گدا گری۔۔۔۔۔۔۔ایک ناسور

وطنِ عزیز میں سرایت کئے ہوئے دوسرے ناسوروں کی طرح گداگری بھی ایک بہت بڑا ناسور ہے۔ہمارے ملک میں اس وقت گداگری بہت بڑا کاروبار بن چکی ہے۔ہمارے ہاں گداگری اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر قدم پر ایک دو گداگر مرد،عورت،بچے اور خواجہ سرا پائے جاتے ہیں۔پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جوبھیک مانگنے کو اپنا پیشہ بنا رہے ہیں۔ آج کل تو گداگروں کا سیزن عروج پر ہے۔ایک عام اندازے کے مطابق رمضان المبارک اور عید پر یہ گداگر فطرانہ،زکوٰۃاور صدقہ کے طور پر اتنی آمدنی کر لیتے ہیں جتنی پورے سال میں نہیں کر سکتے۔پُورا ملک رمضان المبارک میں بھکاریوں سے ایسے بھر جاتا ہے جیسے بارش کے بعد پروانے اُمڈ آتے ہیں۔یہ معاملہ کسی خاص علاقے کا نہیں ہے بلکہ ہم کہیں بھی جائیں ہر جگہ ان پیشہ ور بھکاریوں نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی ہیں۔مختلف حیلوں ،بہانوں سے یہ لوگوں کو بیوقوف بنا کر اُن سے پیسے اینٹھتے ہیں۔ کوئی اپنی خود ساختہ معذوری کا رونا روتا نظر آتا ہے اور کوئی اپنی بیماری کے سرٹیفکیٹ لئے گھو م رہا ہے۔

گداگری کا ضرورت سے کوئی تعلق نہیں رہابلکہ یہ ایک باقاعدہ پیشے کی صورت اختیار کر چکی ہے اور پورے کے پورے گھرانے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ ہر کسی کا اپنا علاقہ اور اپنی حدود ہیں۔یہ پیشہ ور بھکاری اس مقدس مہینے کے تقدس کو مجروح کر رہے ہیں۔مجموعی طور پر وطن عزیز میں سارا نظام ہی بھیک پر قائم ہے۔اور بھکاریوں کے معاملے میں ہم خود کفیل ہیں بلکہ بذات خود مجھے کئی ممالک میں پاکستانی بھکاری مختلف انداز میں سڑکوں پر مانگتے نظر آئے جن کو دیکھ کر ہی سر شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اوپر والے ہاتھ کو نیچے والے ہاتھ سے بہت بہتر قرار دیا ہے اور کسی سوالی کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ لوٹا نا بھی اﷲ اور اس کے رسول کی کسی طرح پسند نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لینے والے یہ ہاتھ ایک منظم مافیہ بن جائیں اور اصل حاجت مندوں اور ضرورت مندوں کا حق مارتے رہیں۔یہ کیسا معاشرہ ہے جو اﷲ کے نام پراِن پیشہ وَر بھکاریوں کو بھیک تو دیتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دینے کی بجائے حیلوں،بہانوں سے دینا ہی نہیں چاہتا۔ جس مُلک میں مزدور دن بھر اپنا خون پسینہ ایک کر کے صرف300-500روپے کمانا ہے اُسی ملک میں گداگر چند گھنٹوں میں ہزاروں کما کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔

یہ پیشہ ور بھکاری ایک چیلنج سے کم نہیں ہیں جو اﷲ کے نام پر مانگ مانگ کر لوگوں کو جذباتی طور پر مشتعل کر کے لوٹتے ہیں۔لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہیں۔حکومت وقت کا یہ فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ ذمہ داران نے کبھی بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کی اِن گداگروں کی آڑ میں کہیں کوئی غیر مُلکی جاسوس، دہشت گرد یا مُلکی دُشمن تو نہیں جو رنگ برنگے چُغے پہنے ملنگوں اور فقیروں کا روپ دھارے بظاہر تو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہوں اور اندرونی طور پر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لئے کوشاں ہوں۔ عوام الناس کو بھی اس با ت کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اپنی زکوٰۃ، فطرانہ اور صدقہ سے صرف ضرورت مندوں کی مدد کریں۔اپنے اردگرد کے غریب اور بے سہارا رہائشیوں کا خاص خیال رکھیں اور اُن کی مدد کریں ۔ تا کہ ہماری آمدنی نیک مقصد میں صرف ہو اور غریب پروری کا فریضہ بھی ادا ہو جائے اس طرح پیشہ ور بھکاریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بھی خاطر خواہ کامیابی مِلے گی۔
Mian Azam Ali Saghar
About the Author: Mian Azam Ali Saghar Read More Articles by Mian Azam Ali Saghar: 2 Articles with 1908 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.