٹ کالج، اورنگی ٹاؤن کا پرنسپل بنا یا گیا۔ میں اس کا اولین پرنسپل تھا۔ لیاری میں قائم گورنمنٹ سائنس کالج لیاری کے حالات قابوسے باہر ہوئے تو مجھ سے کہا گیا کہ میں وہاں کا پرنسپل بن جاؤں ، میں وہاں چلا گیا اور لیاری جیسے علاقے میں جہاں طلبہ کو کنٹرول کرنا معمولی بات نہ تھی میں نے اس کالج کو امن اور سکون کی پٹری پر ڈال دیا۔میں شروع ہی سے نڈر واقع ہوا ہوں ، اسپورٹس مین تھا، اسکاؤٹس کا سرگرم رکن رہ چکا تھا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ میں یہ محسوس کرتا تھا کہ طلبہ کی بات کو سنا جائے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ چنانچہ لیاری کے کالج میں طلبہ جب بھی آپس میں دست و گریباں ہوئے میں بلا خوف و خطر ان کے درمیان چلاجایا کرتا تھا اور انہیں اپنی گفتگو سے قائل کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہا۔ ۱۹۸۹ء میں اس گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے حالات ابتر ہوگئے، شاید انتظامیہ کے قابو سے باہر بھی ، مجھے لیاری سے اس کالج کا انتظام سنبھالنے کو کہا گیامیں نے اسے اپنے لیے ایک چیلنج سمجھا اور اس کالج کا پرنسپل ہو گیا۔ یہاں بھی میں نے اپنی حکمت عملی کو اپنایا طلبہ سے براہِ راست تعلق قائم کیا ، معلوم کیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں اﷲ کے فضل سے حالات قابو میں آگئے، امن ہوگیااور تعلیمی ماحول معمول پر آگیا۔یہاں پر کام کر رہا تھا کہ ہمارے ڈائریکٹریٹ میں حالات خراب ہوئے اور مجھے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ایک بڑا ٹاسک دیا گیا، میں نے اسے بھی قبول کیا اور مختصر عرصہ کے لیے ڈائریکٹر آف کالجز کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

سوال : آپ زمانہ طالب علمی میں بہت بہادر تھے ،بعض کالجوں میں بحیثیت پرنسپل طلبہ کے ساتھ دلیرانہ طریقے سے مقابلہ کیا۔
جواب : زمانہ طالب علمی سے ہی ایتھلیٹ ہونے کی وجہ سے مضبوط قد و قامت رکھتا تھا۔ نڈر ہونے کی وجہ سے طلبہ کو دہشت زدہ کرنے والی سرگرمیوں سے مرعوب نہیں ہو تا تھا۔ میرا یہ طرزعمل اور دلیری کے ساتھ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا میرا معمول رہا، جب میں عملی زندگی میں آیا تو طلبہ کے جذبات ، ان کے احساسات اور اس بات سے اچھی طرح آگاہ تھا کہ جب وہ اپنے جذبات اور مطالبات کے حق میں شدید رویہ اختیار کریں تو ان سے کس طرح نمٹا جائے۔ جب مجھے لیاری میں کالج پرنسپل بنا یا گیا اور میں نے اسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا ۔ جب میں پہلے دن کالج پہنچا تو طلبہ کالج پر قابض تھے، پرنسپل آفس ان کے قبضے میں تھا، چھت کا پنکھا بری طرح ٹوٹا ہوا تھا، یہی حال دیگر اشیاء کا تھا ،ان سب باتوں کا مقصد نئے پرنسپل کو مرعوب کرنا اور خوف زدہ کرناتھا۔ میں نے صورت حال کا جائزہ لیااور فیصلہ کیا کہ طلبہ سے براہِ راست بات کرنا چا ہیے اور ان کے اصل مسائل معلوم کرناچاہیں۔ میں جوں ہی کالج میں داخل ہوا طلبہ نے آوازیں کسنا شروع کیں ، میں نے اپنے آپ کوان سے بات کرنے پر آمادہ کیا، میں جوں ہی ان کے قریب پہنچا وہ خاموش ہوگئے اور میری اس غیر متوقع آمد اور ان سے قربت پر وہ حیران بھی ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں تمہارے مسائل حل کرنے آیا ہوں، تم مجھ سے بات کرو اپنے مسائل مجھے بتاؤ تاکہ میں انہیں حل کرسکوں ، میں نے انہیں اخلاقیات کا درس دیاانہیں سمجھا یا اور ان کی شدت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ میرا خیال ہے کہ تعلیمی اداروں میں اکثر مسائل اس لیے حل نہیں ہوتے کہ ہم لوگ انہیں faceہی نہیں کرتے۔ میرا ہی طرز عمل تھا کہ اکثر کالجوں میں طلبہ نے مجھ سے پوجنے کی حد تک محبت کی وہ میرے لیے آنسوؤں سے روئے حتیٰ کہ جب میں دادو سے ٹرانسفر ہوا اورر خت سفر باندھا تو طلبہ نے میری محبت میں میرے ٹرانسفر کے خلاف احتجاج کیا اور جب میں ٹرین کے ذریعہ دادو سے روانہ ہونے لگا تو اکثر طلبہ ٹرین کے آگے لیٹ گئے۔ یہ تھی طلبہ کی ایک استاد سے محبت۔

سوال : جب آپ نے گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ناظم آباد کے پرنسپل کا چارج لیا تو آپ کی ترجیحات کیا تھیں؟
جواب : میری کوشش رہی کہ طلبہ کی سرگرمیوں کو channelizedکیا جائے۔ ان میں ہم نصابی سرگرمیاں جن میں قرآت ،نعت ڈیبیٹ، تقریری مقابلے، معلومات عامہ کے مقابلے، کھیل اور ان میں لیڈرانہ صلاحیت پیدا کی جائے۔ میری نظر میں teacher is a friend, phylosopher and a guideاس مقصد کے حصول tutorial groupشروع کیے۔ ہم طلبہ کی تمام معاشرتی زندگی میں درپیش مسائل کے حل کے لیے رہنمائی کرتے تھے یہ سلسلہ اس قدر مقبول تھا کہ طلبہ اپنے والدین سے زیادہ اپنے اساتذہ کی عزت کیا کرتے تھے اور والدین اپنے بچوں کی یہ شکایت لے کر آیا کرتے تھے ۔ اگر ہم طلبہ کو ایک اچھا انسان بنا دیں تو وہی ہماری بخشش کا سبب بن سکتا ہے۔

سوال : تعلیمی اداروں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طلبہ نے کالجوں کے بجائے کوچنگ سینٹرز کا رخ کر لیا ہے اب اانہیں کالج کیسے لایا جاسکتا ہے؟
جواب : کوچنگ سینٹرز پر پابندی لگا نے کے بجائے کالجوں میں کل وقتی تدریس کا عمل شروع کردیا جائے ۔ اساتذہ کل وقتی کالجوں میں تدریس کے فرائض انجام دیں۔نظام ایسا مرتب کیا جائے کہ اساتذہ اور طلبہ ہمہ وقت مصروف رہیں۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں مکمل سہولتیں بھی مہیا کی جائیں۔ پروفیسر کمال ایک بار پھر ماضی کے جانب لوٹ گئے اور بتا یا کہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ایک نشست میں سوال کیا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کا قتل عام کیوں؟ جب میں نے تقریر کی تو میں نے ان سے سوالات کیے کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے طلبہ کا استحصال کیوں؟ دانشور اور صحافی مصلحتوں کا شکار کیوں ؟ کارنبوت کے جانشین مصلحتوں کا شکار کیوں؟ میرا خیال ہے کہ اب وہ استاد ہی نہ رہے اصل ضرورت استاد کی ہے، جو استاد دینے والا تھا اب وہ لینے والا بن گیا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر کمال نے گورنمنٹ کالج حیدر آباد کے سابق پرنسپل Edru Devartکا تذکرہ بہت ہی محبت سے کیااور بتا یا کہ وہ ان سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ وہ کالج میں زیادہ تر آخری پیریڈ ہی لیا کرتے تھے اس کلاس میں طلبہ بڑی تعداد میں موجود ہوا کرتے تھے۔ آپ کا کہنا تھا کہ لیاری میں اتوار کے روز میں خصوصی کلاس لیا کرتا تھا جس میں دیگر کالجوں کے طلبہ بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ آپ کا کہنا تھا کہ میں حالت وضو میں کلاس میں جایا کرتا تھا اور لیکچر کے دوران یہ تصور ہو ا کرتا تھا کہ گو یا میں حالت نماز میں ہوں۔

سوال : آپ موجودہ دور میں طلبہ سے کیا توقعات رکھتے ہیں اور انہیں کیا پیغام دینا چاہیں گے۔
جواب : نوجوان تدبر اور تجسس کی طرف گامزن ہورہے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ میرے بعد اجالا ہے، میں تبدیلی دیکھ رہا ہوں، نوجوان طلبہ کا جوش و ولولہ ہر چیز کوخس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں کا اعتراف کیا جائے اور احتساب کے ساتھ صحیح سمت کی جانب پیش قدمی کی جائے۔ آپ نے مزید کہا جو قدیم ہے وہ میرا ورثہ ہے اور جو جدید ہے وہ بھی میرا ہے۔ استاد کبھی ریٹائر نہیں ہوتا، وہ علم کا چراغ ہے جو کبھی گل نہیں ہوتا بشرطیکہ اخلاص موجود ہو۔
۱۴ فروری ۲۰۰۸ء
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280635 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More